گئو ماتا
غریب داس ہی نہیں ملک کے تمام ہی کسان آوارہ گایوں سے پریشان تھے۔ سرکار نے گئو کشی کے لیے اتنا سخت قانون بنایا کہ کاٹنے کی تو بات الگ لوگ سامنے آئی ہوئی گائے سے بھی بچنے لگے۔ نہ جانے گائے کے چکر میں کتنے لوگ شہید ہوچکے تھے، جو لوگ باقاعدہ گائیں پالتے بھی تھے، اِدھر اُدھر گائے لے جانا ان کے لیے بھی ممکن نہیں تھا، نہ جانے کون کہاں سے آجائے اور بغیر وجہ معلوم کیے ہی اس کی جان لے لے۔ جان جانے کے خوف سے اکثر لوگوں نے گائے کو آزاد کرنے میں ہی اپنی جان کی سلامتی چاہی، جس کی وجہ سے آوازہ گایوں کی تعداد میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوگیا۔ اب ان گایوں پر کسی کا کنٹرول تو تھا نہیں چنانچہ یہ غول در غول آتیں اور کسی کسان کے کھیت میں گھس جاتیں، اس کی فصل پل بھر میں نیست و نابود ہوجاتی اور بے چارہ کسان آہیں بھرنے کے علاوہ کچھ کر ہی نہیں پاتا۔
گھر میں پلی ہوئی گایوں کو آزاد کرکے جہاں لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ جان بچ گئی اب اس سے بھی زیادہ پریشان تھے کہ جب گائیں کھیتی ہونے ہی نہیں دیں گی تو گھر کیسے چلے گا۔ پہلے تو خطرہ گھر میں ایک دو کی جان، جانے ہی کا تھا،اب تو یہ آفت پورے گھر کو اپنی چپیٹ میں لیتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ یہ ایک ایسی آفت تھی کہ اگر اس کا علاج کیا تو مرا اور علاج نہ کیا تو مراسب لوگ پریشان ضرور تھے مگر آپس میں بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں تھانے تک ان کا نام نہ پہنچ جائے، مگر کہاوت ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا، جب حالات قابو سے باہر ہوگئے اور ہر روز یہ اطلاع ملنے لگی کہ آج فلاں کے کھیت کا صفایا ہوگیا آج گائیں فلاں کا کھیت چرگئیں کو غریب داس میں کچھ حرکت پیدا ہوئی۔
غریب داس نے ان کسانوں کی فہرست بنائی جن پر اسے سو فیصدی یقین تھا، وہ فہرست دیکھ کر خوش ہوگیا کہ بیس کسان ایسے ہیں جو اس کی بات کو مان لیں گے اور راز بھی فاش نہیں ہوگا چنانچہ غریب داس نے سب سے مل کر اپنا مدعا رکھا۔ یہ لوگ تو خود ہی گایوں سے پریشان تھے مگر ڈر کی وجہ سے دل کی بات زبان پر نہیں لاتے تھے۔ سب نے غریب داس کی بات کی تائید کی اور وعدہ کیا کہ وہ بھی اپنے ہم خیال راز داروں کی فہرست بناکر بات کریں گے چند روز تک یہ سلسلہ آگے تک چلتا رہا اور بقول مجروح سلطانپوری کہ ؎
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
چند روز بعد لوگوں نے دیکھا کہ صبح صبح ایک بہت بڑا ہجوم ہزاروں گایوں کو لے کر شہر کی طرف کوچ کررہا ہے۔ کسی کو معلوم ہی نہیں ہوسکا کہ یہ ہجوم اتنی بڑی تعداد میں گایوںکو شہر کی طرف کیوں ہانک کر لے جارہاہے۔ دیکھنے والے آپس میں ایک دوسرے سے معلوم ہی کرتے رہ گئے کہ ماجرا کیا ہے، مگر کوئی کسی کو صحیح جواب نہ دے سکا۔
چند گھنٹوں کے بعد ہی یہ خبر پورے ملک میں پھیلی گئی کہ گئو کشی کا قانون بنانے والے کا گھر کسانوں نے گایوں سے بھردیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ گائے صرف ہماری ہی نہیں آپ کی بھی ماتا ہے، اور ماں کی سیوا کرنا ہر ایک کا فرض ہے