کملا کے سنگ بِملا

 دفعہ377 کی منسوخی کا اعلان کیا ہوا کہ چاروں طرف کا نظارہ ہی بدل گیا۔ غریب داس نے دیکھاکہ بارات جارہی ہے اور لکھا ہے کہ کملہ کے سنگ بملہ۔اخبارات کی سرخیاں بھی عجیب طرح کی ہیں۔مالک نے اپنے نوکر کے ساتھ شادی کر کے مساوات کی مثال قائم کی ۔ساس نے بہو کے ساتھ شادی رچاکر روز روز کے جھگڑوں سے چھٹکارہ حاصل کیا ۔دو سوتنوںنے ایک ہوکر، لیا پتی سے بدلہ۔ ریسرچ اسکالر نے اپنے پروفیسر کے ساتھ پھیرے لے کر روز روز کی بھاگ دوڑ سے پائی نجات۔

غریب داس بے چارہ تھوڑا بہت پڑھا لکھا تھا ۔اسے ٹھیک سے دفعہ377 کے بارے میں علم ہی نہیں تھا اس نے تو پارلیمانی انتخابات میں بڑے بڑے لیڈروں کی تقریریں سنی تھیں کہ اگر وہ ستہ میں آگئے تو دفعہ 370 فوراً ختم کر دیں گے۔ نیتاؤں کے اس جملے کے بعد تالیوں کی آواز سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس  370 کا ختم ہونا ضروری ہے۔بار بار بھاشنوں میں سننے کی وجہ سے غریب داس کو لگتا تھا کہ شاید یہی وہ خطرناک دفعہ ہے جس نے ہندوستان کو ترقی نہیں کرنے دی اور یہ دفعہ جب تک نہیں ہٹے گی شاید ہمارے ملک کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔اور کبھی اچھے دن نہیں آئیں گے۔

تبھی تو ہر پروگرام میں بڑے بڑے نیتا دفعہ 370 ہٹانے کی بات کرتے ہیں ۔

غریب داس بھی ان ہی معصوموں میں سے ایک تھا ۔جس کو یقین تھا کہ دفعہ370ہٹ جائے گی اور اچھے دن آ جائیں گے۔الیکشن وہی پارٹی جیتی اور حیرت انگیز طور پر اتنی سیٹوں کے ساتھ جیتی جس کا ندازہ بڑے سے بڑے سیاسی پنڈت نے بھی نہیں لگایاتھا۔سرکار بنے چھ ماہ بیت چکے تھے ایک دن غریب داس کو نیتاؤں کے بھاشن یاد آئے اور اس نے معصومیت سے پوچھا کہ صاحب دفعہ370 ہٹ گئی۔ ہم نے پوچھاغریب داس دفعہ370 کے ہٹنے سے تمہارا کیا فائدہ؟ صاحب تبھی تو اچھے دن آئیں گے۔ارے بے وقوف 370 کے ہٹنے سے نہیں بلکہ تمہارے کھاتے میں جب 15لاکھ آئیں گے تب اچھے دن آئیں گے۔اچھا صاحب اور کیا کیا علامتیں ہیں اچھے دن آنے کی ۔بھائی سرحد پر ایک سر کے بدلے دس سر کاٹ کے لائیں گے۔رام مندر بن جائے گا۔ہر سال دو کروڑ لوگوں کو نوکری مل جائے گی۔مہنگائی کا نام و نشان ہندوستان سے مٹ جائے گا۔چین ہمارے قدموں میں گر کر رحم کی بھیک مانگے گا۔ہر طرف وکاس ہی وکاس ہوگا۔

غریب داس ایک سال بعد آیا اور پوچھنے لگا صاحب اب تو سرکار بنے ڈیڑھ سال ہو گیا ۔اچھے دن آ گئے مگر الٹا سوال سن کر غریب داس خاموش ہو کر چلا گیا کہ تمہیں کیا لگتا ہے؟

غریب داس وقفے وقفے سے معلوم کرتا رہا ۔مگر اسے اچھے دن آتے کہیں سے دکھائی نہیں دیئے ۔اس کی ہمت اب صاحب سے پوچھنے کی بھی نہیں ہوتی تھی کیوں کہ نئی سرکار نے نوٹ بدل کر اور جی ایس ٹی لگا کر غریب داس کے صاحب کو بھی کنگال کر دیاتھا ۔غریب دا س اپنے صاحب کی حالت دیکھ کر بہت دکھی تھا۔وہ اپنے ایشور سے یہی پراتھنا کرتا تھا کہ کسی طرح برے دن ہی واپس آ جائیں اور اس کے صاحب بات بات پر اسے ہنساتے رہیںاور جو کارخانے اور فیکٹریاں صاحب کی بند ہو چکی ہیںوہ دوبارہ چل پڑیں اس درمیان غریب داس کو دفعہ 377 کے ختم ہونے کی اطلاع ملی اور ٹی وی پر لوگوں کو خوشیاں مناتے مٹھائی بانٹتے دیکھا تو غریب داس بھی خوشی سے جھوم اٹھا ۔سماج میں عجیب تبدیلی تھی۔اخبارات کی سرخیاں غریب داس کو دفعہ377 کے خاتمے کی طرف لے گئیں اور غریب داس 377 کو لکھنے بولنے کی غلطی سمجھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا کہ 370 کا خاتمہ ہو گیا ہے۔وہ دوڑتا ہوا صاحب کے روم میں پہنچا اور صاحب کو دلاسا دیتا ہوا بولا صاحب جھومئے، ناچئے،گایئے آج ساڑھے چار سا ل بعد ہی سہی مگرسرکار نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے اوراچھے دن آگئے ہیں۔

حامد علی اختر