چہرہ کے پردے سے متعلق ایک روایت کی تحقیق ـ عبداللہ ممتاز

 

ڈاکٹر اکرم ندوی کی ایک ویڈیو سنی، چہرے کے پردہ کے عدم وجوب پر استدلال کرتے ہوے مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک روایت پیش کی:

حدثنا أبو بكر قال: حدثنا وكيع، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عَمَّـارِ بْنِ عِمْرَانَ، رَجُلٍ مِنْ زَيْدِ اللَّهِ عَنِ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا شَوَّفَتْ جَارِيَةً وَطَافَتْ بِهَا وَقَالَتْ: «لَعَلَّنَا نُصِيبُ بِهَا بَعْضَ شَبَابِ قُرَيْشٍ. (مصنف:11/429)

کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک لڑکی کو بنا سنوار کر مدینہ کی گلیوں میں پھرا دیا تاکہ قریش کا کوئی جوان اس لڑکی پر فریفتہ ہوجائے (اور اس کی شادی ہوجائے)ـ

 

یوں تو وہ بڑے اسکالر اور محقق ہیں؛ لیکن جہاں اپنا موقف ثابت کرنا تھا وہاں روایت کی سندی حیثیت تک چیک کرنا انھوں نے مناسب نہیں سمجھاـ شیعے اور رافضی دھڑلے سے اس روایت کو شیر کرکے حضرت عائشہ پر الزام لگاتے ہیں، موصوف نے اس پر بھی کوئی توجہ نہ دی ـ

 

۱. اس میں ایک راوی عمار بن عمران ہے جس کے مجہول ہونے پر تقریبا تمام ائمۂ جرح وتعدیل کا اتفاق ہےـ

۲. خود مجہول الحال شخص ایک مجہولۃ الحال عورت سے روایت نقل کر رہا ہے، جس عورت کے بارے میں کچھ اتا پتہ نہیں کہ وہ صحابی تھی یا تابعی، ثقہ تھی یا غیر معتبر، صحیح العقیدہ تھی یا کوئی رافضی ومنافق ـ

ایسی مجہول روایت سے نہ صرف استدلال؛ بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان بھی تحقیق کے نام پر بدتمیزی، علم کے نام پر جہالت اور دانشوری کے نام پر حماقت کے سوا کچھ نہیں ہےـ

انھوں نے جو مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت پیش کی تو کم از کم ابن ابی شیبہ نے جس باب کے تحت یہ روایت پیش کی ہے اسے ہی دیکھ لینا چاہیے تھا، ابن ابی شیبہ نے اس پر عنوان لگایا ہے:

"باب تزيين السلعة” یعنی سامان کو بنانے سنوارنے کا بیان ـ

ظاہر ہے "باندی” کی حیثیت "سلعہ” کی ہوا کرتی تھی، اسے خریدا اور بیچا جاتا تھا، گویا ابن ابی شیبہ بھی اس راویت کو باندیوں کے احکام بیان کرنے کے لیے لا رہے ہیں اور محقق صاحب تمام خواتین کو اس روایت کے ذریعے باندیوں کے حکم میں لا کھڑا کردینا چاہتے ہیں ـ

یقینا اہل اسلام میں ایک تعداد ان لوگوں کی ہے جو چہرے کے پردہ کو واجب نہیں سمجھتے، ان کے پاس بھی استدلال ہے، ان کے موقف کا بھی احترام کیا جانا چاہیے۔ اگر چہرے کے پردہ کو آپ واجب نہیں سمجھتے، تو ہم گوکہ آپ کے موقف سے اتفاق نہ رکھیں؛ لیکن یقینا آپ کا موقف ہمارے نزدیک قابل احترام ہوگا؛ لیکن مستدل اور طریقۂ استدلال تو ڈھنگ کا ہونا چاہیے۔

The post چہرہ کے پردے سے متعلق ایک روایت کی تحقیق ـ عبداللہ ممتاز appeared first on صلاح کار – -.