اس جہاں سے تنگ آکراگر خود کشی کرتے ہو تو وہاں سے کہاں جاؤ گے!!!!
سیدہ تبسم منظور ناڈکر،ممبئی
ایک لڑکی کی خود کشی پر پورے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا ہوا ہے۔ نیوزچینل والے اس کے ماں باپ سے طرح طرح کے سوالات پوچھ پوچھ کر انہیں پریشان کررہے ہیں۔کتنی عجیب بات ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں پر کوئی کسی کا درد نہیں سمجھتا، اور نیوز چینل والے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ان کو تو بس ٹی آر پی چاہئے ہے۔ کسی کی جان جائے ان کی بلا سے۔روزانہ کتنی ہی خودکشیاں ہوتی ہے، کتنوں کی جان جاتی ہے۔۔۔۔کتنی بچیوں کا ریپ کر کے انہیں مار دیا جاتا ہے۔۔۔۔بہت سارے واقعات ہماری نظروں سے گزرتے رہتے ہیں۔ کیا کِیا ہمارے سماج نےان معاملات میں ۔۔۔۔۔ کون کون سے قانون پاس ہوئے اور قانون بنانے کی باتیں ہوئیں۔مگر یہ صرف کچھ دن تک ہوتا ہے اور پھر لوگ بھول جاتے ہیں۔ عائشہ نامی لڑکی نے خودکشی کی اور خودکشی سے پہلے اپنا ویڈیو بنایا۔ وہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا۔ اب اس کو دیکھ کر دوسری لڑکیاں بھی اس طرح کی حرکت کررہی ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ زندگی میں بہت سارے مسائل آتے رہتےہیں۔ ان کا سامنا کر کے ان مسائل، ان برے حالات سے لڑ کر باہر نکلنا ہی انسان کی جیت ہوتی ہے۔۔۔۔ ناکہ جان دے کر حرام موت کو گلے لگایا جائے۔ خودکشی سب سے بد ترین عمل ہے۔اسے حرام کہا گیا ہے۔زندگی تو صرف ایک بار ملتی ہےنا۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہے۔ اپنے دل میں اللہ اور رسول کی محبت پیدا کرو، پریشان اور مایوس تو وہ ہوتا ہے جس کا اللہ پر یقین نہ ہو۔ اس بات کا یقین رکھیں کہ ہمارا اللہ ہم سے غافل نہیں ہے۔ پریشانیاں اور ناکامیاں وقتی ہوتی ہیں۔ یہ کبھی تو جلد ختم ہوجاتی ہیں اور کبھی وقت لگتا ہے مگر انہیں ختم ہونا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں کچھ پریشانیاں ،کچھ تکلیفیں دے کر ہمیں آزماتا ہے۔اور وہ ہمیں اتنی ہی پریشانی، تکلیف دیتا ہے جتنی ہم برداشت کر سکیں۔ ہمارا اللہ ہم سے کبھی بھی غافل نہیں ہوتا۔ﷲ تعالی نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عبادت کے لئے اس دنیا میں بھیجا ہے تو پھر کیوں نا ہر مومن بندہ اس کے حکم کی تعمیل کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو کفر کر رہا ہے اوریہ بزدلی بھی ہےجو مومن کی شان کے خلاف ہے۔ کون کب تک زندہ رہے گا اور کب اس کی موت واقع ہوگی یہ ﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔اور پھر جس نے ہمیں زندگی دی ہے تو صرف اسی کو ہی موت دینے کا اختیار ہے۔ انسان کے ہاتھ میں یہ اختیار ہوتا تو جانے کیا ہو جاتا۔ پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ کسی کو بھی موت کی تمنا نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ اگر وہ نیک ہے تو امید ہے کہ اس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہوگا او اگر بُرا ہے تو ہوسکتا ہے کہ وہ توبہ کرے ۔‘‘قرآن پاک و حدیث نبویؐ میں کئی جگہ پر موجود ہے کہ ایمان والوں کو موت کی دعا نہیں کرنی چاہیے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ مسائل، بیماری، پریشانی اور مشکلات سے دوچار ہونے کے بعد اسلام، انسان کو خودکشی کی اجازت دے۔اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہے تو وہ گناہِ کبیرہ کرتا ہے۔ اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی۔ حضرت عبدﷲ بن عمروؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ﷲ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔‘‘انسان کتنا ہی متقی اور پرہیزگار ہو اور کتنی ہی نیکیاں اس نے کمائی ہوں اور بھلائی کے کام کیے ہوں، اگر وہ دنیاوی پریشانیوں اور ناکامیوں سے دوچار ہو کر خودکشی کرتا ہے تو وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ارشاد ربانی ہے کہ جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک ساعت بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔ جب کہ خودکشی کرنا مشکلات سے فرار کا ایک راستہ ہے۔ یہ دنیا امتحان کامقام ہے، ہر وقت اور ہر منزل پر آدمی کا واسطہ نئے مسائل سے پڑتا رہتا ہے۔ وہی شخص اس میں کامیاب ہوتا ہے جو ہر طرح کی پریشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ جو شخص ان مشکلات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جلدبازی اور بے صبری میں اپنی زندگی کو ختم کردے تو وہ موت کے بعد والی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں برباد کرلیتا ہے۔یہاں تو چند سال رہنا ہے۔ وہاں تو ہمیشہ رہنا ہے۔پھر وہاں سے کہا جاؤ گے!!!!! آخرت میں وہی شخص خوش نصیب ہوگا اور قیامت کی بعد والی زندگی کا لطف اٹھائے گا جس نے اس دنیا میں ہر حال میں اللہ کا نیک بندہ ہونے کا ثبوت دیا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ اس پر قائم رہا۔ یہاں جو عمل اچھا یا برا کیا جائے گا اس کا بدلہ اسے دوسری زندگی میں مل کر رہے گا۔خودکشی، ایک غلط اور ناپسندیدہ عمل ہے جس سے آدمی کی آخرت خراب ہوتی ہے۔روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں بڑی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ہر محاذ پر دشمنوں کا مقابلہ کرتا رہا۔ اس کی بہادری کو دیکھ کر ہر طرف سے تحسین و تعریف ہونے لگی۔ بالاخر وہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا ۔جب وہ زخم کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو اس نے اپنی ہی تلوار کی نوک اپنے سینے میں پیوست کرلی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی ۔اس سے وہ جہنمی ٹھہرا۔سرکار دوعالمؐ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کی نظر میں ایک آدمی (ساری عمر) بہشت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے حالاں کہ وہ دوزخی ہوتا ہے اور ایک آدمی (عمر بھر) دوزخ والوں کے سے کام کرتا ہے حالاں کہ وہ جنتی ہوتا ہے۔ اسی طرح حضرت جندب بن عبداﷲ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے پہلے جو قومیں گزر چکی ہیں ان میں سے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اسے زخم لگا وہ اس کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔اس سے اس قدر خون بہا کہ وہ فوت ہوگیا ۔اس پر ﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جلدی کی قبل اس کے کہ میں اس کی روح قبض کرتا، اس نے خود ہی اپنے آپ کو ختم کردیا لہذا میں نے اس کے لیے جنت حرام کر دی۔ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے محبوب نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو کسی لوہے کے ہتھیار سے قتل کرلے تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا وہ اس کو اپنے پیٹ میں بھونکتا رہے گا اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ جلتا رہے گا اور جو شخص زہر پی کر اپنی جان لے تو وہ چوستا ہی رہے گا اسی زہر کو، اور جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہے گا اور جو شخص اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر مار ڈالے گا تو وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں گرا کرے گا، سدا اس کا یہی حال رہے گا۔خودکشی کرنے والے کے ساتھ ﷲ کا معاملہ دردناک ہوگا۔
خودکشی کرنے والاتو چلا جاتا ہے مگر اس کے اس غلط عمل سے اس کے احباب کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اس کا اندازہ اگر ہوجائے تو کوئی بھی ایمان والا اس حرام موت کو گلے نہیں لگائے گا۔۔ یہی وجہ ہے کہ جب ﷲ کے رسول کریم ﷺ کو ایک مسلمان کے خودکشی کرنے کی خبر ملی تو آپؐ انتہائی خفا ہوئے فرمایا کہ میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھاؤں گا۔اسلام نے کسی بھی حال میں خودکشی کی اجازت نہیں دی۔ جس نے انسان کو پیدا کیا، ماں کے پیٹ سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک اس کی حفاظت و نگرانی فرمائی اور سکون کی نعمت سے سرفراز کیا، وہی اپنے بندوں کو پریشانی میں مبتلا کرتا ہے اور وہی انہیں مشکلات سے نکالتا بھی ہے۔ انسان کو جب خوشی ملتی ہے تو بہت خوش ہوتا ہےاور جب ذرا سی پریشانی آتی ہے تو وہ اس سے دور بھاگتا ہے اور خودکشی کرلیتا ہے۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی اپنی کبھی نہیں ہے بلکہ ﷲ رب العزت کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو باقی تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جان کے حفاظت کا حکم دیتے ہوئے تمام لوگوں کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ کسی بھی حال میں زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے خود کشی کو حرام کہا ہے۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاک مت کرو ، اللہ کی راہ میں خرچ کرو بے شک ﷲ نیک کام کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے”۔ ( البقرة، 2: 195 )
ایک اور مقام پر ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرماتا ہے۔’’اور تم ایک دوسرے کو قتل مت کرو اپنی جان کو ہلاک مت کرو، بے شک ﷲ تم پر مہربان ہے۔ اور جو کوئی ایسا فعل اور ظلم کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ ﷲ پر بالکل آسان ہے۔(النساء، 4: 29، 30)
احادیث مبارکہ میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت موجود ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم، 2: 697، رقم: 1874یہ حدیث واضح طور پر اپنے جسم و جان اور تمام اعضاء کی حفاظت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کشی کو خوفناک اور حرام موت کو کہا ہے۔
ہمارے معاشرے میں اگر دینی اسلامی تعلیمات عام ہوں تو خودکشی کے رجحان کو کم کیا جاسکتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ گھبراہٹ، پریشانی ،شہوت کا شکار ہے اور ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے، جس کی وجہ سے پریشان حال لوگ مایوس ہوکر خودکشی جیسے گناہ کرنے لگے ہیں۔ خود کشی کرنے والے تاقیامت جہنم میں جلتے رہیں گے۔ﷲ ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھے اور ہمیں اپنے محبوب دوعالم ﷺ کی سچی محبت سے سرخرو فرمائے۔ آمین ۔