ارنب! یہ تو ہونا ہی تھا ـ شکیل رشید

(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)

ایک حمام میں سب ننگے!
یہ محاورہ پہلی دفعہ اپنے پورے معنیٰ کے ساتھ کُھلا ہے ۔ وہ تمام چینل جو ٹی آر پی چوری کے معاملے میں مہاچور مانے جانے والے ارنب گوسوامی اور اس کے ریپبلک نیوز چینل کے خلاف کائیں کائیں کرنے میں آگے آگے تھے، ارنب کی گرفتاری پر آزادئ صحافت اور آزادئ اظہارِ رائے پر حملے کی تان چھیڑ کر ایک ہی سُر میں کائیں کائیں کرنے لگے ہیں ۔ ارنب کی گرفتاری کو ایک جرنلسٹ پر سرکاری عتاب قرار دے دیا گیا ہے ! کسی کی زبان پر اس بیوہ اور غمزدہ بچی کے لیے آہ تو دور ہمدردی کا ایک لفظ تک نہیں ہے جن کی زندگیاں بالترتیب پتی اور پِتا کے سہارے سے محروم ہو گئی ہیں ۔ وہ پتی اور پِتا جو اپنی بربادی کو برداشت نہ کر سکا تھا اور اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ آتم ہتیا کرلی تھی ، اور مرتے مرتے ایک سوسائیڈ نوٹ چھوڑ گیا تھا جس میں ارنب گوسوامی اور دیگر دو افراد کو اپنی اور اپنی ماں کی خودکشی کا ذمہ دار قرار دیا تھا ۔ بھاجپائی پریس اور گودی میڈیا سے تو خیر کی کوئی امید تھی ہی نہیں، حیرت اور افسوس اس پر ہے کہ وہ میڈیا جسے لبرل، ترقی پسند اور روشن خیال سمجھا جاتا ہے، وہ بھی ارنب کی گرفتاری پر سوال اٹھا رہا ہے ۔ سوال اٹھائے جا سکتے ہیں اور مہاراشٹر کی شیوسینا، این سی پی اور کانگریس کی ملی جلی سرکار کی نیت میں کھوٹ بھی تلاش کرنا ممکن ہے، لیکن اس معاملے میں کسی سوال کا اٹھانا یا نیت میں کھوٹ تلاش کرنا اسی وقت درست کہلائے گا جب ارنب غیر جانبدار ہوتے، بی جے پی کے کھیل کا حصہ نہ ہوتے ۔ چونکہ ارنب گوسوامی مہاراشٹر کی ادھو ٹھاکرے سرکار کے خلاف بی جے پی کے گیم پلان کا اہم حصہ تھے، لہذا اس سرکار نے ان پر شکنجہ کسنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کی ۔ ارنب ریاستی سرکار کی بنیادوں کو بی جے پی کا بھونپو بن کر کمزور کرنے کے لیے سچ سے بھی زیادہ جھوٹ کا سہارا لیے ہوئے تھے، وہ صحافت کی جگہ گندی سیاست کر رہے تھے، لہٰذا ریاستی سرکار نے بھی موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں جیل کی ہوا کھلا دی، کہاوت مشہور ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ یقیناً اس سے صحافت کا نقصان ہوگا کہ صحافی تر نوالہ سمجھے جائیں گے ۔ لیکن سچ یہی ہے کہ یہ صرف اور صرف ارنب گوسوامی کی، جس کی حمایت میں میڈیا کو متحد ہونے کے لیے پکارا جا رہا ہے، غلطی، وہ بھی دانستہ غلطی کے سبب ہی ہوگا ۔
نیوز پورٹل دی وائر پر ایوارڈ یافتہ جرنلسٹ عارفہ خانم شروانی اور معروف صحافی دی وائر کے فاؤنڈر ایڈیٹر سدھارتھ ورداراجن کے درمیان ارنب کی گرفتاری پر ایک دلچسپ بحث ہوئی ۔ عارفہ خانم نے سوال اٹھایا کہ جب ارنب کی حمایت میں بھارت کی سرکار کھڑی ہے، آدھے درجن سے زائد منتری اور کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کھڑے ہیں، تو لبرل جرنلسٹ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ ارنب کا دفاع کیا جائے؟ سدھارتھ ایک سلجھے ہوئے جرنلسٹ ہیں اور بلاشبہ ارنب کی تخریبی سوچ اور نظریات سے اتفاق نہیں رکھتے لیکن وہ ارنب کی گرفتاری کو درست نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے بقولِ اگر ارنب ادھو سرکار کی حمایت میں صحافت کررہے ہوتے تو یہ کارروائی نہیں ہوتی ۔ سدھارتھ ورداراجن اس گرفتاری کی ٹائمنگ (وقت) پر سوال اٹھاتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر اس کے خلاف آواز بلند نہ کی گئی تو دوسرے اور جرنلسٹوں کے ساتھ بھی یہی کیا جائے گا ۔
ان کاکہنا ہے کہ معاملہ اصولوں کا ہے، اگر قانون کا بیجا استعمال کیا جائے گا تو آواز اٹھے گی ۔ سدھارتھ اصولوں کی بات کر سکتے ہیں کیونکہ وہ دوسرے جرنلسٹوں کے لیے بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں، لیکن شاید وہ یہ بھول گئے کہ قانون کا بیجا استعمال ادھو سے پہلے کی دیویندر فڈنویس کی حکومت میں ہوا تھا کہ انوئے نائک اور اس کی ماں کمد نائک کی خودکشی کے معاملہ کو دبا دیا گیا تھا، اور قانون نے انوئے نائک کی بیوہ اکشھتا نائک اور بیٹی ادنیا نائک کی انصاف کی گہار کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا تھا، اور سارے معاملے کی فائل اے سمری یعنی معاملہ تو صحیح ہے مگر ثبوت ندارد ہیں کہہ کر بند کر دی تھی ۔ ریاست کے موجودہ وزیر داخلہ انیل دیشمکھ نے الزام عائد کیا ہے کہ فڈنویس حکومت کے ایک بڑے منتری نے خودکشی معاملہ سے ارنب گوسوامی کو بچایا تھا اسی لیے اُس وقت رائے گڑھ کی بجائے ممبئی میں معاملہ درج کیا گیا تھا ۔ ارنب کے ساتھ جو ہو رہا ہے اسے اردو میں مکافاتِ عمل کہتے ہیں، یعنی جو بویا تھا وہی وہ کاٹ رہے ہیں ۔ اس معاملے کو بجائے قانون کے بیجا استعمال کے قانون کے صحیح استعمال کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ پہلے کی سرکار نے جو غلطی کی تھی یہ سرکار اسے سدھار رہی ہے ۔ جہاں تک ٹائمنگ کی بات ہے تو یقیناً ادھو کی سرکار نے مناسب موقع دیکھ کر ہی ہتھوڑا چلایا ہے، مقصد ارنب کی زبان پر، جو دن بدِن ناسائشتہ اور سیاسی ہوتی جا رہی تھی، قفل لگانا بھی تھا اور جیل کی ہوا کھلانا بھی ۔ یقیناً اسے ایک طرح کا بدلہ لینا کہا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ارنب خود ذمہ دار ہیں کہ وہ چیلنج پر چیلنج کرے جا رہے تھے ۔ اور پھر دو افراد نے خودکشی تو کی ہے، خودکشی کا واقعہ فیک نہیں ہے اور یہ بات بھی غلط نہیں ہے کہ انوئے نائک کے خودکشی نوٹ میں ارنب گوسوامی کا نام، دو دوسرے ناموں فیروز شیخ اور نتیش سردا کے ساتھ، جودکشی پر مجبور کرنے والوں کی حیثیت سے شامل ہے ۔ انوئے نائک کنکرڈ ڈیزائن پرائیوٹ لمیٹڈ نامی ایک آرکی ٹیکٹ فرم کا منیجنگ ڈائرکٹر تھا ۔ اسی فرم نے ارنب گوسوامی کے ریپبلک ٹی وی کے اسٹوڈیو کو ڈیزائن کیا تھا ۔ الزام ہے کہ اسٹوڈیو ڈیزائن کرنے کے بعد بھی اسے 4 کروڑ 40 لاکھ روپے نہیں دیے گئے ۔ ارنب پر 83 لاکھ روپیہ ادا نہ کرنے کا الزام ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ بار بار کے تقاضے پر بھی پیسے نہیں ملے اور ایک دن کمپنی ڈوب گئی ۔ انوئے کو خودکشی کے سوا کوئی راہ سجھائی نہیں دی اور اس نے ماں کے ساتھ خودکشی کر لی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماں کمد نائک کی موت خودکشی سے نہیں ہوئی تھی بلکہ شدید ڈپریشن میں انوئے نے اپنی ماں کو گلا گھونٹ کر مارا تھا پھر خودکشی کر لی تھی ۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے، چند لوگوں کی مبینہ زیادتی نے ایک خوشحال گھرانے کو تباہ کردیا ۔ اور انصاف کی پکار پر، اس شخص کے ، جس پر خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام ہے، یعنی ارنب، تعلقات، سیاسی اور سماجی تعلقات بھاری پڑ گئے ۔ بالفاظ دیگر ایک خاص شخص کی آزادی کو، ملک کے ایک عام شخص کی خودکشی پر، مقدم کر دیا گیا ۔ تو معاملہ قانون کے بیجا استعمال کا نہیں قانون کے جائز استعمال کا ہے ۔
ارنب کی گرفتاری پر مین اسٹریم کے تین انگریزی اخباروں، ٹائمز آف انڈیا، ہندوستان ٹائمز اور دی انڈین ایکسپریس کے اداریوں پر اگر نظر دوڑائیں تو ان میں بھی بڑی حد تک ارنب کی حمایت کی گئی ہے ۔ ٹائمز آف انڈیا کے اداریے کا عنوان ہے نکتہ چینوں کو خاموش نہ کریں.. اس عنوان سے تاثر یہ جاتا ہے کہ ارنب گوسوامی کو اس لیے پکڑا گیا کہ وہ ادھو سرکار پر نکتہ چینی کر رہے تھے، حالانکہ سب جانتے ہیں ارنب ادھو سرکار کی تنقید نہیں تنقیص کر رہے تھے اور وہ بی جے پی کے ریاستی سرکار کو کمزور کرنے کے گیم پلان کا حصہ تھے ۔ سشانت سنگھ خودکشی معاملہ میں انہوں نے بغیر کسی سوسائیڈ نوٹ کے ریا چکرورتی کو خودکشی پر اکسانے والی بلکہ بعد میں قاتل تک قرار دیا تھا اور ادھو سرکار بالخصوص ادھو کے بیٹے آدتیہ ٹھاکرے کو سشانت اور سشانت کی سکریٹری دشا سالیان کی خودکشی کا بنیادی ملزم بلکہ مجرم قرار دینے کے لیے جھوٹ کے انبار لگا دیے تھے، اس معاملہ کو ذاتی جنگ میں تبدیل کر لیا تھا ۔ ریا چکرورتی کی گرفتاری اور اسیری ان کی نظر میں ادھو سرکار کی ہار اور ان کی اپنی جیت تھی ۔ اداریے میں صدیق کپّن کی گرفتاری کا ذکر ہے مگر دونوں گرفتاریوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ صدیق کپّن کی گرفتاری سراسر ناجائز ہے لیکن ارنب کی گرفتاری کا جائز جواز انوئے نائک کے خودکشی نوٹ میں اس کے نام کا ذکر ہے ۔ ہندستان ٹائمز نے اپنے اداریے، ارنب گوسوامی کی گرفتاری تشویش ناک، میں ارنب کی تمام خطاؤں کومعاف کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنادیا ہے کہ یہ گرفتاری غیر قانونی ہے ۔ اداریے میں نہ دوسرے جرنلسٹوں کی گرفتاریوں کا ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی خودکشی معاملے کا ۔ دی انڈین ایکسپریس کا اداریہ ۔ریپبلک آف پولیس، افسوس ناک بھی ہے اور شرم ناک بھی، اس جیسے جرنلزم آف کَرج، کا نعرہ لگانے والے اخبار سے ایسے اداریے کی امید نہیں تھی، اداریے میں بی جے پی کے وزراء بشمول امیت شاہ کے ذریعے ارنب کی گرفتاری کے خلاف آواز بلند کرنے کی مدح کی گئی ہے ۔ اداریہ کے الفاظ ملاحظہ کریں : ان کا طیش منتخبہ ہے ۔ اس میں وہ جرنلسٹ شامل نہیں ہیں جنہیں دیگر ریاستوں میں بالخصوص بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں پکڑا گیا اور ان پر انتہائی ظالمانہ بغاوت یا یو اے پی اے کے تحت معاملات درج کیے گئے ۔ پھر بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک جمہوری آئیڈیل کے دفاع میں جمع دیکھنا باعثِ مسرّت ہے ! اس اداریے میں بھی انوئے کی خودکشی پر اور اس کے اہل خانہ کے غم پر کسی دکھ کا اظہار نہیں کیا گیا ہے بلکہ تینوں ہی اداریوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے جیسے کہ ارنب کا اس معاملہ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو ۔ بی جے پی کی مدح تو خطرناک بات ہے ۔ یہ سچ ہے کہ امیت شاہ سے لے کر یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ تک درجنوں بھاجپائیوں نے آزادئ صحافت کا نعرہ بلند کیا اور اظہاررائے کی آزادی کی حفاظت کی بات کی لیکن ان کا یہ عمل ان کے قول و فعل کے تضاد کو، گھناؤنے اور مکروہ تضاد کو خوب اجاگر کرتا ہے ۔ یوگی راج میں گرفتار کیے گئے صحافیوں کی تعداد 15 سے زائد ہے، ان پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے، اس لیے نہیں کہ انہوں نے کوئی سنگین جرم کیا تھا یا ان پر ارنب کی طرح کسی کوخودکشی کے لیے اکسانے کا الزام ہے… نہیں، اس لیے کہ انہوں نے جو خبریں لکھی تھیں وہ یوگی انتظامیہ کو پسند نہیں آئی تھیں ۔ تینوں ہی اداریوں میں نہ یوگی کا ذکر ہے نہ یوپی کا ! اور رہی بات ملک بھر کی تو گرفتار صحافیوں کی تعداد ساٹھ کے قریب ہے! یہ بی جے پی راج میں ہو رہا ہے جس کے چھوٹے بڑے لیڈر صحافت کے مینار ارنب گوسوامی کو بچانے کے لیے میدان میں ہیں ۔ ارنب کی گرفتاری پر ایمرجنسی یاد آگئی ہے ! صرف ایک ارنب گرفتار ہوا اور ملک کا سارا نظام، ساری جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ۔ کیا کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد جو ہوا اور ہو رہا ہے وہ ایمرجنسی نہیں؟ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایمرجنسی سے بدتر ہے تو غلط نہیں ہوگا ۔ یوپی میں کیا ہو رہا ہے، این آر سی اور سی اے اے کے خلاف آئینی مظاہرے کرنے والے مجرم قرار دے دیئے گئے ہیں کیا اسی کا نام آظہاررائے کی آزادی ہے ۔ ملک میں آج ارنب کی گرفتاری پر جنہیں جمہوریت یاد آ رہی ہے وہی جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن ہیں، یہ ارنب کے لیے میدان میں اترے کیونکہ ارنب ان کا بھونپو تھا بلکہ بھونپو ہے ۔ بی جے پی کو اپنی سیاست کے لیے ہندو، مسلم تفرقے اور نفرت کے پرچار کی ضرورت ہے ارنب اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں، وہ ملک میں بدامنی، فرقہ وارانہ نفرت، مسلمانوں کے خلاف کبھی تبلیغی جماعت پر اور کبھی مدرسوں پر انگلی اٹھا کر، ماحول تیار کرتے ہیں، ماحول جو بی جے پی کی زہریلی سیاست کے لیے کارآمد ثابت ہوتا رہا ہے ۔ لہذا ہم نہ ان بھاجپائیوں کے نعرے سے متاثر ہوں، نہ لبرل صحافیوں کی ارنب کی حمایت سے، ہم بس یہ جان لیں کہ ارنب جو بوتے رہے ہیں ، اور دوسرے بھی جو بوئیں گے، وہی کاٹنے پر مجبور ہیں یا ہوں گے ۔ ارنب کے ساتھ یہ تو ہونا ہی تھا ۔

متعلقہ مضامین

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ صلاح کار کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

The post ارنب! یہ تو ہونا ہی تھا ـ شکیل رشید appeared first on صلاح کار – -.