یہ’’عید میلادالنبیؐ‘‘ سبب وجودِ کْل کائنات ہے

حسین قریشی

ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے آخرالزماں نبی ہے ۔ جن کا تذکرہ سب سے پہلے ہوا۔ جن کے نور کو خالقِ کائنات اللہ ربّ العالمین نے کائنات سے پہلے بنایا۔ آپ کی تشریف آوری کے لئے کْل کائنات کی تخلیق ہوئی۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ اللہ عزوجل نے درجہ بدرجہ روحِ زمیں پر توریت ، انجیل اور زبور کے ساتھ ساتھ تمام صحیفوں میں کیا۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ نبوت، عظمت ، معجزات اور برتری کو بتایا۔
تاکہ دنیا سببِ وجودِ کائنات کی شان و شوکت ،عظمت اور بلند مرتبے کو جان سکے اسے پہچان سکے ۔ یہ سچائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت و جہنم، انساں وجن، فلک ملک، زمیں زماں، شجر حجر، شمس و قمر، مکیں مکاں اور حور وملک سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے پیدا کیا ہے ۔ مشہور و معروف نعت خواں محترم نظمی صاحب نے اس بات کو بیان کرتے ہوئے کہا۔ کہ
شمس و قمر، شجر حجر، حور و ملک ز میں فلک
انسان و جن سبھی میں ہے انوارِ مصطفیٰ فقط
رسولِ کریم پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ایک ادا کو اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں جگہ جگہ بیان کیا ہے ۔ اللہ ربّ العالمین خود پیارے آقا رحمت اللعالمین پر درود وسلام پڑھتا ہے ۔ اس بات سے سرورِکونین کی عظمت و مرتبے کو سمجھاجا سکتا ہے ۔ سرکارصلی اللہ علیہ وسلم کی محبت صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دلوں میں ذہنوں میں پیوست تھی۔ جس کی بناء پر ان کے اعمال میں جان تھی۔ ان کا ایمان کامل و مضبوط تھا۔ اس کا اندازہ ہمیں مختلف واقعات سے ہوتا ہے ۔ ہمیں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی پکی محبت رکھنی چاہیے ۔ جس کی اصل دلیل اللہ عزوجل اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ ایسی محبت ، عظمت اور عقیدت جس کے قول و فعل میں تضاد ہو یعنی صرف زبانی دعویٰ کرنے سے اصل محبت و عقیدت کی برکات کا حصول نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ ہمیں قرآن و حدیث پر مکمل طور پرنہایت ہی احترام و خلوص کے ساتھ، نبی کی محبت میں ڈوب کر عمل کرنا چاہیے ۔ یہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہے ۔ جو ہمیں دونوں جہانوں میں کامیابیاں و خوشیاں عطا کریںگی۔ اللہ ربّ العزت نے جگہ جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و شوکت کو بیان کیا ہے ۔ جب کبھی کسی صحابی یا منافق یا کافر کے عمل سے رسولِ اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستخانہ عمل ، فعل یا قول نکلا۔ تب اللہ عزوجل نے قرآنی آیات نازل فرمائی۔ اور اپنے محبوب کی عظمت و مرتبے کو بیان کرتے ہوئے اس قول و فعل سے باز رہنے کی تلقین کی۔ چنانچہ ایک آیات کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب نبیَ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو واضح و نصیحت کرتے تو صحابہ اکرام میں سے کوئی دوبارہ کہنے کی درخواست کرنے کے لئے کہتے ’راعنا یا رسول اللہ۔‘تب نبی اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ آرشاد فرماتے ۔ ’راعنا‘ کے عربی زبان میں ایک اور معنی ’چرواہا‘کے بھی ہوتے ہے ۔ چنانچہ یہودی منافق لوگوں کو جب اس بات کا علم ہوا کہ مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو راعنا کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ اس بات سے وہ لوگ خوش ہوئے اور وہ آپس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں خوستاخی کرنے لگے ۔ یہ بات اللہ عزوجل کو پسند نہ آئی اس لیے اللہ تعالٰی نے فوراً ایک آیت نازل فرمائی۔ جس کا مفہوم ہے کو ” اے مسلمانوں تم راعنا نہ کہا کرو۔ تم کہو اَنظْرؔنا اور کیا ہی اچھا ہوتا تم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بغور سماعت کرتے ۔ اس طرح کئی آیات سے اللہ ربّ العزت نے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ومرتبہ، شان و شوکت ، ادب و احترام اور اعلیٰ مقام کی نصیحت فرمائی ہے۔ جو ایمان کا اہم جزو ہے ۔