بھیڑ

پیڑ نفرت کے ہر سو اگائے بہت

اس سیاست نے فتنے اٹھائے بہت

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ سیاست میں کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ سیاست میں کب کیا ہوجائے کسی کو پتہ نہیں ہوتا، کب کون سا مدعا اٹھا دیا جائے کسی کو کچھ پتا نہیں ہوتا، سب کچھ ووٹوں کی خاطر ہوتا ہے اس میں جائز ، ناجائز کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی جان لینے سے کچھ ووٹوں میں اضافہ ہوسکتا ہے توپھر جان لینے میں بھی دیر نہیں لگائی جاتی۔ غرض کہ جن کاموں کے کرنے سے بھی ووٹ بینک وسیع ہوتا ہو اسے کرنا سیاست داں اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کسی کا اکلوتا بیٹا ہے یا اس کے پاس گزربسر کرنے کے لیے یہی مال ہے، انھیں تو بس اپنے مطلب سے مطلب ہوتا ہے۔

اس سیاست نے نہ جانے کتنے فتنوں کو جنم دیا، اگر لکھنے بیٹھیں تو ایک عمر بھی کم پڑجائے گی۔ اس نفرت کی سیاست میں نہ جانے کتنے مسلم نوجوان موب لنچنگ کی بھینٹ چڑھ گئے اور چاروں طرف خوف کا ایسا دور دورہ رہا کہ مسلم نوجوان اپنی شناخت کے ساتھ سفر کرنے میں جھجکنے لگے۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اردو اخبارات میں ایک دو دن تک ان کی شہادت پر کچھ تنظیموں کی طرف سے اظہار ہوگا، دوچار تنظیموں کے لوگ ان کے گھر آکر دلاسہ دیں گے کہ آپ گھبرائیے نہیں ہم اس مشکل گھڑی میں آپ کے ساتھ ہیں، اور پھر چند روز بعد جو کچھ کرسکتے ہیں وہ بے چارے گھر والے ہی کریں گے۔

ایک کہاوت ہے کہ دوسروں کے لیے گڈھا کھودنے والا کبھی کبھی اس میں خود ہی گرجاتا ہے۔ ایسا ہی کچھ غریب داس کے اکلوتے چچیرے بھائی ونود کے ساتھ بھی ہوا۔ غریب داس کا بھائی چونکہ ایک مسلم اکثریت والے گاؤں میں پلا بڑھا تھا، اس لیے اس کے زیادہ تر دوست بھی مسلمان ہی تھے۔ پڑھائی کے سلسلے میں غریب داس کا بھائی شہر میں رہا۔ شہر ہی میں وہ ایسے گروہ کے ہاتھ لگ گیا جو دلوں میں نفرت اور زہر گھولنے کا کام کرتا ہے۔ غریب داس کا بھائی بھی ان سے متاثر ہوکر ان کا شریک کار بن گیا۔ وہ ان تمام کارروایوں میں ملوث رہنے لگا، جو دوسروں کو نقصان پہچانے کی غرض سے کی جاتی ہیں۔ ونود کو کبھی احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ دوسروں کی جان ومال، عزت و آبرو لوٹنا کتنا بڑا گناہ ہے، وہ تو ان تمام کاموں کو اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کرتا تھا۔

غریب داس نے نہ جانے کتنی دفعہ ونود کو انسانیت کا درس دیا تھا ، کتنی دفعہ بتایا تھا کہ یہ ہمارے دھرم میں نہیں ہے۔ تمھیں کسی نے غلط بتادیا ہے مگر ونود غریب داس کی کیا کسی کی ایک نہ سنتا تھا۔

ونود کافی دنوں کے بعد گاؤں آیا تھا۔ یوں تو اسے اب اپنے دوستوں سے ملنے کی امید کوئی چاہت نہ رہی تھی۔ مگر پھر بھی وہ فرقان کے گھر چلا گیا۔ عید کا دن تھا فرقان ابھی عید کی نماز ادا کرکے آیا تھا۔ ونود کو آتا دیکھ کر فرقان نے آگے بڑھ کر گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا۔ گھر میں بنی سوئیاں اور کھیر جب فرقان نے ونود کو کھلانی چاہی تو ونود نے منع کردیا ۔ فرقان کہنے لگا اچھا غریب داس بتا رہا تھا کہ تم شہر میں کچھ غلط ہاتھوں میں پڑگئے ہو، اس لیے اب ہمارے یہاں کچھ نہیں کھاؤگے۔ ونود نے بات آگے نہ بڑھ جائے اس لیے تھوڑا بہت کچھ کھالیا کیونکہ اس سے پہلے وہ کتنی دفعہ فرقان یا دوسرے مسلم دوستوں کے یہاں کھا چکا تھا اسے خود بھی یاد نہیں تھا۔

تھوڑی دیرتک فرقان کے یہاں بیٹھنے کے بعد ونود رخصت ہوا اور فرقان کے گلے میں پڑا ہوا رومان نشانی کے طور پر مانگنے لگا۔ فرقان نے کہا: یار یہ رومال مسلمانوں کے یہاں خاص ہے، تہوار پر تو اکثر لوگ استعمال کرلیتے ہیں، ورنہ ہمارے حفاظ اکرام یا علماء کرام ہی اسے استعمال کرتے ہیں، تم اس کا کیا کرو گے۔ ارے یار کچھ نہیں، اچھا لگ رہا ہے، میں بھی گلے میں ڈال لوں گا، اگر تمھیں اعتراض نہ ہو۔ فرقان نے کہا: نہیںمجھے کوئی اعتراض نہیں، یہ لو۔ ونود فرقان کا رومال ڈال کر دن بھر ادھر ادھر گاؤں والوں سے ملتا رہا، اگلے روز جب وہ شہر جانے لگا تو وہ رومال اس کے گلے میں پڑا ہوا تھا۔

بس کو چاروں طرف سے خاص قسم کے نعرہ لگانے والوں نے گھیر لیا تھا۔ بس میں بیٹھے تمام لوگ دم بخود تھے کہ ایک نوجوانوں کا ٹولہ بس میں اندر گھس آیا، سب پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد نیچے کھڑے اپنے باس کو بتایا کہ ایک ہے۔ باس نے کہا نیچے اتار لاؤ، ونود کو بس سے اتارنے کے بعد جس کو جانے دیا گیا ونود چلاتا رہا کہ وہ مسلم نہیں ہے، مگر اتنی دیر میں تو بھیڑ اس کا کام تمام کرچکی تھی۔ ——

حامد علی اختر