مجرم کون؟

تاج الدین محمد، نئی دہلی

متعلقہ مضامین

اسے کئی گولیاں لگی تھی وہ مندر سے چند گز کے فاصلے پر پیپل کے درخت کے پاس زمین پر گر پڑا تھا۔ خون سے پورا جسم تر تھا لیکن سانس چل رہی تھی۔ ہاتھ پیر اب تک حرکت کر رہے تھے۔ بھگدڑ کی آواز سنکر کئی لوگ گھروں سے اچانک ہی باہر آئے لیکن گولیوں کی پے در پے آواز سے خوفزدہ ہو کر سب نے اپنا اپنا دروازہ بند کر لیا۔ پتہ نہیں کیا معاملہ ہے؟ ایک بوڑھے نے سرگوشی کرتے ہوئے دوسرے بوڑھے سے کہا۔ گولیوں کی آواز سے فضا میں عجیب سی خوف و وحشت طاری تھی۔
ایک پولیس والا ڈرا سہما سا اس کے قریب آیا اسے گمان تھا شاید وہ ابتک زندہ ہے۔ بدمعاش سنبھو ایک خوف کی علامت بن چکا تھا۔ پولیس والا چلایا مر گیا سالا۔ وہ اوندھے منھ زمین پر بے حس و حرکت پڑا تھا۔ خون پانی کی طرح اس کے جسم سے بہہ رہا تھا۔ انسپکٹر کے بوٹ اس کے خون سے سن گئے تھے۔ ایک نے آہستہ سے حولدار سے کہا۔ وہ تو لحیم شحیم جوان تھا؟ داروغہ صاحب نے مجھے تصویر بھی دکھائی تھی۔ ڈیل ڈول سے تو یہ کوئی اور ہی معلوم ہوتا ہے؟ تب تک کئی اور پولیس والے بھی پہنچ گئے۔
ختم کر دو بچ گیا تو جواب دینا بھاری پڑ جائیگا۔ انکاونٹر لکھ دیں گے۔ کیس چلیگا بار بار تاریخ پر جانا پڑیگا۔ نوکری بھی جا سکتی ہے سزا بھی ہوگی۔ ایک بے ربط سا خیال برق رفتاری سے ایک لمحے میں ہی اس کے ذہن میں گونجے لگا۔ اس نے ریوالور تان لی۔ دو چار گولی اس کے سینے میں اتار دو ٹھنڈا پڑ جائیگا۔ جلدی کرو ایک نے دوسرے کو زرا کرخت لہجے میں کہا۔
پہلے اسے سیدھا تو کر لو؟ دیکھ تو لیں وہی ہے یا کوئی اور؟ مخبر نے تو ہرے رنگ کی شرٹ اور سفید پینٹ ہی بتایا تھا۔ خون سے لت پت نیم مردہ جسم پر جوتے سے ایک زوردار ٹھوکر لگاتے ہی کراہنے کی آواز سے دونوں ایک لمحے کو سہم سے گئے۔ گولیوں سے چھلنی جسم اب سیدھا ہو چکا تھا۔
حولدار کی چیخ نکل گئی۔ ارے یہ تو بھولو ہے۔ پولیس انسپیکٹر خوف کی ملی جلی کیفیت میں زور سے چلایا۔ کون بھولو صاحب؟ دوسرے پولیس والے نے انسپکٹر سے گھبراتے ہوئے پوچھا۔ مکھیا جی کا بیٹا اور کون؟ یہ تو غضب ہو گیا، بنا موت مارے گئے۔ اب کیا ہوگا؟ کچھ نہیں، جلدی سے ایمبولینس بلاو اسے اسپتال لے جاتے ہیں، شاید بچ جائے گولی سینے اور دماغ میں نہیں لگی ہے۔ جو غلطی ہو گئی اسکی بھرپائی تو کرنی ہی ہوگی۔
ایمبولنس آ چکی تھی۔ دھیرے دھیرے گاؤں کے لوگ بھی اکٹھا ہو گئے تھے۔ مکھیا جی کو خبر ہوئی وہ بھاگے ہوئے بدحواسی کے عالم میں آئے۔ ان کا رو رو کر برا حال تھا۔ یہ کیا ہو گیا؟ کیسے ہوا؟ وہ پولیس انسپیکٹر کا گریبان پکڑ کر جھنجھوڑ رہے تھے۔ حولدار اور انسپکٹر خوف سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ بھولو کو جلدی جلدی اسپتال پہنچایا گیا۔ آپریشن کر کے گولیاں نکال دی گئی۔ قسمت سے بھولو بچ گیا تھا۔ مخبر کو گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں پولیس والے اور مخبر پر کیس درج ہو چکا تھا۔ مکھیا جی نے چیخ چیخ کر سارا تھانہ سر پر اٹھا لیا سب کو سسپینڈ کرا دونگا، کسی کو نہیں چھوڑونگا۔ جب داروغہ صاحب نے وعدہ کیا کہ جو بھی قصوروار ہوگا اسے سخت سے سخت سزا دلائی جائیگی آپ میری طرف سے پورا اطمینان رکھیں تب جاکر وہ خاموش ہوئے۔
آج کورٹ کی پہلی تاریخ تھی دونوں پولیس والے لائن حاضر کر دئے گئے تھے۔ جج نے مخبر سے پوچھا۔
تمہیں مخبری کرتے ہوئے کتنا وقت ہوا؟
یہی چار پانچ سال صاحب۔
تم نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے؟
میں نے بی اے پاس کیا ہے۔
پھر تم مخبری کے اس غلیظ دھندے میں کیسے آ گئے؟
بیکاری و تنگدستی نے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے جمائی لی اور دونوں ہاتھ کو اوپر اٹھا کر ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں پھنسا کر ٹخ ٹخ کی آواز پیدا کی۔ وہ کافی نڈھال تھا کئی راتوں سے سویا نہیں تھا نیند اسکی آنکھوں میں تیر رہی تھی۔
سیدھے کھڑے رہو۔ جج نے غصے میں ڈانٹتے ہوئے کہا۔ جی صاحب میں سیدھا ہی کھڑا ہوں اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ پوچھئے میں بالکل سچ سچ بتاونگا۔ میں زرا تھک گیا ہوں۔ سوال و جواب کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے جج صاحب نے پوچھا۔ تم نے بدمعاش سنبھو کو بچانے کی کوشش کیوں کی؟ کیونکہ وہ تمہارا دوست تھا؟ تمہاری بھولو سے کیا دشمنی تھی؟
پہلے سوال پھر جواب اور تسلی بخش جواب نہ دینے کی صورت میں سرزنش اور پھٹکار۔ عجیب و غریب سی کوٹھری ہے یہ؟ اور اس پر یہ کالے کالے لوگ کوؤں کی طرح کائیں کائیں کرتی ہوئی یہ عجیب الخلقت مخلوق؟ اس نے کمرے کے چاروں جانب نگاہ دوڑائی در و دیوار سے مایوسی و نا امیدی ٹپک رہی تھی۔ وہ سوچنے لگا کوئی اس کالے کوٹ والے جج کے فیصلے سے باعزت بری ہو جاتا ہوگا تو کوئی کال کوٹھری تک پہنچ جاتا ہوگا؟ نہ جانے کب تک سزا بھگتنی پڑیگی؟ کیا گزرتی ہوگی اس کے بیوی بچوں اور ماں باپ پر؟ کیسے ان سب کی زندگی بسر ہوتی ہوگی؟ یہ سوچتے ہی اس کا سر چکرانے لگا۔ اگر بھولو مر گیا تو اسے لازمی پھانسی پر چڑھا دیا جائیگا؟ ایک لمحے کو پھانسی کا خیال آتے ہی اس کا پورا جسم لرز سا گیا۔
تبھی ایک گرجدار آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا، وکیل استغاثہ نے غصے میں منھ بگاڑ تے ہوئے کہا، احمق انسان! عدالت کا وقت ضائع کرنے کے جرم میں تجھے جیل بھیج دیا جائیگا۔ عدالت کو جلدی صاف صاف اور سچ سچ بتاو۔
غنودگی کو توڑتے ہوئے اس نے کہا۔ صاحب، میں سنبھو اور بھولو ایک ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ بھولو مجھ سے اور سنبھو سے بلا وجہ اکثر لڑائی جھگڑا کرتے ہوئے کہتا، تم دونوں کو ایک دن اسی چوراہے پر گولیوں سے بھون ڈالونگا۔ میرا باپ اس گاؤں کا مکھیا ہے تم دونوں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اسکی روز روز کی اس ذلیل حرکت سے سنبھو بدلے کی آگ میں جلنے لگا۔ سچ پوچھئے صاحب تو سنبھو کو غنڈہ بنانے میں بھولو کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور بھولو کو سبق سکھانے کے لیے بدمعاش بن گیا۔
پھر تو جیسے بھولو کی عادت سی بن گئی وہ بغیر بات کے بھی انگلیوں کی بندوق بنا کر کبھی میرے کبھی سنبھو کی کھوپڑی پر رکھ دیتا اور تڑاخ تڑاخ کی آواز سے سر میں گولیاں داغتا چلا جاتا ایسا کرتے ہوئے اسے بڑا مزہ آتا تھا اور پھر ایک زوردار قہقہہ کیساتھ محفل ختم ہو جاتی۔ میں بچپن سے ہی بڑا بزدل واقع ہوا ہوں صاحب، میرا سر گھومنے لگتا معنوں اصلی گولیاں میرے سر کو چھید کر باہر نکل گئی ہوں۔ معمولی سی بات اور ہنسی مذاق میں بھی وہ گولیوں سے بھون ڈالنے کی بات کرنا ہرگز نہ بھولتا، یہاں تک کہ گولیوں کی گڑگڑاہٹ میرے وجدان میں ثبت ہو گئی اور میں نیم پاگل ہو گیا۔
مجھے بھولو نے ذہنی بیمار بنا دیا تھا۔ میں ایک ایسا مریض بن گیا جو گولیوں کی آواز سے خوف کھانے لگا۔ میرا پڑھنے لکھنے سے دل اُچاٹ ہو چکا تھا۔ میں نے بی آئے پاس کرنے کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ میں بیکار تھا ادھر ادھر آوارہ گھومنا اوباش لڑکوں کیساتھ وقت گزارنا میرا مشغلہ بن گیا۔ دن رات یونہی گزر رہے تھے کہ ایک دن اچانک میری ملاقات ایک پولیس والے سے ہو گئی۔ کسی چور اچکے غنڈے موالی بدمعاش کو پکڑوانے کے عوض پیسے دینے کی بات پر مخبر گیری کے اس گندے کام کی شروعات ہو گئی۔ ایک دن پولیس والے جس غنڈے کو میرے ذریعہ پکڑوانا چاہتے تھے وہ میرا جگری دوست سنبھو تھا۔ میں نے بڑی منت سماجت کی کہ میں یہ کام نہیں کر پاونگا لیکن انہیں نہیں ماننا تھا، نہیں مانے۔ میں نے کئی بار منع کیا ہاتھ جوڑے پیر پکڑا لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے اور مجھے مسلسل ڈراتے دھمکاتے رہے۔
ایک دن انہوں نے میرے سر پر اصلی ریوالور رکھ کر کہا اگر تو نے یہ کام نہیں کیا تو چھہ کی چھہ گولیاں تیرے بھیجے میں اتار دونگا۔ صاحب میں نقلی گولیوں سے ڈرنے والا بندہ اصلی گولیوں سے خائف ہو گیا اور بحالت مجبوری چند مہینوں میں سنبھو کو پکڑوانے کا وعدہ کر لیا گو کہ میرا دل اس کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔ میں نے کئی بار سوچا میں یہ بات سنبھو کو بتا دوں تاکہ وہ علاقہ چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے لیکن پولیس والوں کے خوف اور ڈر سے میں ایسا نہ کر سکا۔سنبھو ابتک بڑا کریمنل بن چکا تھا۔ اس نے بھولو کو ختم کر دینے کی بات مجھ سے کئی بار کی لیکن میں نے اسے سمجھا بجھا کر راضی کر لیا اور اسے معاف کر دینے کی صلاح دی جسے وہ بڑی خاموشی سے ٹال جاتا تھا۔ پولیس والوں کا سنبھو کو بغیر مخبر کے پکڑنا ناممکن میں سے تھا۔ وہ بہت شاطر دماغ دلیر اور بہادر بدمعاش تھا۔ وہ ہم سے ملنے چوری چھپے گاؤں کے عقب میں شیو مندر پر کبھی کبھار آ جایا کرتا تھا۔ چند ہفتوں بعد اسے پکڑوانے کے لیے پولیس والوں کا دباو مجھ پر بڑھتا گیا۔ ایک دن اچانک دوپہر کیوقت میرے پاس سنبھو کا فون آیا حالانکہ وہ اکثر شام ڈھلے فون کرتا تھا۔ "جلدی مجھ سے شیو مندر پر آکر ملو” یہ کہتے ہی اس نے فون کاٹ دیا۔ وہ اکثر و بیشتر دیر تک باتیں کیا کرتا تھا۔ میں بہت خوفزدہ ہو گیا موت کے سائے میرے ارد گرد منڈلانے لگے میں کئی طرح کے اندیشوں میں گرفتار ہو چکا تھا۔کہیں کسی کم ظرف پولیس والے نے سنبھو کو میرے ارادے سے آگاہ تو نہیں کر دیا؟ میں ڈرا سہما سا مندر کی جانب چل پڑا۔ جانے سے پہلے میں نے پولیس والوں کو ساری تفصیل بتا دی۔ وہ سب تیار ہوکر اپنی اپنی جگہ پر پہنچ چکے تھے۔ میں چپ چاپ سب سے نظریں بچائے اس سے ملنے شیو مندر کی طرف تیزی سے جا رہا تھا۔ بچپن کے دوست کیساتھ ایسا دغا کرتے ہوئے میرے اوپر بڑی ندامت و شرمندگی چھائی ہوئی تھی جسے یکلخت ہی بھولو کی ضدی اور غصیل طبیعت نے بدل ڈالا۔ دوستوں کے ساتھ دھوکہ فریب کرنے والوں کی یہی سزا ہونی چاہیے جو میں بھگت رہا ہوں۔مندر کے گیٹ پر اچانک ہی مجھے بھولو مل گیا۔ میرے بہت منع کرنے پر بھی وہ میرے ساتھ چلنے پر بضد رہا اور پھر اپنی گندی عادت کے مطابق باتوں باتوں میں انگلیوں کی بندوق بنا کر تڑاخ تڑاخ کی چھہ گولیاں اس نے میرے سر میں اتار دی۔ میرا دماغ اچانک ہی پھر گیا اور میں نے اسی وقت طے کر لیا کہ آج اس کا کام تمام کر دینا چاہیے۔ ایسا سوچتے ہی مجھے ایک عجیب سی خوشی کا احساس ہوا جو بیان سے باہر ہے۔ یکلخت ہی گھور پاپ کرنے کا سارا بوجھ میرے سینے سے اترتا ہوا محسوس ہوا کیوں کہ میں کسی بھی حالت میں اپنے دوست سنبھو کو مروانا نہیں چاہتا تھا۔ میں پیشاب کرنے کے بہانے بھولو سے تھوڑی دوری بنا کر پولیس کے آنے کی خبر دیتے ہوئے سنبھو کو وہاں سے بھگا دیا اور پولیس کو خبر کر دی کہ سنبھو میرے ساتھ ہے اس نے سفید پینٹ اور ہرے رنگ کی شرٹ پہن رکھی ہے اور پھر یہ سب ہو گیا۔
آج جرح کا دوسرا اور آخری دن ہے۔ صبح صبح کورٹ کے احاطے میں کافی چہل پہل ہے۔ ہوا کے تیز جھونکے درختوں کی ٹہنیوں کو جھنجھوڑ رہے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ سے سوکھے پتے دیواروں سے ٹکرا کر نالے کے پاس کافی مقدار میں جمع ہو گئے ہیں۔ آسمان بالکل صاف ہے سورج کی کرنیں کورٹ کے گنبد پر پڑتی ہوئی چھن چھن کر اندر داخل ہو رہی ہیں جو آج کسی کی آزادی تو کسی کی گرفتاری لکھنے میں جج صاحبان کو اپنے حصے کی روشنی مہیا کریں گی۔ دو پولیس والے مخبر کو ہتھکڑی پہنائے عدالت کی چہار دیواری کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ گاڑی سے اترتے ہی اس نے ہتھکڑی کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا مجھے پیاس لگی ہے۔
کریہ چہرہ لیکن قدرے ہمدرد پولیس والا بولا ابھی تمہیں پانی پلائیں گے اور ساتھ ساتھ چائے بھی۔ جیل سے نکلتے ہوئے کیوں نہیں بتایا؟ ایک پولیس والا غصے میں اسے تیزی سے گھسیٹنے لگا دوسرے نے رسی کی گرفت زرا اور مضبوط کی۔ گیٹ کے پاس دو فقیر قریب بیٹھے بوسیدہ اخبار کے ٹکڑے میں ناشتہ کرتے ہوئے خوش گپیوں میں مشغول ہیں۔ پاس میں ایک کتا نالے میں ایک پیر پتھر پر جمائے سر نیچے کئے ہوئے زبان سے چٹاخ چٹاخ کی صدا کیساتھ پانی پی رہا ہے۔
ناشتہ ختم ہوتے ہی ایک فقیر نے دوسرے فقیر کے کاندھے پر ازراہ محبت ہاتھ مارا۔ اس دل لگی اور تفریح سے دوسرے فقیر کے ہاتھ سے ایک دو ریزگاری نالے میں گر گئی وہ نالے میں جھانکنے لگا۔ نالا کافی گہرا تھا پہلے فقیر نے دوسرے سے احتجاجاً کہا چھوڑ دے نہیں ملے گاکافی اندر چلا گیا ہوگا اور مانگ لیں گے۔ اس قناعت پسندی اور دریا دلی پر اسے ہنسی آ گئی۔ وہ سوچنے لگا کاش میں ایک فقیر ہوتا جسے نہ تو کسی پولیس کا خوف ہے نہ ہی کل کی فکر ہے؟ زندگی کو اور کیا چاہیے دو چار عدد کپڑے دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کے لیے ایک چھت جو ہر کس و ناکس کو کیسے بھی میسر ہو ہی جاتی ہے۔ کاش میں آزاد ہوتا؟ کاش میں نے جرم نہ کیا ہوتا؟
پولیس والے گیٹ کے باہر کورٹ کے نکڑ پر چائے پینے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے رکے ہیں۔ ایک پولیس والے نے چائے والے کو آواز لگائی تین کپ چائے اور پہلے ایک گلاس پانی لانا۔ پانی پی کر چائے کی چسکی لیتے ہوئے مخبر کی نگاہ اب بھورے رنگ کے اس کتے پر مرکوز ہو گئی ہے جو کافی دیر تک نالے سے پانی پی رہا ہے شاید کئی دنوں سے پیاسا رہا ہوگا۔ اس نے سوچا کاش میں مجرم کی بجائے ایک کتا ہی ہوتا جو گندے نالے میں اپنی مرضی سے منھ ڈال کر پانی پی لیتا۔ کاش میرے ہاتھوں میں یہ ہتھکڑی نہ ہوتی؟ آنسو کے چند قطرے اسکے رخسار کو بھگوتے ہوئے اسکی آہنی زنجیر پر گر گئے، چائے اب ختم ہو چکی تھی اور آزادی سے جینے کی ساری امیدیں بھی شاید موہوم ہو چکی تھیں۔

ختم شد