سرکار

آؤ آؤ غریب داس اتنے دن کہاں غائب تھے ۔سرکار کیا بتاؤں، گاؤں گیا ہوا تھا،وہاں کسانوں کے کچھ مطالبات تھے ان مطالبات کو سرکار کے سامنے رکھنا تھا۔ چنانچہ سارے کسان تھانے گئے اور S.H.O  صاحب کے سامنے اپنی پوری کہانی سنائی۔ S.H.O صاحب نے کہا آپ کے مطالبات جائز ہیں مگر میں تو ایس۔ایچ ۔او۔ ہو ں آپ اپنے مطالبات سرکار کے سامنے رکھیں ۔کسانوں نے جب معلوم کیا تو انہوں نے کہا آپ ضلع میں چلے جائیں اور D.M صاحب کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں۔کسان اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ ضلع میں D.M صاحب کے آفس پہنچ گئے۔اچانک اتنی بڑی تعداد میں کسانوں کو دیکھ کر DM  صاحب نے کچھ نمائندوں کو اپنے آفس میں بلایا اور مطالبات سن کر کہا کہ آپ لوگ فوراً صوبے کی راجدھانی پہنچ جائیں اور C.M صاحب کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں کیوں کہ وہ سرکار ہیں اور وہی آپ کے مطالبات پورے کر سکتے ہیں ۔بے چارے کسان کئی دن کا سفر طے کر کے صوبے کی راجدھانی پہنچے ۔وزیر اعلیٰ سے ملاقات ہوئی انہوں نے کہا بھائیوں میں تو آپ کا خدمت گذار ہوں میں سرکار نہیں ہوں ۔سرکار تو دلی میں ہے آپ لوگ دلی چلے جائیں وہیں آپ کے مطالبات پورے ہوں گے ۔بے چارے کسان کر بھی کیا سکتے تھے مجبوراً دلی کے لیے کوچ کیا۔ دلی پہنچ کر معلوم ہوا کہ وزیر زراعت سے ملنا ہے ۔ملاقات ہوئی اور انہوں نے بھی معذرت کرتے  ہوئے بتایا کہ سرکار وہ بھی نہیں ہیں ۔وزیر اعظم سے آپ لوگ ملیں وہی سرکار ہیں پھر وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مطالبات سن کر کہا کہ میں دیش کا پردھان منتری ہوں آپ لوگوں کا سیوک ہوں میں بھی سرکار نہیں ہوں۔ کسان بے چارے بہت پریشان ہوئے اور کئی ججوں، آفسروں سے بات ہوئی مگر کوئی بھی اپنے کو سرکار تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔میں نے سوچا آپ بھی سرکار ہیں آپ کے پاس چلوں شاید آپ کسانوں کے مطالبات پورے کر سکیں۔ ارے غریب داس کیا کہہ رہے ہو، میں کیسے سرکار ہو سکتا ہوں۔غریب داس تم خود سرکار ہو ،صاحب میں کیسے سرکار ہوں ۔غریب داس ہر شخص سرکار ہے۔بس ہم لوگ چناؤ کے وقت اگر تھوڑا سا عقل کا استعمال کر لیں تو یہ حالات ہی پیدا نہ ہوں۔سرکار کو ڈھونڈھنے کی نوبت ہی نہ آئے ۔ہم لوگ چناؤ کے وقت کہیں علاقائیت میں بٹ جاتے ہیں کہیں ذرا سے لالچ میں بک جاتے ہیں اور صحیح معنوں میں جن نمائندوں کا انتخاب ہونا چاہئے وہ ہو نہیں پاتا جو نیتا کسی طرح پندرہ بیس دن میں ہمیں بے وقوف بنا کر ووٹ حاصل کر لیتا ہے پھر وہ پورے پانچ سال تک کسی نہ کسی طرح عوام کا استحصال کرتا رہتا ہے اور اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کرتا جس کے وجہ سے صرف کسان ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ کے افراد کو پریشانی ہوتی ہے اور پھر عوام کو اپنے مطالبات تسلیم کرانے کے لیے اپنے وقت اور پیسے کی بربادی کرنی پڑتی ہے ۔وقت اور پیسے کی بربادی کے بعد بھی یہ ضروری نہیں کہ کامیابی مل ہی جائے اس لیے غریب داس یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ الیکشن کے وقت صحیح امیدوار کا انتخاب ہو، تاکہ پھر کسی کو بھی سرکار ڈھونڈھنے کی ضرورت نہ پڑے ۔ہم اہل لوگوں کا انتخاب کریں گے تو وہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح وقت پر ادا کریں گے اور جب تمام مسائل اپنے وقت پر حل ہو جائیں گے تو اس بات کی نوبت ہی نہیں آئے گی کہ ذمہ دار کون ہے سرکار کون ہے اگر ہم ایسانہیں کرتے ہیں تو پھر سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ ہم در بدر کی ٹھوکر کھائیں اور علامہ ابو المجاہد زاہد کا یہ شعر گنگنائیں کہ :

زاہد ؔملی نہ بھیک شناسائی کی کہیں

میں کاسئہ نگاہ لیے در بدر گیا