می ٹو(ME TOO)

غریب داس دوڑتا ہوا آیا معلوم ہوتا تھا کہ شاید اس پر کوئی آفت نا گہانی نازل ہو گئی ہے۔سانس پھولی ہوئی، بد حواس اور آتے ہی بولا یہ می ٹو MEETOO # کیا ہوتا ہے؟ارے بھائی آرام سے بیٹھو،تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔غریب داس تم بتاؤ تمھیں می ٹو سے کیا غرض ہے؟

صاحب میں تو غریب آدمی ہوں مجھے تو کوئی غرض نہیں ہے ۔ٹی وی پر ہر روز بڑے بڑے نام جڑتے جا رہے ہیں زیادہ تو میری سمجھ میں نہیں آتا مگر ایسا لگتا ہے کہ معاملہ کچھ بڑا ہی خطرناک ہے جو سارے نام بڑے لوگوں کے ہیں ۔غریب داس یہ دنیا بڑی عجیب ہے یہاں عزت،شہرت سب کچھ دولت کے سہارے حاصل کی جا سکتی ہے۔جولوگ فطرت کے قوانین کو نہیں مانتے ان کے یہاں یہ سب عام باتیں ہیں ۔وہ سماج میں دولت کے بل پر ہر چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں۔وہ ہمیشہ صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ان کے یہاں کسی کے جذبات ،کسی کی عزت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔مگر صاحب یہ می ٹو کیا ہے؟ارے اسی کے بارے میں تو میں تمھیں سمجھانے کی کوشش کر رہاہوں ذرا دھیرج رکھو۔ارے صاحب ہم جاہل آدمی ہیں ہمیں تو عام لفظوں میں سمجھاؤ ۔ارے غریب داس عام لفظوں میں ہی تو بتا رہا ہوں۔می ٹوکی یہ تحریک یورپ سے چلی اور ہمارے یہاں تک پہنچ گئی ۔اس میں خواتین اپنی زندگی کے وہ واقعات بیان کررہی ہیں جو ان کے ساتھ پیش آئے خاص طور سے اس میں وہ خواتین شامل ہیں جو گھر سے باہر نکل کر کسی بھی میدان میں کام کرتی ہیںوہاں ان کے ساتھ جو مرد کام کرتے ہیںاور ان کا جنسی استحصال کرتے ہیں اس میںبری نظروں سے دیکھنا،کمنٹس کرنا،چھیڑ چھاڑ کرنا ،زنا کرنا سب کچھ ہی شامل ہے۔اب بتاؤ غریب داس کیا بات سمجھ میں نہیں آئی ۔صاحب سمجھ تو گیا مگر یہ بڑے بڑے نام والے لوگ بھی اس طرح کی حرکتیں کرتے ہیں ۔ارے بھائی بتایا تو جب انسان کے سامنے جواب دہی کا کوئی تصور نہیں ہوتا تو وہ شتر بے مہار ہو جاتا ہے۔ان لوگوں کو دنیامیں تو کسی سے ڈر ہی نہیں ہے ساتھ ساتھ آخرت میں جواب دہی کا تصور بھی ان لوگوں کے یہاں نہ کے برابر ہوتا ہے ۔صاحب ایک بہت بڑے منتری جی کا نام بھی ہے اور بہت ساری عورتوں نے ان پر الزام لگائے ہیں ۔کیا وہ استعفیٰ دیں گے؟غریب داس استعفیٰ تو انہیںضروردینا پڑے گا مگر ابھی کچھ وقت لگے گا۔سر ایسے واقعات کو روکنے کے لیے حکومت سخت قانون نہیں بنا سکتی؟غریب داس قانون بنانے سے کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوتا ۔اس کے لیے سماج کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے اور ہر ایک کو اچھائی برائی کی تمیز کے ساتھ ساتھ لوگوں کو جواب دہی کا احساس دلاناپڑے گا۔ اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہم لوگوں پر عائد ہوتی ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس پر صحیح طورسے عمل پیرا ہوکر ہم دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بناسکتے ہیں اور یہ ثابت کردیں کہ :

وہ ہم نہیں ہیں کہ صرف اپنے ہی گھر میں شمعیں جلا کر بیٹھیں

 وہاں وہاں روشنی کریں گے جہاں جہاںتیرگی ملے گی

حامد علی اختر