نوٹ بندی
کسی نے بھوکے سے پوچھا کہ بھائی دو اور دو کتنے ہوتے ہیں؟ اس نے فوراً جواب دیا چار روٹی۔ حقیقت یہی ہے کہ بھوکے کو روٹی ہی یاد آتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر کہا جاتا ہے کہ پاپی پیٹ کا سوال ہے۔ یہی سوال ہمارے صوفی ہمت میاں کی ہمت کو چیلنج کررہا تھا۔ حلیہ سے تو بے چارے علامہ دہر معلوم ہوتے تھے مگر بے چارے تھے انگوٹھا چھاپ۔ اپنے ڈیل ڈول سے ایک زمانہ تک کمزور عقیدہ رکھنے والی مخلوق پر حکومت کی۔بڑے سے بڑے کام چند گھنٹوں میں پورا کرانے کا دعویٰ ایک زمانہ تک بغیر کسی رکاوٹ کے چلتا رہا۔ ساس بہو کا جھگڑا، میاں بیوی کے تعلقات کی بحالی، مقدمہ میں شرطیہ جیت دلانا بڑے سے بڑے آسیب کو منٹوں میں بھگادینا، غرض کہ ہر طرف صوفی ہمت میاں کی ہمت ہی کے چرچے تھے۔ جو صوفی ہمت میاں نے فرمادیا، فرمادیا۔ مگر صوفی ہمت میاں یہ بھول گئے تھے کہ کوئی قادرِ مطلق بھی ہے۔ وہ جب تک چاہتا ہے رسی کو ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے کھینچ لیتا ہے۔ صوفی ہمت میاںکی کم عقلی سے ان کا یہ راز ایک روز خود بہ خود کھل گیا۔
ہوا یوں کہ ملک میں نوٹ بندی ہوگئی۔ پرانے نوٹ کی جگہ نئے نوٹ آگئے۔ نوٹوں کے بدلنے کا مسئلہ ہر ایک کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا۔ ہمت میاں ویسے بھی پیسے کے معاملے میں کسی پر جلدی سے یقینی نہیں کرتے تھے۔ وہ بغیر سوچے سمجھے نوٹ بدلوانے خود ہی بینک پہنچ گئے۔ وہاں بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ آٹھ دس گھنٹے لائن میں لگ کر نمبر آرہا تھا۔ مجبوری میں حضرت بھی لائن میں لگ گئے۔ لائن میں گھنٹوں سے صوفی جی کو دیکھ کر کچھ نوجوانوں نے حضرت کی ویڈیو بناکر وائرل کردی، بس پھر کیا تھا۔ جلدی ہی ہمت میاں کی ہمت جواب دے گئی۔ ایک سے ایک بڑھ کر کمنٹ لوگ کررہے تھے۔ کوئی ڈھونگی بتارہا تھا، کوئی ٹھگ ویڈیو سب کے سامنے موجود تھا کہ دوسروں کا کام چند گھنٹوں میں کروانے والا اپنے کام کے لیے آٹھ گھنٹے لائن میں کھڑا رہا۔ غرض کہ لوگوں کے سامنے ہمت میاں اب ظاہر ہوچکے تھے۔ کاروبار بالکل ٹھپ ہوچکا تھا۔ بچی کھچی دولت بھی دو سال میں ختم ہوچکی تھی اور اب ہمت میاں پاپی پیٹ کے لیے منصوبہ بندی کررہے تھے۔ بہت غور کرنے پر ہمت میاں کو ایک بہت دور گاؤں کی یاد آئی کہ وہاں ان کا کوئی جاننے والا بھی نہیں ہے اور اس گاؤں میں کوئی حافظ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ رمضان سے دو روز قبل حضرت گاؤں پہنچ گئے اور لوگوں کو تراویح کی اہمیت و افادیت کے بارے میں بتایا۔ تمام گاؤں والے خوشی خوشی تراویح پڑھنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ایک دو نے مسجد نہ ہونے کی بات کہی تو پردھان کی بیٹھک میں ہی تراویح پڑھنے کے اہتمام پر فیصلہ ہوگیا۔ ہمت میاں دل ہی دل میں خوش ہوئے کہ چلو تراویح سنا کر جو رقم ہاتھ آئے گی کچھ دن اسی سے کام چلے گا، بعد میں کچھ اور دیکھیں گے۔ رمضان کا چاند نظر آگیا اور ہمت میاں نے گاؤں والوں کو تراویح پڑھانا شروع کردی۔ بے چارے صوفی ہمت میاں حافظ تو تھے نہیں، ہاں کچھ سورتیں نماز کے لیے یاد کررکھی تھیں، انھیں سورتوں کو بہت تیزی کے ساتھ پڑھتے تھے، آرام سے پڑھنے میں خطرہ تھا کہ گاؤں والوں کو بھی وہ سورتیں یاد ہوں گی۔ اسی لیے کہیں راز نہ کھل جائے اس برق رفتاری کا یہ عالم ہوتا تھا کہ یعلمون، تعلمون کے علاوہ سامعین کے کچھ پلّے ہی نہ پڑتا تھا۔ خدا خدا کرکے چھبیس تراویح مکمل ہوگئیں۔ تراویح کے بعد ہمت میاں نے بیان فرمایا ساری توجہ اس بات پر مذکور کی کہ اس مہینے میں آپ ایک روپیہ دو گے تو اس کا مطلب ستر روپے دوگے۔ آپ کی زندگی میں دوبارہ یہ مہینہ آئے نہ آئے اس لیے جتنا زیادہ ممکن ہو، ابھی ثواب کمالو، پرسوں تراویح مکمل ہورہی ہے، اس لیے آپ لوگ آپس میں چندہ اکٹھا کرلیں اور جنت الفردوس میں اپنے لیے ابھی سے اپنا گھر محفوظ کرلیں۔ گاؤں والے سن کر آپس میں پیسہ اکٹھا کرنے لگے ۔ اگلے روز جب سب گاؤں والے حسبِ حیثیت رقم جمع کرارہے تھے، گاؤں کے ایک بزرگ نے گاؤں والوں سے کہا، بھائیو! آپ لوگ تو جانتے ہیں کہ مجھے سورئہ یٰسین حفظ ہے، گاؤں میں ہی کیا آس پاس بھی جب کوئی مرنے والا ہوتا ہے تو لوگ مجھے ہی لے جاتے ہیں مگر قرآن مکمل ہونے والا ہے سورئہ یٰسین جو ۲۳ویں پارے میں ہے، وہ تو تراویح میں کہیں نہیں آئی۔ سب لوگوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلہ کو صوفی جی سے ہی معلوم کرتے ہیں۔ چنانچہ تراویح کے وقت جب سب لوگ جمع ہوئے تو صوفی جی سے معلوم کیا۔ صوفی جی کھیلے کودے آدمی تھے فوراً دہاڑ کر بولے کم بختو! تمھیں یہ معلوم نہیں کہ سورہ یٰسین مرنے والے پر پڑھی جاتی ہے، میں اگر سورہ یٰسین پڑھ دیتا تو شاید آج تم میں سے کوئی بھی یہاں موجود نہ ہوتا