افسانہ – چمچے اسٹیل کے
پاگل ہے دنیا۔دنیانہیں، تومیں۔میں نہیں، تووہ؛یعنی کہ میری بیوی ،رجنی۔ہم تینوں میں،ہے ضرورکوئی پاگل۔تینوں بھی ہوسکتے ہیں۔یہ توفلاسفرز کا کہنا ہے، اور ڈاکٹرز کابھی:’’دنیا کاہرشخص پاگل ہے۔کوئی کم،توکوئی زیادہ۔‘‘
میں نے جب اپنے الیکشن کی کنویسنگ میں ڈائس پرکہا:’’امریکا وغیرہ تو چاند پر پہنچے ،ہماری سرکاربنی ،تو سورج پرجائیں گے، ہم۔ وہاںبھی جیون ہے۔‘‘اتنا کہنا تھاکہ ٹماٹروں کی بارش ہونے لگی اور مجھ کودُم دبا کربھاگناپڑا،ڈائس سے۔
بس اُسی دِن سے سمجھ گیا کہ دنیا پاگل ہے ،اورجاہل بھی۔اِس کو اتنا تک نہیں پتا کہ سورج پربھی پرجیون ہے ۔ اگرہم سمندرمیں نہ اُترے ہوتے، تو کیا تصور کر سکتے تھے ، کہ پانی کے اندربھی جیون ہو سکتاہے اوراگرپانی کے اندرجیون ہوسکتا ہے، ہوا میںجیون ہوسکتا ہے،مٹّی کے اندرجیون ہوسکتا ہے، تو آگ میں کیوں نہیں۔؟ یعنی کہ سورج میں ۔اور پھر لغت تو چیخ چیخ کرکہتاہے، کہ آتش پرستوں کے آتش کدوں میں چوہوں جیسی شکل کے کیڑے پائے جاتے ہیں،جِن کو سمندرکہتے ہیں، جو صرف آگ کھاتے ہیںاورآگ سے باہرنکلنے پر مرجاتے ہیں۔اِس کے متعلق حالیؔ نے بھی کہاہے :
آگ سے جب ہواسمندر دور
اُس کے جینے کا پھر نہیں مقدور
جب اُن چھوٹے چھوٹے آتش کدوں میں سمندرہیں، توسورج میں توکروڑوں برسوںسے آگ دہک رہی ہے،وہاں نہ جانے کتنے طرح کے جیودھاری ہوںگے اور آکسیجن توہے ہی وہاں۔کیوں کہ آکسیجن کے بِناآگ ہوناممکن نہیں: آکسیجن ہے جہاں، جیون ہے وہاں۔بس اُسی روز سے لوگ پاگل کہنے لگے مجھ کواورمیری بیوی نے لاکھوں ووٹوں سے مجھ کوہراکرالیکشن نکال لیا۔حالاں کہ پاگل تووہ تھی، پوری طرح۔اَب سے نہیں، بچپن سے۔
جب مجھے زیادہ ترلوگ پاگل کہنے لگے،تومجھے خودپرشک ہوا اور میں فوراً پی۔جی۔آئی ۔جاپہنچا۔پہلے تو نیروسرجن اورمریضوں کے درمیان کی گفتگو سنتا رہا۔ جب میرانمبرآیا، تومیں نے نیرو سرجن سے فلاسفرزاورڈاکٹرز والی بات دُہرادی ۔
’’توکیا، میں بھی پاگل ہوں۔؟‘‘نیروسرجن سنجیدہ ہوگیا۔
’’جی ہاں۔۔۔۔ !‘‘میں نے وثوق سے جواب دیا۔
’’وہ کیسے۔۔۔۔ ؟‘‘اُس کے تیور چڑھ گئے۔
’’میں دیکھ رہاہوں،آپ مریضوںسے ،مریضوںکے اِستر کی بات نہ کرکے؛ اپنے استرکی بات کررہے ہیں:جب کہ ڈاکٹرز کولازم ہے ،کہ وہ مریض اورمرض کو ملحوظ رکھتے ہوئے مریضوں کے استرکی بات کرے ۔‘‘بات چوں کہ سچ تھی، لہٰذا بناحرکت مجھے گھورنے لگا،وہ۔ جیسے: ہارٹ فیل ہوگیاہو،اُس کا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو،ہرشخص تھوڑابہت پاگل ضرورہوتاہے ،میں بھی ہوں۔‘‘اُس نے کمپیوٹرپرکچھ فیڈکرتے ہوئے کہا۔میں نے سوچا:’’میں پاگل توہوں، لیکن نہیں کے برابر؛یعنی کہ دنیااوررجنی کی بہ نسبت، بہت کم۔‘‘اب رجنی اورساری دنیا کاعلاج کروانا تو میرے بس کا تھانہیں۔ہاں، میں ضرورتھوڑے بہت علاج کا مستحق تھا۔ لہٰذا خودکوتھوڑابہت پاگل سمجھ کرپی۔جی۔آئی۔ سے اپنے ہی شہرکے نیروسرجن کے پاس آگیا۔
جب میں نے ڈاکٹرکے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے نمستے کیا ۔ پہلے تو اُس نے اپنا چہرہ اُٹھاکر مجھے غورسے دیکھا،پھرکھڑے ہوکر نمستے کاجواب دیتے ہوئے ہاتھ جوڑکر،میرے آنے کاسبب دریافت کیا،مجھ سے۔
’’ڈاکٹرکے پاس مریض ہی آتاہے ۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
پہلے تواُس نے میری بات ہنسی میں اُڑادی ،پھرمیری تواضع کے واسطے اپنے ملازم کوآوازدی، کیوںکہ میں معمولی انسان توتھانہیں، بل کہ ایک پرائم منسٹر کاشوہر تھا۔ بہ ہرحال میری ضدپر ڈاکٹر صاحب نے دوچارسوالات کرنے کے بعدمجھ کومیرے بالکل ٹھیک ہونے کا یقین دِلا دیا،پھرمیراذہن رجنی کی جانب لپکا،لیکن بے سود۔کیوں کہ اُس کے الیکشن جیتتے ہی میں نے اُسے پاگل ڈکلیئرکرکے مقدمہ کردیاتھا،کیوں کہ ہم دونوں ساتھ ساتھ کھیلے اورپڑھے بھی تھے۔میں نے ایم ۔ایس۔سی ۔کرلیاتھااوروہ آٹھویں کلاس میں فیل ہوگئی تھی۔
وہ اکثرپاگل پن کی حرکتیں کرتی تھی،مثلاًایک بارہم دونوں کے بچپن میں یوں ہواکہ جب اُس نے کنویں میں جھانکتے ہوئے کہا: ’’ارے۔۔۔۔! کنویں میں ہاتھی۔۔۔۔!‘‘ اس کے کہنے پر جیسے ہی میں نے کنویں میں جھانکا،اُس نے دھکّادے دیااوراُچھل اُچھل کر تالیاں بجاتی ہوئی بھاگ لی ۔یہ کہوکہ پانی کم تھا،ورنہ اُسی روزمیراکام تمام ہوجاتا۔
ایک بارہم دونوں نے کھیل کھیل میںگھروندے بنائے۔جب اُس کے گھروندے سے میراگھروندابہتربنا؛تووہ میرا گھروندابگاڑکر بھاگ لی۔
ایک باراُس کی ماں نے میرے لیے کھیربھیجی،جیسے ہی میں نے پہلاچمچہ، مُنہ میں رکھا؛تونمک ہی نمک،وہ بڑے اہتمام سے ڈھانپ کرلائی تھی۔اِس طرح کبھی برتنوں میںاینٹ پتھرنکلتے ،توکبھی اُچھلتے ہوئے مینڈک۔ایسی حرکتوں پر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتی وہ، اور میں ہکّابکّا رہ کراُس کو تاکتا رہ جاتا۔
وہ کبھی کسی کی ہانڈی میں نمک جھونک آتی، توکبھی مرچ۔موقع دیکھ کرعورتوں کے مجمع میں گھُس جاتی۔کبھی کسی کے نیچے پانی سے بھیگا کپڑا رکھ دیتی ،توکبھی دوعورتوں کی چوٹیاں باندھ دیتی؛کبھی کسی کے بیٹھنے کے مقام پرچُپکے سے پان کی پیک اُگل دیتی۔اِن سب حرکتوں کے بعدخوب اُچھل اُچھل کرتالیاںبجاتی،اورہنستی ہنساتی نکل جاتی ۔
محلّے کے شاطرسے شاطرکُتّے، اُس کودیکھتے ہی دُم دباکربھاگ لیتے۔اگرکبھی کسی سوتے ہوئے کُتّے پراُس کی نظر پڑجاتی،توفوراًاُس کی پچھلی ٹانگیں پکڑتی،گھماتی اورپھینک دیتی۔ پھرتودوردورتک قیوں قیوں کی آوازیں ہی سنائی پڑتیں۔
چڑیاں ،اُس کودیکھتے ہی اُڑ جاتیں، کبھی کوئی چڑیا، اُس کودیکھنے میں چوک جاتی ، تب تواُس کانشانہ نہ چوکتا؛ غلیل میں غُلّہ لگایااورچڑیا نیچے۔
کبھی کوئی بکری یابکرانظرآیا،کان پکڑااوراوراُس کی پیٹھ پر۔ جہاں کسی دھوبی نے اپنا گدھاباندھنے کی چوک کی؛اُس نے فورااُس کی دُم میں ٹوٹاپیپاباندھ دیا۔
لڑکوں کی گلّی ڈنڈے میں، وہ شامل۔کبڈّی میں،اُس کودخل۔ کرکٹ میں، چوکے چھکے ۔تیراکی، میں وہ ماہر۔پتنگ بازی میں تو لڑکوں کواُس کاہُچکاہی تھامتے بنتا؛ورنہ ڈور توڑی، اورپتنگ چھوڑدی۔
پان ،ہروقت چبائے رہتی وہ۔لڑکوں کانئے کپڑے پہن کرنکلنا محال تھا۔ جہاں کوئی چوکا، پیک کپڑوں پر۔
ماسٹر صاحب ،اُس کواسکول کے دروازے پردیکھتے ہی، ڈنڈا سنبھال لیتے، ورنہ اسکول کے بچّوں کی کتابوں پر چیل کوّے بنا ڈالتی۔
رکشے والوں نے محلّے میں آنابند کردیاتھا۔کبھی کوئی آنکلا،تواُس کے رکشے کے پہیّے کی تیلیوںمیں ڈنڈا ۔سائکل والے تودورسے ہی دیکھ کراُترلیتے۔
راستہ چلتے کسی کو مُنہ چڑایا،کسی کے لتّی ماری اورکسی کو دھکا دے دیا۔لوگوں نے اُس کی گلی سے نکلنا بندکردیا تھا۔ وہ اکثردیوارپرلٹکی رہتی۔کوئی بھولے سے اُدھرآگیا فوراً ٹوپی اُتار کرزنّاٹے دارٹیپ جانے دی۔
خوانچے والا ،جیسے ہی گلی سے گزرا،مال غائب۔پھرتوخوب اُچھل اُچھل کر سارا مال بچّوں کوبانٹ بانٹ کرکھاتی کھلاتی۔
شیرخواراکثراُس کی گودمیں کھیلتے کھیلتے اُس کے چٹکی لینے سے چیخ پڑتے ؛ سمجھ دار بچّے تواُس کودیکھتے ہی اپنی مائوں کوبلبلاکرچمٹ جاتے ۔جس گلی میں نکل جاتی کہرام مچ جاتا۔ بچّے ،اپنے گھروںمیں سہم جاتے۔لوگوں کے گھروں کے پیڑپودے نوچ ڈالتی؛ بھگائی جاتی۔
پڑوسن تھی وہ میری؛اورکچھ کچھ دورکی رشتے داری کے ساتھ ٹھیکرے کی منگیتربھی۔حالاں کہ میں اُس کے ساتھ شادی کرنے سے انکارکرتارہا،لیکن ماں کے آگے ایک نہ چلی اورمیری ماں، اُس اکلوتی کودولت کی رانی کے ناتے بیاہ لائیں۔دولت کا انبار تو میرے یہاں بھی تھا؛لیکن وہ ہرمعاملے میں مجھ سے سِواتھی۔پہلی ہی رات میں اُس نے مجھ کوناکوں چنے چبوادِیے۔اُس نے کہا:’’آدمی اور عورت برابرکادرجہ رکھتے ہیں، میاں۔ تم بھی میرے جیسے کپڑے اور زیورات پہن کرسنگارکرو۔!‘‘ میں نے انکارکیاتووہ چیخنے لگی۔ مجھے اپنی عزت بچانی تھی؛لہٰذااُس نے جوکہا:مجھے سب کرناپڑا۔حالاں کہ صبح ہوتے ہی میں نے اپنی ماںسے احتجاج کیا،کہ میں اُس سے نباہ نہ کرسکوں گا،لیکن اُن کی
گھڑکی نے میری زبان میں تالا ڈال دیا، آخر کارماں کو ایک دن کہناپڑا:’’تھی توپاگل، لیکن میں سمجھتی تھی کہ شادی کے بعد ٹھیک ہوجائے گی،اب ٹھیک نہ ہوئی ؛توتیری قسمت۔ چراغ جلانے اورخاندان چلانے کو دو بیٹے توہوگئے۔گھرمیں کام کاج کے لیے ہیں توچارچار نوکرانیاں؛ سمجھ لے ایک پاگل پڑی ہے، گھر میں۔ خدا نے دُکان اِسی لیے تودِیے ہیں؛ایک سے سُن اوردوسرے سے نکال۔اِسی میں عافیت ہے ، تیری۔اُس کے والدخود نہ لڑکر اب کے تجھ کواُتاریں گے ،الیکشن میں۔‘‘
جب الیکشن آیاتوآزاداُمیدوارکی حیثیت سے تال ٹھوک کر میرے مقابل اُترآئی، وہ۔میرے خاندان کے علاوہ اُس کے والدین نے بھی بہت سمجھایا،لیکن رہی کتے کی دم، آدم کی پسلی؛یعنی کہ ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی۔یہ میںخوب جانتاتھا کہ جیتوں گامیں ہی الیکشن،کیوں کہ اُس کے والد میرے ہی سپورٹرتھے ۔میں یہ بھی سمجھتاتھا کہ اُس کے جیتنے سے میری عزت سرِعام نیلام ہوجائے گی،کیوں کہ میری بیوی پاگل ہے ۔ حالاں کہ جب سے بیاہ کر گھرلایا، کوئی کسرنہ چھوڑی اُس کے علاج میں، لیکن اُس کاپاگل پن ،دِن دُونا، رات چوگنابڑھتا گیا؛بھرشٹاچار کی طرح۔ آتنک وادکی مانند۔
آخرکاراُس نے اپنی گاڑی سنبھالی اور کنویسنگ کونکل پڑی۔ میرے پاس پانچ کی پانچ ہی رہیں، گاڑیاں۔اُس کی مدد کوتیس چالیس گاڑیاں اورہولیں۔
میںالیکشن کی تقریرمیں،سورج پرجیون ہونے کی بات کرتا،توٹماٹربرستے۔وہ کچھ بھی کہتی، تولاددی جاتی پھولوںسے، تالیوں کے ساتھ۔کہنے کواُس نے چھوڑاہی کیا تھا،وہ وہ باتیں کہیں، کہ جِن کے سرنہ پیر،مگرتالیوں کی گونج نے دوسری پارٹیوں کے دِل دہلادِیے۔ اُس نے کہا :’’ زمین کوآسمان پرلے جائوں گی۔‘‘تب تالیاں،’’عورتوں کو مردوں کااورمردوں کوعورتوں کالباس پہنوائوں گی۔‘‘تب تالیاں:’’کسی عورت کو بچّے پیداکرنے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے گی۔بچّے،ٹیسٹ ٹیوب میں تیارہوں گے یاپھرامپورٹ کیے جائیں گے۔اوراُن کی پرورش مردکریں گے۔‘‘تب تالیاں:’’جھاڑو برتن سے لے کر کھانابنانے تک کے گھرکے سارے کام ،مردوں کو کرناپڑیں گے۔‘‘تب تالیاں: ’’مچھلیوں کوپیڑوں پراور پرندوں کو پانی میں رہنا پڑے گا۔‘‘تب تالیاں:’’ہرشخص دن کی گرمی میں نہیںبل کہ رات کے ٹھنڈے موسم میں کام کرے گا۔‘‘تب تالیاں:’’سڑکوں اور ٹرین کی پٹریوں میں اربوں کاخرچ آتاہے،اُن کی جگہ نہریں کھدوائی جائیں گی، جن میں کشتیاں چلیں گی۔‘‘تب تالیاں:’’اَب کوئی دُلھن بیاہ کردُولھے کے یہاں نہیں جائے گی،بل کہ دُولھے کودُلھن کے یہاں آناپڑے گا۔‘‘تب تالیاں:’’ہرشخص کواُڑنے والی مشین دی جائے گی۔‘‘تب تالیاں:’’اب جانوروں کے بیاہ بھی کیے جائیں گے ،کیوں کہ بچّوںکی پیدایش کے بعد،نرآزادگھومتے ہیں۔بچّے، بے چاری مادائوں کوہی پالنے ہوتے ہیں۔ اب مادائیں ، صرف دودھ پلائیں گی اوراُن کی خوراک ، نرمہیّاکرائیں گے۔‘‘تب تالیاں:’’ ہرجیودھاری کو جینے کا حق ہے یعنی کہ مچھراورمکھّی کواَب مارانہیں جائے گا۔‘‘تب تالیاں:’’اب تعلیم کی ضرورت نہیں،صرف انگوٹھالگاکرپرکھوں کی تہذیب کوبرقرار رکھاجائے گا۔‘‘تب تالیاں۔ تالیاں بجانے کااندازبھی نرالاتھا،اُس کا۔بات کہی اورخودتالیاں بجاتے ہوئے لوگوں سے کہا:’’بجائو تالیاں۔۔۔۔۔!‘‘پھرتوایسی بجیںتالیاں کہ پرندے ترس گئے پیڑوں پر بیٹھنے کے لیے۔
اُ س کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کہا :’’ اگر میںالیکشن جیت گیاتو زمین کے نارتھ پول کے نگیٹواور سائوتھ پول کے پازِیٹوکرنٹ کو فریکوانسی میںتبدیل کرا کر بناتاروں کی الیکٹرک عوام کو فری فراہم کرائوں گا۔ میرے خیال سے جب خلاء میں نمی کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور زمین کے دونوں پولوںکے نگیٹو، پازیٹوکرنٹ،اُس نمی میں فلو ہو کرآپس میں ٹکراتے ہیں: تب تیز چمک کے ساتھ دھماکہ ہوتا ہے، جس کو سائنس داں بادلوں کی رگڑ سے پیدا ہو نے والی بجلی کہتے ہیں۔ ‘‘ میری اِس دلیل کو سراہنے کے بجاے انڈوں اور ٹماٹروں کی بارش کی گئی، مجھ پر۔اِس سے بڑھ کر یہ کہ جب میں نے اپنی ذہانت کا لوہامنوانے کے لیے آسمانی اِندر دھنک کو زمین پرسیکڑوں گانو والوں کے درمیان دھوپ میں نمی پیداکرکے دکھا یا، تب بھی ٹماٹروں اورانڈوں کی بارش کے ساتھ جادوگر کے خطاب سے نوازا گیا،میں۔
حالات یہاں تک پہنچ گئے،کہ میرے زیادہ تردوست مجھ سے ٹوٹ کراُس سے جاملے اورآگے بات یہاں تک پہنچ گئی کہ میرے بولنے کی جگہ میرے پہنچنے سے پہلے ہی وہاں انڈوں،ڈنڈوںاور ٹماٹروں کا انتظام ہوجاتا،پھرمجھ میں کہاںہمّت کہ وہاں پہنچ پاتا۔ جب کہ اُس کے ابّونے اُس کو پاگل ڈکلیئر کر دیاتھا،جس کانتیجہ یہ ہوا کہ مجھ کوسات سو دس ووٹ ملے اوراُس کوپانچ لاکھ ،تریپن ہزار، چار سو، انتیس ۔میرے ساتھ ساتھ سبھی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔سونے پرسُہاگا یہ کہ ایک پارٹی نے اپنے میں شامل کر کے پرائم منسٹربنادیا،اُس کو۔جس کانتیجہ یہ ہوا کہ میںاُس پر کیا گیامقدمہ بھی ہار گیا۔اَب تو میں شرمندگی کے باعث مکان کے اندراوروہ بڑے بڑے نیتائوں کے درمیان ؛مکان کے باہر۔پھرجیسے کہ جنتاسے اُس نے وعدے کیے تھے:ایوان کی توثیق حاصل کرکے یکے بعددیگرے اُن کانفاذبھی شروع کردیا۔پانی ،سرسے اُوپرہوتا دیکھ کرمیں بھڑک گیا۔ انجام یہ ہواکہ مجھے پاگل قراردے کرایک چھوٹے سے کمرے میں ٹھونس دیا،اس نے ۔ حویلی کے باہرہنگامے ہوتے رہے اورمیں قیدخانے میں اپنی قسمت کو روتارہا۔ کھانا پانی مل جاتا،وہ بھی وقت بے وقت۔باہرکیاہورہاہے اُس سے پوری طرح بے خبررہتا ۔ہاں، کبھی کبھارکوئی ملازم رحم کھاکراخبارڈال جاتا۔اخبارمیںاُس کے احمقانہ رویّے پڑھ کر من ہی من کڑھتا ،میں۔ لیکن پبلک، اُس کوبڑی گرم جوشی سے سراہتی،تالیاں بجاتی۔
میری ماں، جب کبھی میرے قید خانے کی جانب آجاتی ،میںاُس کے کیے کا رونا روتا۔کسی طرح اِس کااُس کوعلم ہوا،تومیری ماں کوبھی مجھ سے الگ ایک کمرے میں
ٹھونس دیا،اُس نے۔اُس کے والد نے احتجاج کیا تواُن کابھی میرے جیسا حشرہوا۔ایک روز،جینزشرٹ پہنے ،ایک ملازمہ مجھ کوشلوار جھمپر تھما گئی، جومجھ کوپہنناپڑا۔تھوڑی دیر بعد ساڑی بلائوزپہنے ایک فوٹو گرافر میرا فوٹو لے گیا۔ دوسرے روز اخبارمیںاپنی ماں کونیکرشرٹ اورخسر کو اِسکرٹ ٹاپ میں دیکھ کرہنسی آئی، اور رونابھی۔ساڑی بلائوز، شلوار کرتے، اسکرٹ ٹاپ میں بڑے بڑے حاکموں کے درمیان اُس کوجینزشرٹ میں دیکھ کربچپن سے اَب تک کے اُس کے پاگل پن کے سارے کارنامے یادآگئے اورمیں خون کے آنسوروتا رہا۔
دن گزرتے گئے اوراُس کے پاگل پن کی حرکتیں بڑھتی گئیں؛ جن کودنیا والے گرم جوشی سے سراہتے رہے۔
ایک روزاچانک خبرملی کہ اُس کا پلین کریش ہوا،اوراُس کی موت ہوگئی۔ دوسرے دِن اخبار میں تھاکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق :وہ پوری طرح پاگل تھی ۔ میںیہ فیصلہ کرنے سے آج بھی قاصرہوںکہ آخرپاگل تھاکون۔۔۔؟:میں۔۔۔۔؟وہ۔۔ ۔؟یاکہ چمچے؛ اسٹیل کے۔۔۔۔؟