امید

ویسے تو غریب داس شکل صورت سے نہایت شریف انسان معلوم ہوتا ہے، جبکہ حقیقتاً بہت تیز طرار ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں غریب داس عمل دخل رکھتا ہے مگر سیاست میں غریب داس کو کچھ زیادہ ہی دلچسپی ہے۔ یہ دلچسپی ہی ہر پانچ سال بعد گاؤں میں پنچایتی الیکشن میں غریب داس کی موجودگی کو یقینی بنادیتی ہے۔ چاہے کتنی بھی مصروفیت ہو غریب داس گاؤں کے پردھانی کے الیکشن میں ضرور جاتے ہیں۔ چونکہ گاؤں میں مستقل طور پر رہتے نہیں، اس لیے غریب داس کی عزت سبھی گاؤں والے کرتے ہیں اور سب ہی الیکشن لڑنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ غریب داس صرف اسی کو الیکشن لڑانے کے لیے آئے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں معمول کے مطابق دو تین روز پہلے غریب داس گاؤں پہنچ گئے اور سبھی امیدواروں سے مل کر اندازہ کرلیا کہ اس بار گاؤں کا ایک بھی امیدوار جیتنے والا نہیں ہے۔ کیونکہ غریب داس کے گاؤں کے ساتھ تین چھوٹے چھوٹے گاؤں اور جڑے ہوئے ہیں اور ان تینوں گاؤں میں سے صرف ایک ہی امیدوار ہے، باقی غریب داس کے گاؤں سے نو امیدوار ہیں۔ اس لیے گاؤں کے زیادہ ووٹ ہونے کے باوجود بھی باہر کے امیدوار کا جیتنا طے ہے۔ اگرچہ گاؤں کا ہر امیدوار جیتنے کا دعویٰ کررہا تھا کوئی اپنے کو بڑے خاندان کا ہونے کی وجہ بتارہا تھا تو کوئی اپنے کردار کی بدولت جیتنے کا دعویٰ کررہا تھا، کوئی اپنے کام کے بل پر بھروسہ کیے ہوا تھا۔ سب کے اپنے اپنے دعوے تھے مگر حقیقت یہی تھی کہ گاؤں کا کوئی بھی امیدوار جیت نہیں سکتا تھا۔

متعلقہ مضامین

گاؤں کا پردھانی کا الیکشن یوں تو معمولی ہوتا ہے مگر سچ یہ ہے کہ اس سے زیادہ مشکل کوئی دوسرا الیکشن نہیں ہوتا۔ یہاں کیونکہ ہر فرد ایک دوسرے کو نہ صرف نام سے جانتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے خاندان اور شجرے تک سے واقف ہوتا ہے۔ ایک ایک ووٹ پہلے ہی سامنے آجاتا ہے کہ یہ ووٹ کس امیدوار کو جائے گا۔ اس لیے جو لوگ ذرا سا بھی سیاسی شعور رکھتے ہیں انھیں اندازہ لگالینا زیادہ مشکل نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے غریب داس کے دعوے میں بڑی حد تک سچائی تھی، مگر پھر بھی جب تک رزلٹ نہ آجائے کچھ کہنا مشکل ہی ہوتا ہے۔ جیسے تیسے کرکے الیکشن ہوگیا اور ووٹوں کی گنتی کی نوبت آگئی۔ چونکہ الیکشن پورے علاقے میں ہوا تھا اور گنتی قریب کے قصبے میں ہونی تھی اور اتفاق کی بات کہ غریب داس کے گاؤں کی گنتی کا نمبر رات میں طے ہوا تھا۔ گاؤں کے سبھی امیدوار گنتی کے لیے پہنچ چکے تھے مگر گاؤں کا کوئی امیدوار اپنے ساتھ لاؤ لشکر لے کر نہیں گیا تھا کیونکہ پولنگ کے بعد سبھی امیدواروں نے حساب لگا کر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس لیے ہر امیدوار ایک دو کے ساتھ ہی گنتی میں حصہ لینے گیا تھا، ابھی غریب داس کے گاؤں کا نمبر نہیں آیا تھا، تمام امیدوار باہرہی گھوم رہے تھے۔ غریب داس کو یہ دیکھ کر بہت برا لگا کہ اس کے گاؤں کے امیدوار ایک دو کے ساتھ ہی گھوم رہے ہیں اور کسی کو بھی اپنے جیتنے کی امید نہیں ہے۔ اگرچہ اندازہ غریب داس کا بھی یہی تھا۔ مگر وہ نہیں چاہتا تھا کہ گاؤں کے امیدوار ہر سال کی طرح اپنے حامیوں کے ساتھ نہ ہوں، چنانچہ غریب داس نے ایک امیدوار کو پکڑا اور اسے ایک تنہائی کی جگہ لے جاکر پوچھا کہ آپ تنہا کیوں آئے ہو؟ امیدوار جو غریب داس سے پہلے ہی سے متاثر تھا، بلا تکلف بتادیا : چچا آپ تو جانتے ہی ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی جیتنے والا تو ہے نہیں، اس لیے سب ہی ایک دو لوگوں کے ساتھ آئے ہیں۔ میں بھی اسی لیے ایک دو کے ساتھ آگیا۔ لیکن تمھیں کس نے بتایا کہ تم جیت نہیں رہے ہو۔ چچا وہ تو حساب لگا کر دیکھ لیا۔ کیسے؟ مجھے بھی سمجھاؤ غریب داس نے اپنی جیب سے کاغذ اور پین نکالا اور کہا بتاؤ : اس محلے سے تمھیں کم سے کم کتنے ووٹ ملے ہوں گے۔ امیداور نے تھوڑا سوچا اور کہا کم سے کم سات سو۔ غریب داس نے کہا نہیں، صرف دو سو ووٹ جوڑ لیتے ہیں۔ کافی دیر تک امیداور بحث کرتا رہا کہ دو سو بہت کم ہیں۔ مگر غریب داس نے ایک نہ سنی اور اسی طرح تمام محلوں کے ووٹ امیدوار کے بتائے ہوئے ووٹوں کو کم کرکے لکھتا رہا۔ جب ٹوٹل کرکے جوڑا تو امیدوار کو ساڑھے چار ہزار ووٹ مل رہے تھے۔ غریب داس نے کہا کہ جیت کتنے ووٹوں پر ہونی ہے؟ امیداور نے کہا: چچا جسے ساڑھے تین ہزار مل جائیں گے، وہ ہر حالت میں جیت جائے گا۔ توپھر تم اپنی ہار پہلے ہی کیوں تسلیم کررہے ہو۔ اگر کم سے کم ووٹ جوڑنے پر بھی تمہارے ووٹ ایک ہزار سے زیادہ ہورہے ہیں، انھیں بھی کم کردو تو بھی تم ہی جیت رہے ہو۔ امیدوار تعجب سے غریب داس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر خوشی کے اثرات نمایاں ہورہے تھے۔ وہ اپنی ہار کو جیت کی شکل میں دیکھ رہا تھا۔ اس کو ان تمام لوگوں پر غصہ آرہا تھا جنھوںنے حساب لگا کر بتایا تھا کہ وہ ہار رہا ہے۔ امیدوار نے فوراً اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک بڑا نوٹ نکال کر اپنے ساتھ آئے ہوئے شخص کو دیا کہ جلدی سے دوڑ کر مٹھائی لا۔ ہماری جیت پکی ہے۔ سب سے پہلے چچا غریب داس کا منھ میٹھا کرا۔ جیب سے موبائل نکال کر اپنے بھائی کو فون کیا کہ جلدی سے تمام حامیوں کو لے کر قصبہ پہنچو، کیونکہ ہم لوگ ہی الیکشن جیت رہے ہیں۔ یہی فارمولا غریب داس نے اپنے گاؤں کے تمام امیدواروں پر آزمایا اور ہر امیدوار اسی خوش فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ وہ جیت رہا ہے۔ چنانچہ ہر امیدوار نے اپنے اپنے حامیوں کو بلا لیا اور ہر امیدار کے حامی نعرہ لگاتے ہوئے سیکڑوں کی تعداد میں آدھمکے ۔ ادھر گاؤں میں غریب داس کی بیٹھک سڑک کے کنارے تھی، وہاں روز مرہ کافی لوگ بیٹھ کر حقہ پیتے ہیں۔ تمام قافلے نعرے لگاتے ہوئے وہاں سے گزرے۔ غریب داس کے بڑے بھائی جو خود گاؤں کی سیاست میں بڑا عمل دخل رکھتے تھے، بیٹھک میں بیٹھے تمام لوگوں کے ساتھ حیرت زدہ تھے کہ گاؤں کے تمام امیدوار کس لیے اپنے حامیوں کو بلارہے ہیں۔ جبکہ ان میں سے تو کوئی جیت ہی نہیں سکتا۔ اس چمتکار سے تمام ہی لوگ سکتے میں تھے۔ ہر کوئی وجہ جاننا چاہتا تھا چنانچہ غریب داس کے بڑے بھائی نے اپنے بیٹے سے کہا تم جاکر دیکھو وہاں کیا چل رہا ہے۔ بیٹے نے کہا : چچا وہاں موجود ہیں، میں فون کرکے ابھی چچا سے معلوم کرتا ہوں۔ فون پر گفتگو کے بات بڑے بیٹے نے بتایا کہ یہ سب چچا کا ہی چمتکار ہے۔ رزلٹ کے بعد معلوم ہوا کہ غریب داس کے گاؤں کے تمام امیدوار ہار چکے ہیں اور باہر کا امیدوار جو تنہا لڑا تھا، جیت چکا ہے۔ ہونا تو یہی تھا مگر غریب داس نے ثابت کردیا تھا کہ امید میں کتنی طاقت ہوتی ہے

حامد علی اختر