نسلوں کو پروان چڑھانے والی ماں کی ذہنی صحت
ایک عورت مختلف جذبات کا پتلا ہوتی ہے ۔ جہاں وہ محبت، اپنائیت، انسیت کی مورت ہوتی ہے وہیں غصہ،نفرت،حسد دل میں لیے آگ میں سلگتی ہوئی لکڑی کی طرح بھی ہوتی ہے۔ کبھی ہو لے ہو لے شفقت، چاہت ، ہمدردی سے اپنا رنگ جماتی ہے کبھی چڑچڑے پن ، شک و بد گمانی، منہ پھٹ پن کی وجہ سے رشتے خراب کردیتی ہے ۔ جیسی بھی ہوتی ہے عورت قوس قزح کی طرح الگ الگ رنگوں کی مالک ہوتی ہے۔ گزرتی زندگی کے ساتھ ہر قسم کے تجربات حاصل کرتے کرتے اس کے احساسات بدلتے جاتے ہیں۔وہ ہر روپ میں انوکھی ہوتی ہے۔ اس کا ہر کردار اپنی جگہ بنائے رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کا کوئی کردار کسی کی زندگی میں نہ ہو مگر ماں اس کا ایک ایسا روپ ہے کہ جس کے سوا انسان کا وجود ہی نہیں ہوسکتا ۔
ہر عورت کی زندگی میں ماں کا رول سب سے بڑا ہو تا ہے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری کا رول۔ جس میں وہ طرح طرح کی تکلیفوں سے گزر کر زندگیاں جنم دیتی ہے، قومیں کھڑی کرتی ہے۔ شادی کے بعد نئے ماحول سے موافقت کے لئے الگ تگ ودو کرنی پڑتی ہے اور پھر حمل جہاں خوشیوں کا پیکیج ہو تا ہے وہی آزمائشوں سے بھرا بھی اور پھر بچے کے بعد کا دور ۔ ان سارے ادوار سے گزر کر عورت یا تو نکھارتی ہے، نکھرتی ہے یا پھر بکھراتی ہے بکھرتی ہے ۔ آبادی بربادی اس کے صبر و تحمل، قوت برداشت، سمجھداری اور عقل مندی پر مبنی ہے۔ ہمارے ملک و سماج میں عورت سے ہر روپ میں ہی بہت سی امیدیں ہوتی ہیں اور خصوصا ماں کو نہ جانے کون سی دیوی سمجھتے ہیں۔ ہر معاملے کی ذمہ دار، ہر جگہ جواب دہ، ہر سطح پر کامیاب، مکمل اور بھی بہت کچھ ۔ اور ان اونچی باتوں میں ایک ماں کی مینٹل ہیلتھ کی طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی جس کی برسوں سے ضرورت ہے۔
ماں سب کو سمجھتی ہے، کوئی اسے بھی سمجھے! حمل کے دوران ہارمونل چینجز کی وجہ سے عورت کے جذبات اور کیفیت بدلتے رہتے ہیں۔ مختلف اندیشے اسے گھیر لیتے ہیں۔ کبھی وہ جسمانی تبدیلی کی وجہ سے عجیب محسوس کرتی ہے ، تو کبھی مستقبل سے گھبراتی ہے، وہ خوش بھی ہوتی ہے، مگر وہ ذمہ داری سے ڈرتی بھی ہے ۔ بچے کی پیدائش کے بعد بہت سا وقت بچے میں چلا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عورت محسوس کرتی ہے کہ اب اس کا وجود ختم ہو گیا، اب زندگی اس کی نہیں رہی۔ ماں بننا مطلب کھانے پینے کی قربانی، نیند کی قربانی، صحت کی قربانی، وقت کی قربانی، زیب و آسائش کی قربانی۔ گویا زندگی میں بہت بڑی تبدیلی! پھر قربانیاں الگ، ذمہ داریاں الگ۔ بچے کے سارے کام کرنا، اس کی ساری ضرورتوں کا خیال رکھنا، اس کی تربیت کرنا، اس کی زندگی سنوارنا، اس میں عورت بہت تھک جاتی ہے۔ ذرا ان معاملات کو قریب سے دیکھیے تو بچے کے نازونعم، ہر طرح کے نخرے، ضدیں، رونا دھونا، چیخنا چلانا سب نظر آئے گا۔ ماں بھی انسان ہی ہوتی ہے اس کا صبر بھی ٹوٹ سکتا ہے وہ ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ آج کل بچوں کی تربیت کے تعلق سے سے بہت سی باتیں ہو رہی ہیں۔ اشد ضروری ہے کہ نسلوں کو پروان چڑھانے والی ہستی بھی ذہنی طور پر صحت مند ہو۔اگر ایک ماں ذہنی طور پر صحیح طبیعت نہیں رکھتی تو وہ اچھے بچے نہیں رکھتی! اچھے بچے سے مراد صحت مند، با اخلاق باکردار ،خاندان و ملت کے لیے مفید نسل۔
اگر بحیثیت ماں کوئی کامیاب بننا چاہتی ہو تو اس سے رشتہ گہرا کر دو جو ستر ماؤں کی محبت رکھتا ہے ۔اپنی ہر فکر کو اسے سونپ دینا ،اس سے خوب دعائیں کرنا ، ذمہ داریاں ادا کرنے میں اس کی مدد مانگنا۔ اولاد اللہ کی نعمت ہے اس بارے میں شکر ادا کرتے رہنا اور ان کے تعلق سے حساب بھی ہوگا اس لیے تقوی اختیار کرنا۔ بے شک مومنوں کے دلوں کو اللہ کی یاد سے ہی سکون ملتا ہے۔ اگر گزرتی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ایک ماں خود کو مایوس محسوس کر رہی ہے تو عظیم ماؤں کے قصوں کا مطالعہ کریں اور ہمت باندھیں۔مثبت رویہ اختیار کریں۔ آج کل اسٹریس مینجمنٹ، اینگر مینجمنٹ، ٹائم مینجمنٹ، شخصی ارتقا کے ورکشاپس کی بھی سہولتیں موجود ہیں جو ڈپریشن سے بچاسکتی ہیں۔ علاوہ ازیں ماؤں کے مسائل پر کئی کتابیں اور لیکچرز موجود ہیں ۔
بچوں کے والد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو بچوں کی نگہداشت کے معاملے میں کبھی اکیلا نہ چھوڑے ۔ دونوں مسائل پرگفتگو کریں اور مل کر حل تلاش کریں۔ بیوی جو بھی آپ کے بچوں کے لیے کرتی ہے اس کی قدر کریں ۔اس کے مزاج کی تبدیلی کو سمجھیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کے وہ احساس ناکامی لیے بیٹھی ہو تو اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ جو باپ اپنی اولاد لیے واقعی فکر مند ہو گا سب سے پہلے ان کی امی کا خیال رکھے گا۔ ماں کے آس پاس موجود بزرگ افراد اپنے تجربات اور ترکیبات بانٹ سکتے ہیں۔بچے بڑے ہونے کی بعد سمجھداری کی ایک حد کو پہنچ جاتے ھیں جب وہ بھی ماں کے لیے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔
ماں قوم کی معمار ہوتی ہے۔ بچے کی نگہداشت و تربیت کرنا جوئے شیر لانے کے مصداق ہے۔ اگر اس دوران کسی بھی قسم کے ذہنی تناؤ کا شکار ہو جائے تو اطراف کے افراد باشعور بن کر اس کا ساتھ دیں۔