اسلام میں طلاق:رحمت،جسے زحمت بنادیا گیا ہے-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

جماعت اسلامی ہند کی جانب سے اس میقات میں ازدواجی تفہیمی کورس چلایا جارہا ہے،جس کے تحت غیر شادی شدہ یا نوشادی شدہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے سامنے اسلام کی عائلی تعلیمات ، زوجین اور اہلِ خاندان کے حقوق ، خوش گوار خاندان کی تدابیر ، تنازعات کا حل اور دیگر موضوعات پر شرعی ، سماجی اور نفسیاتی رہ نمائی فراہم کی جاتی ہے _ یہ پروگرام الحمد للہ ملک کی مختلف ریاستوں میں منعقد کیے جارہے ہیں اور ان کے اچھے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں _ اس طرح کا ایک پروگرام حلقۂ دہلی میں طالبات کی تنظیم گرلس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (GIO) کی طرف سے منعقد کیا گیا ، جس میں آج میں نے طلاق و خلع کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا _ میری گفتگو کے نکات درج ذیل تھے :

(1) جس طرح گلاب کے پھول سے ایک پنکھڑی الگ کرکے اس پنکھڑی کو دیکھ کر گلاب کے حسن کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا ، اسی طرح اسلام کے مکمل نظام میں سے اس کے احکامِ طلاق کو الگ کرکے اس کا مطالعہ کرنے پر اس کی معنویت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔

(2) طلاق عام حالات میں اور بلا ضرورت دینا پسندیدہ نہیں ، لیکن بسا اوقات یہ ناگزیر ہوجاتی ہے _ نکاح کے بعد زوجین میں ناموافقت سامنے آئے ، کوئی ایک یا دونوں کسی بھی صورت میں ایک ساتھ رہنا نہ چاہیں تو مناسب نہیں کہ وہ آئندہ زندگی گُھٹ گُھٹ کر جئیں ، بلکہ بہتر ہے کہ الگ ہوجائیں اور نئی زندگی کی ابتدا کریں _ اسی وجہ سے دیگر مذاہب ، جن میں طلاق کا آپشن نہیں تھا ، وہ بھی اسے اپنے عائلی قوانین میں شامل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں _ اسلام میں طلاق زوجین اور خاص طور پر عورت کے لیے رحمت ہے ، لیکن اس کے بے جا اور ظالمانہ استعمال نے اسے عورت کے لیے زحمت بنادیا ہے ۔

(3) اسلام کی تعلیمات پر عمل ہو تو سماج میں کوئی لڑکا یا لڑکی بغیر نکاح کے نہیں رہیں گے _ لڑکی چاہے مطلّقہ ہوجائے یا بیوہ ، اس کا آسانی سے دوسرا نکاح ہوجائے تو طلاق کی شناعت کم ہوجائے گی _ لیکن افسوس کہ مسلم سماج کی بے جا اور مُسرفانہ رسموں کی وجہ سے لڑکیوں کا پہلا نکاح ہی دشوار تر ہوگیا ہے ، دوسرے نکاح کی بات کون کرے؟

(4) اسلامی تعلیمات پر عمل ہو تو نکاح کے نتیجے میں مرد پر ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ، وہ عورت کو مہر دیتا ہے ، اسے تحائف سے نوازتا ہے ، ولیمہ کرتا ہے ، عورت کے لیے رہائش فراہم کرتا ہے ، اسے نفقہ دیتا ہے ، وغیرہ _ جب کہ عورت کو کچھ نہیں کرنا پڑتا ، وہ مہر پاتی ہے ، تحائف وصول کرتی ہے ، نفقہ اور سُکنی کی مستحق بنتی ہے _ اگر لڑکی کا نکاح آسان ہوجائے اور طلاق یا بیوگی کے بعد بھی اس کے نکاح میں کوئی دشواری نہ ہو تو عموماً طلاق سے مرد خسارہ میں رہے گا کہ اسے دوسرا نکاح کرنے پر نئی بیوی کو مہر ، ولیمہ اور دوسرے مصارف کرنے پڑیں گے ، جب کہ عورت طلاق سے فائدہ میں رہے گی کہ دوسرا نکاح ہونے پر اسے پھر مہر ، نفقہ ، سکنی وغیرہ ملے گا _ لیکن افسوس کہ آج کے مسلم سماج نے جہیز ، تلک ، بارات اور دیگر رسموں کی شکل میں نکاح کے تمام تر مصارف کا بار لڑکی کے گھر والوں پر ڈال دیا ہے، جس کی وجہ سے طلاق عورت کے لیے وبال بن گئی ہے ۔

(5) اسلام میں طلاق پر بہت سوچ سمجھ کر ، سنجیدگی کے ساتھ اور منصوبہ بند طریقے سے عمل آوری کا حکم دیا گیا ہے ، لیکن افسوس کہ مسلمان مرد اس کا بے سمجھے بوجھے ، یک دم ، غصے میں استعمال کرتے ہیں ۔

(6) طلاق کو معاشرتی زندگی میں آخری چارۂ کار بنایا گیا ہے ، حکم دیا گیا کہ پہلے شوہر بیوی تنہا تنازع حل کرنے کی کوشش کریں ، نہ حل کرسکیں تو اپنے اپنے اہلِ خاندان کو واسطہ بنائیں ، وہ بھی کام یاب نہ ہو سکیں تب علیٰحدگی کو سوچیں ، لیکن افسوس کہ مسلمان مرد اسے تنازع شروع ہوتے ہی پہلے حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔

(7) طلاق پر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو یہ اصلاً مرد کے لیے سزا ہے ، لیکن اسے بدعملی کی بنا پر عورت کے لیے سزا بنادیا گیا ہے _ پہلے طلاق سے مرد خسارہ میں رہتا تھا ، اب لڑکی اور اس کے گھر والے خسارہ میں رہتے ہیں ۔

(8) اسلام نے زوجین کے درمیان قطعی علیٰحدگی کے لیے طلاق کے تین مواقع فراہم کیے تھے اور ہر طلاق کو الگ الگ استعمال کرنے کی تاکید کی تھی ، لیکن عام مسلمان نادانی سے ان سب کا استعمال بیک وقت کرلیتے ہیں ۔

(9) اسلام کا حکم ہے کہ ایک طلاق اس وقت دی جائے جب عورت پاکی کی حالت میں ہو ، طلاق کے بعد عدّت کے دوران میں وہ شوہر کے گھر میں ہی رہے اور حسبِ سابق زیب و زینت اختیار کرے _ یہ حکم اس لیے دیا گیا تھا تاکہ دونوں کو اپنے رویّوں پر نظر ثانی کا موقع ملے اور رجوع کی کوئی صورت بن جائے _ لیکن افسوس کہ مسلمان مرد طلاق دے کر عورت کو فوراً گھر سے نکال دیتے ہیں اور عدّت کے دوران میں اس کی باکل خبر نہیں لیتے ۔

(10) پسندیدہ یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دی جائے _ جب ایک طلاق سے کام چل جاتا ہے تو زیادہ کا استعمال بے مصرف اور غیر دانش مندی ہے _ اس طرح عدّت مکمل ہوتے ہی دونوں آزاد ہوجاتے ہیں کہ اپنی آئندہ زندگی کا فیصلہ کریں _ اس صورت میں رجوع کی گنجائش بھی رہتی ہے کہ دونوں چاہیں تو آزاد مرضی سے پھر نکاح کرسکتے ہیں ۔

(11) تین طلاق کے بعد دائمی حرمت کا حکم اصلاً مرد کو سزا دینے کے لیے دیا گیا ہے کہ وہ اتنا نالائق ہے کہ عورت جیسی خوب صورت ترین ہستی کو اپنے پاس رکھنے کے قابل نہیں ہے ، لیکن حالاتِ زمانہ نے اسے عورت کے لیے سزا بنادیا ہے ۔

(12) حلالہ کی مروّجہ صورت بالکل حرام ہے ، جس میں تین طلاق کے بعد شوہر مطلّقہ بیوی کا کسی اور مرد سے نکاح کا ناٹک کرتا ہے ، پھر اس سے طلاق دلواکر دوبارہ اس سے نکاح کرلیتا ہے _ یہ صورت خود سے پیدا ہوجائے تو جائز ہے ، لیکن جان بوجھ کر یہ مراحل انجام دینے والوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت بھیجی ہے۔

(13) طلاق اور خلع میں کوئی فرق نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ مرد کی خواہش کے باوجود عورت اس کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ اس سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے _ مرد پر لازم ہے کہ اس کا مطالبہ مان کر اسے طلاق دے دے _ اس صورت میں عورت کو مہر وغیرہ سے دست بردار ہونا پڑتا ہے _ خلع ایک طلاق کے حکم میں ہے _ خلع کے بعد دونوں کا (عدّت کے اندر یا عدت کے بعد) پھر سے نکاح ہوسکتا ہے _ قاضی کے ذریعے فسخِ نکاح کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب مرد عورت کا مطالبہ نہیں مانتا اور اسے لٹکائے رہتا ہے۔

(14) عدّت کے دو مقصد ہیں : سوگ اور استبراءِ رحم ، یعنی یہ جاننا کہ عورت کو حمل تو نہیں ہے _ اسی لیے رخصتی سے قبل طلاق ہوجائے تو کوئی عدّت نہیں _ مطلّقہ کی عدّت تین ماہ واری یا تین مہینے ہے _ اس مدّت میں حکم ہے کہ عورت زیب و زینت نہ اختیار کرے اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے ۔

میری گفتگو کے بعد لڑکیوں نے بہت سوالات کیے ۔ انھوں نے اپنے اشکالات رکھے اور وضاحتیں چاہیں _ میں نے تفصیل سے ان کے جوابات دیے ۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ لڑکیوں کا دینی شعور کافی بلند ہے اور وہ سنجیدگی سے اسلام کی عائلی تعلیمات سمجھنا چاہتی ہیں۔ اس پروگرام میں سو (100) سے زائد طالبات نے شرکت کی ۔ یہ چیز باعثِ اطمینان ہے کہ ایسے پروگرام دوسری ریاستوں میں بھی منعقد کیے جارہے ہیں ۔