تھے وہ آبا تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
شیبان فائز،جلگاؤں،ؕمہاراشٹر
عزیز قارئین! 17 رمضان بمطابق 2ھ کو غزوہ بدر کا وہ معرکہ پیش آیا تھا جو اسلام اور باطل کے درمیان پہلی جنگ تھی ۔ آج اس تحریر میں میرا قلم عاجز ہے ان باتوں کو لکھنے سے جو باتیں مجھے اور آپ کو کئی مضامین کے ذریعہ آسانی سے مل جاتی ہے۔ میری مراد غزوہ بدر سے متعلق معلومات سے ہیں کہ غزوہ بدر کب ہوئی ؟ کیسے ہوئی ؟ کتنے ہتھیار تھے ؟ کتنے صحابہ تھے ؟ کتنے دشمن تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ باتیں تو الحمدللہ ہم تک پہنچ چکی ہے مگر کیا ہم نے یوم الفرقان کو صرف معلومات، جلسے جلوس، تقاریر اور محفلوں تک محدود رکھنا ہے ؟ یا اس کا وہ انقلابی پیغام امت کو دینا ہے جو اللّٰہ نے اس معرکہ سے ہم تمام کے سامنے رکھا ہے ۔ عزیزوں ! دیکھا جائے تو بدر اپنے آپ میں ایک پیغام ہے ، وہ پیغام جس نے حق کو حق کر دکھایا اور باطل کو رخصتی کا راستہ دکھایا ، وہ پیغام جس کی نسبت تعلق باللہ سے ہے ، وہ پیغام جو مسلماں کو حقیقی مومن بناتا ہے۔ چلیے غور کرتے ہیں بدر کے اس پورے منظر پر جب ایک نہایت چھوٹی جماعت کا مقابلہ تھا بہت بڑی فوج سے ۔ تعلق باللہ کی مظبوطی کا اندازہ لگائیے کہ سامنے ہزاروں کی فوج ہتھیاروں سے لیس دیکھنے کے باوجود بھی وہ ایمان و یقین تھا کہ کسی سپاہی کے قدم نہیں ڈگمگائے ۔ ہاتھ کھالی ہوتے ہوئے بھی ایمان کی وہ کیفیت موجود تھی کہ یہی ہاتھ معرکہ میں میری تلوار بنیں گے۔ یقین و اطمینان کا وہ مقام تھا کہ رسول اللّٰہ (ص) کی جماعت نے اپنے بازوؤں کو تلواریں ، نگاہوں کو تیر اور سینوں کو زرہ سمجھ رکھا تھا ۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
بدر کی وہ فضا چیخ چیخ چینخ کر آج مسلمانوں کو بتا رہی ہے کہ دیکھو رسول اللّٰہ (ص) کے ساتھی کبھی بھی صرف ہتھیار ساز و سامان پر اکتفا نہیں کرتے ۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتیں ان کے حوصلوں کو پسپا نہیں کرسکتی۔ تیز و ترار ہتھیار بھی ان کی بصیرت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ ان کے لیے اللّٰہ اور اس کے رسول (ص) کا ساتھ کافی ہوتا ہے۔ بدر کا وہ واقعہ یاد کیجیے جب جنگ سے ایک رات قبل اللّٰہ کے رسول (ص) اللّٰہ کے حضور دعا گو تھے اور گڑگڑا کر یہ دعا مانگ رہے تھے کہ "اگر تیری یہ مٹھی بھر جماعت آج زیر ہوگئی تو قیامت تک تیرا نام لیوا باقی نہیں رہے گا , تو ہمیں فتح نصیب فرما "۔ اور اللّٰہ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اور مدد کے لیے فرشتوں کا نزول کیا۔ میرے دوستوں ! یہاں دونو باتیں یاد رکھے کہ اللّٰہ کے رسول (ص) نے صرف جنگی تربیت ہی پر دھیان نہیں دیا بلکہ دعاؤں کا بھی اہتمام کیا ۔ یہ وہ غیر معمولی حکمت ہے جس کی آج اس دور میں شدید ضرورت ہے۔ آج ایک طرف مسلمان حکمراں اپنی دولت و انبار کے نشے میں چوٗر ہے تو دوسری طرف شام ، عراق ، ایران و فلسطین کے حالات ہماری نظروں کے سامنے عیاں ہیں۔ ہم نے غزوہ بدر کو صرف مسجدوں کے وعظ و نصیحت تک محدود رکھا یہی وجہ ہے کہ آج وہ غیرتِ ایمانی جاگنے سے انکار کررہی ہے جس نے کبھی ہزاروں کے لشکر کو زیر کیا تھا ۔ آج اس ایمانی غیرت و حمیت کی ضرورت ہے جو حق کو حق کہے اور باطل کو باطل کہے پھر چاہے کرسی نشینوں کو یہ بات کتنی ہی ناگوار گزرے۔
بدر صرف ایک اسلامی واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ اپنے آپ میں ایک تحریک ہے ۔ بدر وہ تحریک ہے جو تعلق باللہ کی عمدہ مثال دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے ، بدر وہ تحریک ہے جو دشمن کو طاقتور دیکھنے کے باوجود بھی اپنے قائد کی فرمانبرداری پر معمور ہے۔ بدر حوصلے کی وہ مثال ہے جس جیسی کوئی مثال اب تک دنیا کبھی پیش نہ کرسکی ۔
شہادت ہے مقصود و مطلوب مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
عزیزانِ گرامی ! اخلاص و للہیت وہ واحد شئے ہے جو مومن کو حقیقی کامیابی کی طرف گامزن کرتی ہے پھر اس کی کوششوں ، کاوشوں اور جدو جہد کا مقصد دنیاوی شان و شوکت ، لا محدود دولت ، نفس کی الفت اور شہرت نہیں ہوتا بلکہ ان سب سے بالا تر موت سے محبت ، دنیا سے نفرت ، اللّٰہ سے ملاقات کا شوق و رضائے الٰہی ہوتا ہے ۔ وہ جب زمین پر ہوتا ہے اس کے حواس اس کو نظامِ عالم کی جدو جہد کے ساتھ جکڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔ وہ ہر صورت اپنی و اپنے ساتھیوں کی آخرت سنوارنے کی جستجو میں مگن ہوتا ہے اس کا مقصد ہمیشہ قرآن کی اس آیت کی عکاسی کرتا ہے کہ ۔۔۔
’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘
آج دنیا غم مصائب و بیماری کے اس دور سے گزر رہی ہے جس کا بیان مشکل ہے ۔ ایسی صورت میں ہر مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اندر بدری صفت پیدا کرے ۔ وہ صفت جو اس کے دین کو پیش کرے ۔ وہ صفت جو حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دے ۔ وہ صفت جو سامنے کھڑی بہت بڑی پریشانی کو اس جرات سے للکارے کہ خدا خود فرشتوں کا نزول کرے اور اس پریشانی میں عالمِ انسانیت کی حفاظت کرے۔ اسی جذبہ ، ہمت و شجاعت کے ساتھ اپنے آپ کو اس دور میں ثابت قدم رکھنے کی ضرورت ہے جس طرح بدری صحابہ (رض) نے کفار کے سامنے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ یقیناً اللّٰہ اس کی ہر ممکن مدد کرتا ہے جس کا ایمان لبریز ہو اور ہر صورت اللّٰہ کے دین کے نفاذ کے لیے کوٗشاں ہو ۔ میں نے بدر کے پیغام کے ساتھ ایک ادنیٰ سی کوشش قاری کے سامنے بکھیرا ہوں اس نیت کے ساتھ کہ امت میں بدری صحابہ کی وہ جدو جہد جاری رہے جو اس کو ہمیشہ اپنے حقیقی مقصد سے جوڑے رکھے کہ ” اسلام اس دنیا میں غالب ہونے آیا ہے اور اس قانون کے نفاذ کی بات کرتا ہے جس کا بنانے والا سارے جہانوں کا مالک ہے "۔