اپنے شوہرکو دوسری شادی سے روکنے والی بہنوں کے نام- مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، مسرہ- طائف
جب کوئی عورت یہ سنتی ہے کہ اس کا شوہر دوسری شادی کرنے والا ہے اس وقت سے اس عورت کی زندگی میں زلزلہ سا برپاہوجاتا ہے پھر دونوں میاں بیوی میں جھگڑے لڑائی، مارپیٹ ، گالی گلوج حتی کہ دوخاندانوں میں تنازع کھڑا ہوجاتا ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسری شادی گناہ ہے ،پہلی بیوی پر ظلم ہے یا ایک کے ساتھ عدل اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی ہے ؟ ان سوالوں کو شریعت کی میزان پر تولتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ دوسری شادی یا بیک وقت ایک سے زائد شادی مردوں کے حق میں مباح میں ہے ، یہ کوئی نہ گناہ ہے ، نہ کسی پر ظلم ہےاور نہ ہی کسی کے ساتھ ناانصافی ہے ۔
اللہ تعالی اگر مردوں کو ایک سے زائد شادی کی اجازت نہیں دیتا تو کوئی مرد دوسری شادی نہیں کرتا ، دوسری شادی پر عمل دراصل اسلامی حکم کی وجہ سے ہے ایسے میں کسی مسلم خاتون کا اپنے شوہر کو دوسری شادی سے روکنا شرعا غلط ہے۔ عہد صحابہ میں ایسی کوئی خاتون نہیں ملتی جس نے اپنے شوہر کو دوسری شادی سے منع کیا ہو یا دوسری شادی کے نام پر ہنگامہ کھڑا کیا ہو،حقیقت میں دوسری شادی پہ موجودہ دورکا ہنگامہ ہندوانہ سماجی اثرکانتیجہ ہے جہان ہندو میریج ایکٹ کے تحت انہیں ایک ہی شادی کی اجازت ہےورنہ اسلامی ممالک میں آج کےپرفتن دور میں بھی ایسا ہنگامہ دیکھنے کو نہیں ملتا جو برصغیر میں پایاجاتا ہے ۔
ہرمرد متعددشادی کا متحمل نہیں ہوسکتا تاہم بہت سارے تعدد ازدواج کی صلاحیت رکھتے ہیں ،میں سمجھتاہوں ان تمام باصلاحیت مردوں کو اپنی صلاحیت بروئے کار لانی چاہئے ۔اس سے ایک دو نہیں سیکڑوں مثبت اثرات فردومعاشرہ پر مرتب ہوں گے ۔ آپ ذرا تعدد ازدواج کی دنیا میں داخل ہوکر سوچیں کیا پھر کوئی نکاح مہنگا ہوگا؟ کوئی باپ بیٹیوں کی شادی کے بوجھ تلے دبا ہوگا؟کسی غریب کی کوئی بیٹی گھر میں بیٹھی ہوگی یا شادی کے لئے دم توڑے گی؟ سماج کی معذور و بدصورت لڑکی شادی کے لئے ترسے گی ؟ ایک سے زیادہ خواہش والا مرد خواہش کی چکی میں پستا رہے گا ؟ کیا زنا کے بڑھتے واقعات کم نہیں ہوں گے ؟
آج کے ماحول میں شادی اس قدر دشوار اور خرچیلی ہے کہ ایک باپ بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کی شادی کے لئے پائی پائی جمع کرنے لگ جاتا ہے خصوصا غریب باپ ۔میرا ماننا ہے کہ مسلمان شادی اسلام کے مطابق کرلے اور مالدار طبقہ امانتداری سے زکوۃ نکالاکرے تو پھر مسلم سماج میں نہ غریبی ہوگی اورنہ بدامنی ۔ایسا سماج اس قدر ترقی یافتہ ہوگاکہ اس کا ہرفرد پرامن زندگی گزاررہا ہوگا۔
اتنی لمبی تمہید ان بہنوں کو سمجھانے کی لئے باندھی ہے جو دوسری شادی کو اپنے حق میں عذاب سے بدتر سمجھتی ہے ۔دراصل یہ اسلامی بہنوں کی غلط فہمی ہے جوبرے سماج کے کا نتیجہ ہے ۔ ہم نے اسلامی سماج بنایا ہی کب ؟ جہاں اسلامی پردہ ہو، اسلامی اخوت ہو، اسلامی طورپر تجارت ومعاملات ہوں، نیکی کی دعوت اور برائی پر نکیر ہو۔ جب سماج میں برائی ہوگی تو اس کے برے اثرات زندگی کے تمام مراحل پر پڑیں گے ۔ آپ سوچتی ہیں کہ دوسری شادی سے ہمارا حق ماراجائے گا ،ہمارے بچوں کی حق تلفی ہوگی ، ہم سے شوہر کی محبت کم ہوجائے گی ، ہماری آزادی چھن جائے گی ، ہماری ضرورتیں اور شوق پورے نہیں ہوں گے وغیرہ ۔
پہلے تو آپ یہ ذہن بنائیں کہ دوسری شادی آپ کے اوپر کوئی ظلم یا آپ کے حق میں کوئی عذاب نہیں ہے ، اگر ایسا ہوتا توپھر اکیلی بیوی ہمیشہ نعمت میں رہتی ، اسے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی، کبھی اس کو طلاق نہیں ہوتی اور اپنے شوہر کے ساتھ کبھی جھگڑا نہیں ہوتاجبکہ سماجی حالات اس کے برعکس ہیں ۔ عموما اپنے سماج میں ایک ہی شادی ہوتی ہے مگر میاں بیوی کےدرمیان بہت تنازعات دیکھنےکو ملتے ہیں جن کے باعث اکثر رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اس لئے آپ یہ نہ سوچیں کہ اکیلی ہونے سے کوئی پریشانی نہیں ہوتی ؟ پھر اپنے شوہر کی دوسری شادی پہ آپ کا کیا رویہ ہونا چاہئے؟
اس تناظر میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو اسلام کی بنیادی معلومات ہونی چاہئے تاکہ آپ اسلام کے سائے میں زندگی گزارسکیں،آپ کے شب وروز عبادت اور فرائض کی ادائیگی میں گزریں ۔
زندگی کا دوسرا نام پریشانی ہے ، اس لئے اسے جھیلنے کا ہنرسیکھیں ، ذرا غور کریں کہ پہلے والدین کے یہاں تھیں تو کتنا خوش تھیں ، شادی کےبعد کس قدر مسائل آگئے ، اگر کچھ مسائل شوہر کی دوسری شادی سے پیدا ہوتے ہیں تو آپ کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ اپنے حقوق اور فرائض کو پہچانیں اور انہیں بخوبی انجام دیتے رہیں کبھی آپ غمگیں نہیں ہوں گے بھلے مسائل میں گھرے رہیں ۔
شوہر میں دوسری شادی کا خیال پائیں تو دیکھیں کہ کیا وہ دوبیویوں میں انصاف کرسکیں گےاور ان کی رہائش واخراجات برداشت کرسکیں گے ؟ اگر ہاں تو انہیں خوشی خوشی شادی کرنے کہیں پھر آپ کو کس بات کا دکھ ہے ؟
ایک بات اوپر یہ معلوم ہوہی گئی کہ مردوں کو ایک سے زائد شادی کرنا جائز ہے اس لئے آپ کا دوسری شادی سے روکنا یا طلاق کا مطالبہ کرنا صحیح نہیں ہے ، ایک مزید بات توکل وعقیدہ سے متعلق ہے وہ یہ ہے کہ دوسری شادی پہ پہلی بیوی سوچتی ہے کہ ہمارے حصے کی روزی دوسری عورت اور اس کی اولادچھینے گی جبکہ اللہ نے ماں کے پیٹ میں سب کا نصیب اوررزق لکھ دیا ہے ، کوئی کسی دوسرے کا نصیب اور رزق نہیں چھین سکتا ۔
آپ اس پہلو سے بھی غور کرکے دیکھیں کہ شوہر کی ذات پر آپ کا کتنا اختیار ہے ،کیا وہ آپ کی ایسی ملکیت ہے جس پر کسی دوسرے کا ادنی سا بھی حق نہیں ہے ؟ نہیں ایسی بات نہیں ہے ،شوہر کی ساری جائیداد بھی بیوی کی نہیں ہے،اس کا چوتھائی یا آٹھواں حصہ ہے۔ شوہر کے ایک لفظ طلاق سے آپ کا سارا رشتہ ختم ہوجاتا ہے اب وہ مرد کسی سے شادی کرے آپ اس سے بے پرواہ ہیں ۔پھر دوسری شادی سے روکنا کیسا ہے سوچ کر دیکھیں۔
بسااوقات مجبوری میں عورت خود ہی اپنے شوہر کو دوسری شادی کرنے کا حکم دیتی ہے مثلا بچہ نہ ہوتا ہو یا جنسی طورپرشوہرکو خوش نہ کرسکتی ہو یا ہمیشہ بیمار رہتی ہو ،یہ اچھی بات ہے۔ اسی طرح اسلامی بہنوں کو ان عورتوں کا درد بھی محسوس کرنا چاہئے جکی شادی نہیں ہوپارہی ہیں اور وہ لاکھوں میں ہیں ۔
صحیح بخاری میں ہے کہ قرب قیامت میں عورتوں کی کثرت ہوگی اور آج ہم دنیا میں عورتوں کی کثرت دیکھتے ہیں باوجودیکہ لڑکیوں کا اسقاط ہورہا ہے ۔ایسے میں تمام عورتوں کے ساتھ انصاف اسی وقت ممکن ہے جب مرد حضرات ایک سے زائد شادی کریں ۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد کوئی اسے نہیں بیان کرے گا ۔ میں نے یہ حدیث نبی کریم صلوسلم عل سے سنی ہے ۔ میں نے آنحضرت صلوسلم عل کو یہ کہتے سنا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ وإمَّا قالَ: مِن أَشْرَاطِ السَّاعَةِ، أَنْ يُرْفَعَ العِلْمُ، وَيَظْهَرَ الجَهْلُ، وَيُشْرَبَ الخَمْرُ، وَيَظْهَرَ الزِّنَا، وَيَقِلَّ الرِّجَالُ، وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ حتَّى يَكونَ لِلْخَمْسِينَ امْرَأَةً القَيِّمُ الوَاحِدُ(صحيح البخاري:6808)
ترجمہ: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی یا یوں فرمایا کہ قیامت کی نشانیوںمیں سے یہ ہے کہ علم دین دنیا سے اٹھ جائے گا اور جہالت پھیل جائے گی ، شراب بکثرت پی جانے لگے گی اور زنا پھیل جائے گا ۔ مرد کم ہو جائیں گے اور عورتوں کی کثرت ہو گی ۔ حالت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ پچاس عورتوں پر ایک ہی خبر لینے والا مرد رہ جائے گا ۔
جب کوئی عورت اس نیت سے اپنے شوہر کو دوسری شادی کرنے کا حکم دیتی ہے کہ کسی مجبور ولاچار عورت کا بھلا ہوجائے تو اس پر اللہ کی طرف سے اجر کا مستحق ہوگی ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ایک شخص کی زندگی میں ایک سے زیادہ بیوی ہو تو اس کے یہاں زیادہ مسائل ہوں گے مگر بیویوں کو ان سارے مسائل سے کیا واسطہ ؟ انہیں بغیرخرچ کے محض امور خانہ داری انجام دیناہے جبکہ کفالت سے لیکر تمام عائلی مسائل کا ذمہ دار مرد ہوتاہے مثلا بیوی بچوں کا خرچ، رہائش، تعلیم وتربیت اور علاج ومعالجہ وغیرہ۔
دوسری شادی کے بعد پریشانی اس بات سے بڑھتی ہے کہ پہلی بیوی اپنی سوکن کو اپنا دشمن سمجھ لیتی ہے ۔سوکن آپ کی دشمن نہیں ہے ، اسے اپنی بہن سمجھیں اور جس طرح شوہر سے پیار کرتی ہیں اپنی اس بہن سے پیار کریں اس طرح دونوں کی زندگی ہنسی خوشی گزرے گی بلکہ دونوں بہنیں گھریلو کام میں ایک دوسرے کو دوست سمجھ لیں تو وہ گھر سنور جائے گی اور دونوں علاحدہ علاحدہ رہتے ہوں تب زیادہ مسائل نہیں ہوتے۔
اس جگہ آپ کو ایک حدیث بیان کرتا ہوں اس کو حفظ کرلیں اوراس کی روشنی میں زندگی گزاریں ان شاء اللہ جس حال میں رہیں گی خوش رہیں گی ۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلوسلم عل نے ارشاد فرمایا :
إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا، قِيلَ لَهَا: ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتِ{مسند احمد،الطبرانی الأوسط}
ترجمہ :جب عورت اپنی پانچ وقت کی نماز پڑھ لے ، اپنے ماہ {رمضان } کا روزہ رکھ لے ، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرلے ، اور اپنے شوہر کی اطاعت کرلے تو اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں اسکے جس دروازے سے داخل ہونا چاہے داخل ہوجا ۔
ایک آخری بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ یہ جان لیں شوہر کے دل میں دوسری شادی کا خیال پیدا ہوجانے سے یہ خیال اور بھی پختہ ہوتا جائے گا جب جب آپ منع کریں گی اور جھگڑا لڑائی کریں گی ۔ دوسری شادی سے روکنے کا آپ کو اسلام نے اختیار نہیں دیا جبکہ مرد کو کرنے کا اختیار ہے پھر آپ غور کریں کہ دوسری شادی کے معاملے میں کس کا رویہ اسلام کے مطابق ہے ؟ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ آپ شوہر کو اس وقت دوسری شادی سے رکنے کا مشورہ دے سکتی ہیں جب اس میں دوسری شادی کی شرطیں نہ پاتی ہوں ۔ دوسری شادی کے لئے دو بیویوں کے درمیان عدل، دونوں کی معاشی کفالت اور دونوں کی جنسی خواہش پورا کرنے کی طاقت ہونا شرط ہے۔
The post اپنے شوہرکو دوسری شادی سے روکنے والی بہنوں کے نام- مقبول احمد سلفی appeared first on صلاح کار – -.