بابا گیسو دراز

ظفر کل ہی علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم بی اے کرکے گھر آیا تھا اس کے اعزاز میں بہت بڑی پارٹی رکھی گئی تھی۔ قرب

وجوار کے مالدار، غریب، سبھی پارٹی میں شریک ہوئے تھے۔ ہر ایک کی زبان پر ظفر کی کامیابی کے چرچے تھے، ہوتے بھی کیوں نا! چھوٹا سا قصبہ تھا، جہاں دوچار کلاس پڑھنا ہی کافی سمجھا جاتا تھا۔ ظفر کے والد تجارت کرتے تھے اللہ نے دولت سے نواز رکھا تھا۔انھوں نے ظفر کی پڑھائی کا پورا خیال رکھا اور آج ان کا بیٹا مینجمنٹ کی ڈگری لے کر گھر آگیا تھا،خوشی کی بات تھی، اس لیے دعوت کا اہتمام ضروری سمجھا گیا۔

دعوت کے اختتام پر ظفر نہ جانے کیوں بے ہوش ہوگیا۔ دعوت میں ہی موجود ڈاکٹر صاحب نے چیک اپ کیا اور بتایا کہ شاید زیادہ تھکان کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی ہے، گھبرائیے نہیں جلدی ہوش میں آجائے گا۔ مگر گھر والے مطمئن نہ ہوئے ہاسپٹل لے گئے تمام چیک اپ ہوئے ڈاکٹروں کی نظر میں ظفر بالکل ٹھیک تھا۔ مگر ظفر ہر وقت گم سم رہنے لگا اور کبھی کبھی عجیب عجیب سی حرکتیں کرنے لگا۔ دوچار روز میں  پورے علاقے میں مشہور ہوگیا کہ ظفر کے اوپر سایہ ہے اور کوئی کہتا کسی نے حسد جلن میں کچھ کروادیا ہے غرض کہ جتنے منھ اتنی باتیں۔

ظفر کے والد ان خیالات کے نہیں تھے مگر اولاد کی محبت میں عزیزواقارب کے مشوروں کو ماننے پر مجبور کردیا اور یہ طے ہوا کہ اچھا کسی صاحب کرامت کو دکھایا جائے چنانچہ مرحوم اسیران زلف سیاہ کے اکلوتے خلیفہ بابا گیسودراز زلف سیاہ کا نام طے ہوا۔ علاقے میں بابا گیسودراز کے ہر طرح کے قصے مشہور تھے۔ وہ اپنے کشف وکمال سے نہ جانے کتنے لوگوں کو موت کے منھ سے بچالائے تھے اور جو کسی وجہ سے نہیں بچ سکے تھے ان کے بخشوانے کا پورا پورا انتظام کرتے تھے۔ مردے کو دفناتے ہی وہ قبر پر ادھر سے ادھر بڑی تیزی سے کودتے ہوئے زور زور سے فرماتے تھے، ارے ڈرے مت یہ منکر نکیر ہیں انھیں بتادے کہ میں بابا گیسو دراز کا مرید ہوں اور نہ جانے کیا کیا پڑھ کر اورمردے کو بتابتا کر جب وہ پسینے سے شرابور ہوجاتے تو لواحقین سے کہہ دیتے کہ بخشش ہوگئی اور نذرانے لے کر فرماتے اگر کوئی اور دقت ہوگی تو آپ لوگ فکر مت کرنا۔ سننے میں یہ بھی آیا کہ بعض اوقات دو تین دن بعد وہ لواحقین سے آکر اور نذرانہ وصول کرلیتے کہ میں قبر پر گیا تھا۔ حالات بہت خراب تھے۔ منکر نکیر تو مان گئے تھے مگر عذاب کے اور فرشتے آگئے تھے بڑی مشکل سے انھیں بھگایا ہے سننے میں یہ بھی آیا کہ کچھ نے اپنے بخشوانے کا نذرانہ پہلے ہی جمع کردیا ہے کہ معلوم نہیں اولاد بابا کی خدمات لے یا نہ لے۔

ظفر کے والد اپنے دوستوں کی ساتھ بابا گیسو دراز زلف سیاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور اپنی آپ بیتی سنانی شروع کی۔ بابا نے فوراً ٹوک دیا نہیں آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہمیں سب معلوم ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کا بیٹا شاہ قمقمے والا کی درگاہ پر گیا تھا مگر ایک پھوٹی کوڑی بھی اس نے نذرانے میں نہیں دی تھی۔ یہ آسیب وہیں سے اس پر سوار ہوا ہے اور جب تک واپس نہیں ہوگا جب تک تمہارا لڑکا توبہ نہ کرلے مگر آپ فکر نہ کریں میں کل آؤں گا اور وہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔ میرے ہمراہ میرے پانچ چھ مرید رہیں گے ان کے طعام و قیام کا انتظام رکھیے گا۔ ظفر کے والد نے کہا آپ بے فکر رہیے۔

بابا گیسو دراز من ہی من میں خوش ہورہے تھے کہ آج علاقہ کا سب سے مالدار آدمی اس کے در پر آیا تھا موٹا نذرانہ ملنے کی امید اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا، میں نے کل کا وقت کیوں دیا آج ہی موٹی رقم وصول کرلیتا۔

آج ظفر کے گھر پر پارٹی والے دن سے بھی زیادہ بھیڑ تھی ہر کوئی دیکھنا چاہتا تھا کہ بابا گیسودراز ظفر کو کس طرح ٹھیک کریں گے اور جنات کے اثرات سے کیسے ظفر محفوظ ہوگا۔

وقت مقررہ پر دو بڑی گاڑیاں آکر رکیں اور بابا گیسو دراز اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ وارد ہوئے۔ مریدین میں ہاتھ ملانے اور بوسہ دینے کی ایک ہوڑ لگ گئی۔ بڑی دیر تک یہ سلسلہ چلا اس کے بعد بابا گیسو دراز اس معاملے کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ کہاں ہے ظفر؟

ظفر بھیڑ میں ہی کھڑا تھا جیسے ہی بتایا کہ وہ سامنے کھڑا ہے۔ باباکچھ پڑھتے ہوئے جیسے ہی ظفر کے نزدیک پہنچے ویسے ہی ظفر نے بابا پر کچھ ایسا وار کیا کہ بابا چاروں خانے چت۔ بابا اٹھے اور پھر ظفر کو پکڑنا چاہا مگر معلوم نہیں ظفر میں وہ کون سی طاقت تھی کہ ایک ہی وار میں بابا پھر زمین پر گر پڑے۔ اس مرتبہ بابا زور سے اپنے ساتھ آئے ہوئے چیلوں پر چلائے، ابے حرام خورو پکڑو اس کو اور بابا کے ساتھ آئے پانچ چھ لحیم شحیم چیلے فوراً ظفر پر ٹوٹ پڑے۔ مگر یہ کیا چند منٹ میں ہی ایک ایک کرکے زمین پر گرگئے۔ بابا نے اٹھ کر چاہا کہ ایک مرتبہ وہ اور ظفر کا سامنا کریں مگر جسم کے درد کی وجہ سے وہ ایسا نہ کرسکے۔ ظفر جو چند دن سے بالکل خاموش اور لاچار سا دکھائی دے رہا تھا بجلی کی طرح بابا اور چیلوں پر ٹوٹ پڑتا تھا، بڑی مشکل سے بابا اور اس کے چیلے جان بچا کر بھاگے۔ لوگوں نے باباسے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ بابا نے کہا ایک دو جن نہیں بلکہ جنات کی پوری کی پوری ٹولی ہے اس کا علاج فرصت سے کرنا پڑے گا۔

علاقے میں اس فن کے ماہر کچھ اور بھی حضرات تھے۔ انھوںنے جب بابا گیسودارز کا یہ حال سنا تو ان کی سٹّی پٹّی گم ہوگئی۔ انھیں اگر کوئی ظفر کانام لے کر بلانے آتا تو وہ طرح طرح کے بہانے کرکے معذرت کرلیتے۔ مگر انھیں معلوم نہیں تھا کہ رسوائی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ چنانچہ جہاں جہاں علاقے میں ایسے ٹھکانے تھے ظفر کے احباب ظفر کو لے جاتے اور بابا گیسو دراز کی طرح ان کی دھنائی ہوجاتی۔ ذلت و رسوائی کے سبب سب کے کاروبار پر اثر پڑنے لگا اور ایسے حضرات نے علاقہ چھوڑنا ہی بہتر سمجھا۔ معلوم ہوا کہ علاقہ پوری طرح سے خالی ہوگیا ہے مگر بابا گیسو دراز ابھی بھی اپنے مسکن میں موجود ہیں۔ چنانچہ ظفر کے احباب بابا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ کل ظفر کو آپ کے پاس لے آتے ہیں۔ آ پ کو جانے کی فرصت ہی نہیں۔ معلوم ہوا کہ بابا گیسودراز بھی ہجرت کرگئے۔ ظفر کو جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔

ظفر کے والد میری اچانک آمد سے بہت خوش تھے کہ ظفر کا سب سے قریبی دوست آگیا ہے۔ مگر انھیں افسوس تھا تو اس بات کا اب علاقے میں دور دور تک جنات کا علاج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ مجھے پوری داستان سنا کر مجھ سے مشورہ چاہتے تھے کہ اب تم ہی کہیں لے جاؤ۔ میں نے انکل کو تسلی دی کہ آپ بے فکر رہیں میں ظفر کا علاج کردوں گا۔ انھوں نے حیرت سے مجھے دیکھا اور کہا بیٹے یہاں بڑے بڑے فیل ہوچکے ہیں۔ میں جانتا تھا کہ اب ظفر کا کام ختم ہوچکا ہے تو وہ خود ہی ٹھیک ہوگیا ہوگا۔ میں نے کہا انکل ظفر نے اچھا کام کیا ہے، مگر اس کا طریقہ تھوڑا غلط تھا۔ مگر ظفر کیا کرتا؟ جب ان حضرات کو یہ تو معلوم تھا کہ ظفر پر جنات کہاں سے سوار ہوئے اور ان کی تعداد کتنی ہے مگر ان بدنصیبوں کو یہ نہیں معلوم کہ ظفر جوڈو کراٹے کا چیمپئن رہ چکا ہے اور وہ بلیک بیلٹ ہے

حامد علی اختر