ساس بہو تعلقات:خوش گواری لانے کی تدابیر

” مولانا صاحب ! میں خلع لینا چاہتی ہوں ـ بتائیے ، مجھے کیا کرنا ہوگا؟ ” میں رات میں سونے کی تیاری کررہا تھا کہ ایک لڑکی کا فون آیاـ

” لے لیجیے ـ اس کے لیے آپ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ اپنے شوہر سے صاف الفاظ میں کہہ دیجیے کہ اب آپ ان کے ساتھ کسی صورت میں نہیں رہ سکتیں ـ وہ آپ کو ایک طلاق دے دیں گےـ بس خلع ہوگئی ـ البتہ اس صورت میں آپ کو مہر واپس کرنا ہوگاـ”

” مولانا صاحب ! آپ نے پوچھا ہی نہیں کہ میں کیوں خلع لینا چاہتی ہوں؟” لڑکی نے سوال کیاـ

” میں نے ضرورت نہیں سمجھی ـ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ شریعت نے عورت کو حق دیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا خود فیصلہ کرسکتی ہےـ نکاح ہوجانے کے بعد بھی اگر وہ محسوس کرتی ہے کہ شوہر سے اس کی ہم آہنگی نہیں ہے اور وہ پُرسکون زندگی نہیں گزار سکتی تو علیٰحدگی حاصل کرسکتی ہےـ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : ” میں ثابت کے دین اور اخلاق کے بارے میں کوئی الزام نہیں لگاتی ، لیکن میں ان کے ساتھ گزارا نہیں کرسکتی ـ ” آپ نے فرمایا : ” تمھیں بہ طور مہر جو باغ ملا تھا وہ واپس کرنا ہوگاـ ” انھوں نے رضامندی ظاہر کی _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے علیٰحدگی کروادی ـ”(بخاری :5273)

میں نے طریقۂ خلع کی وضاحت کرنے کے بعد کہا : "ویسے اگر آپ چاہتی ہیں تو خلع لینے کی وجہ بھی بتا دیجیےـ”

لڑکی نے بولنا شروع کیا : ” میرے شوہر میرا بالکل خیال نہیں رکھتےـ میرا دو برس کا بچہ ہے ، اس کی بھی پروا نہیں کرتےـ بس اپنی ماں کے دباؤ میں رہتے ہیں ـ میری ساس مجھے بالکل پسند نہیں کرتیں _ بہت روک ٹوک کرتی ہیں ـ چاہے میں بیمار ہوں ، میرا بچہ بیمار ہو ، لیکن وہ مجھے آرام نہیں کرنے دیتیں _ انہی سب باتوں کو لے کر میں اپنے میکے آگئی تھی ـ اب دیکھیے ، آٹھ مہینے ہوگئے ہیں ، ان لوگوں نے میری بالکل خبر نہیں لی ـ ”

لڑکی بولتی چلی جا رہی تھی ـ ایسا لگ رہا تھا کہ ٹیپ ریکارڈر آن ہوگیا ہے _ میں نے روکاـ

” یہ بتائیے ، ان آٹھ مہینوں میں آپ نے اپنے شوہر کی کتنی بار خبر لی ہےـ وہ کیسے رہتے ہوں گے؟ کیا کھاتے پیتے ہوں گے؟ آفس جانے اور وہاں سے آنے کے کیا معمولات ہوں گے؟ انہیں کوئی پریشانی تو نہیں ہے؟ ساس سسر کیسے رہ رہے ہوں گے ؟ پتہ نہیں ، ان کی طبیعت ٹھیک ہے یا نہیں؟ یہ تو خود غرضی ہے کہ آپ یہ شکایت تو کریں کہ سسرال والوں نے آپ کو نہیں پوچھا ، لیکن آپ ان کی خبر نہ لیں ، اس پر آپ کو ندامت نہ ہوـ ” میں نے لڑکی کو نارمل کرنے کے لیے کچھ سوالات اس کے سامنے رکھےـ

” مولانا صاحب ! آپ سمجھ نہیں رہے ہیں ـ میں کیوں ان کی خبر لوں؟ مجھے تو معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ دوسری لڑکی تلاش کررہے ہیں ، بلکہ تلاش کرلی ہےـ” لڑکی نے اپنا اضطراب ظاہر کیاـ

میں نے جواب دیا : ” انہیں ضرور لڑکی تلاش کرنی چاہیےـ ان کا بیٹا بیوی ہوتے ہوئے آٹھ ماہ سے اس سے محروم ہےـ بیوی کی اکڑ ابھی اور کتنے دن رہے ، معلوم نہیں ـ انھوں نے اچھا فیصلہ کیا کہ اپنے بیٹے کی دوسری شادی کردیں _ اگر آپ اپنا رشتہ بچانا چاہتی ہیں تو فوراً شوہر اور سسرال والوں سے رابطہ کیجیے اور اپنے تمام گِلے شکوے دور کرلیجیےـ”

میں نے محسوس کیا کہ لڑکی کو میرا جواب پسند نہیں آیاـ اس نے کہا :

” میں نے رابطہ کیا تھا اور ان کے سامنے کچھ شرائط رکھی ہیں ـ”

میں نے فوراً ٹوکا :” ازدواجی زندگی شرائط پر نہیں گزاری جاتی _ آپ کو بغیر کسی شرط کے خود کو سرینڈر کردینا چاہیےـ”

"آپ نے پوچھا ہی نہیں کہ میں نے کیا شرائط رکھی ہیں؟ لڑکی نے بے چینی ظاہر کی ـ

میں نے کہا :” مجھے شرائط جاننے سے کوئی دل چسپی نہیں _ اس لیے کہ میں شرائط کے ساتھ زندگی گزارنے کو غلط سمجھتا ہوں _ پھر بھی اگر آپ چاہتی ہیں تو بتا دیجیے ـ ”

” میں نے اپنے شوہر کے سامنے یہ شرائط رکھی ہیں کہ وہ مجھے الگ گھر لے کر دیں گےـ میں ساس سسر کے ساتھ نہیں رہ سکتی ـ میں چاہے کوئی کام کروں یا نہ کروں ، وہ کوئی روک ٹوک نہیں کریں گےـ ”

میں نے سمجھایا : ” بیماری کی جڑ یہی ہےـ خود کو اپنی ساس کی جگہ رکھ کر سوچیے _ 20 برس کے بعد آپ اپنے لڑکے کا نکاح کریں گی ـ بہو آتے ہی یہ شرط رکھے کہ میں ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ، تب آپ کو کیسا لگے گا؟ ماں نے اپنے بیٹے کو پال پوس کر اتنا بڑا کیا ہےـ اب آپ چاہتی ہیں کہ اسے اپنی ماں سے دور کردیں!! اس کے بجائے ساس سسر کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے زندگی گزارنا سیکھیں ـ کیا آپ کی ماں نے آپ کو کبھی نہیں ڈانٹا؟ کیا آپ کی ماں نے آپ سے کوئی کام نہیں لیا؟ کیا آپ نے اپنی ماں کی کبھی کوئی خدمت نہیں کی؟ اگر آپ اپنی ساس کو اپنی ماں کی جگہ رکھ کر سوچیں تو ساس کی خدمت میں مزہ آئے گا اور ان کی تنبیہیں بُری نہیں لگیں گی ـ”

” مولانا صاحب ! پھر میں کیا کروں؟

“ سسرال سے کوئی لینے آئے یا نہ آئے ، آپ پہلی فرصت میں خود کسی کو لے کر سسرال پہنچ جائیے ، معافی مانگیے ، وعدہ کیجیے کہ آئندہ کسی شکایت کا موقع نہیں دیں گی _ ساس کے گلے لگ کر تھوڑی دیر رو لیجیے _ سارے گلے شکوے دور ہوجائیں گےـ”

” مولانا صاحب! ایسا کرنا مشکل معلوم ہورہا ہے ، لیکن خود کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں ،