وہم
کہا جاتا ہے کہ وہم کی دوا حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھی۔یہ لا علاج بیماری ہمارے غریب داس کے حصے میں بھی آگئی۔شاید ہی کوئی گھڑی ایسی ہو جس میں غریب داس وہم میں مبتلا نہ ہوتے ہوں۔وہم میں مبتلا ہوتے ہی گھر والے کیا تمام عزیز و احباب کو فون کر کے زحمت میں ڈالنا غریب داس کا محبوب مشغلہ بن چکا تھا۔ایک مرتبہ رات کے تین بجے فون کیا کہ جلدی سے گاڑی لیکر آ جاؤاور مجھے کسی اسپتال میں پہنچا دو۔میں نے پوچھا ہوا کیا ہے؟ کہنے لگے یہ تو مجھے بھی پتہ نہیں مگر میرا بچنا، اب مشکل ہے جلدی سے آجاؤ۔یا اللہ رات کے دس بجے تو مجھ سے مل کر اچھے خاصے رخصت ہوئے تھے اب کیا ہو گیا؟چارو ناچار کپڑے تبدیل کرکے گاڑی لے کر غریب داس کے یہاں پہنچا تو دنگ رہ گیا اچھا خاصہ مجمع لگا ہواتھا۔کافی فاصلے پر غریب داس کے بھائی رہتے تھے وہ بھی بیوی بچوں کے ساتھ موجود تھے۔ابھی میں کسی سے کچھ معلوم کرتا کہ غریب داس اوران کے بھائی اور دوخاتون گاڑی میں بیٹھ چکی تھیں۔میں نے کہا کون سے ہاسپیٹل میں لے جانا ہے۔بڑے بھائی نے بتایا کہ جو بھائی پرانی دہلی میں رہتے ہیں،وہ راستے میں ہیں،وہ بتائیں گے۔خیر میں نے انکا نمبر لے کرفون ملایاانہوں نے فوراًپوچھا کہ کیسی حالت ہے؟ اور کیا ہوا ہے حالت تو ٹھیک لگ رہی ہے ارے یہ تو خود غریب داس کو بھی نہیں پتا کہ ہوا کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس روز روز کے جھگڑے کو ختم کر دیتے ہیںMax میں لے آؤمیں وہیں پہنچ رہا ہوں ۔گاڑی میں نے میکس ہاسپیٹل کے لئے موڑدی راستے میں،میں نے پھر غریب داس سے معلوم کرنا چاہا ارے بھائی ہو ا کیا ہے۔غریب داس تھوڑا تلخ لہجے میں بولے ارے تم گاڑی چلاؤ میں کوئی ڈاکٹر ہوں جو بتا دوں کہ ہوا کیا ہے، خیر ہاسپیٹل پہنچ گئے۔
غریب داس کے بھائی ہم سے پہلے پہنچ گئے تھے فوراً ایمرجنسی میں داخل ہوئے اور پھر ڈاکٹروں نے بے شمار سوالات کرنے شروع کردیے ۔غریب داس کے پاس ایک ہی جواب تھا کہ یہ تو پتا نہیں کہ ہوا کیا ہے مگر اب میں بچنے والا نہیں ہوں۔ ڈاکٹر نے فوراًآج تک جتنے بھی ٹیسٹ ایجاد ہو چکے ہیں لکھ دیے اور پھر غریب داس کو کبھی اس مشین اور کبھی اس مشین کا سامنا کرنا پڑا۔ایک خاتون گاڑی میں بیٹھتے وقت سے ہی توبہ استغفار پڑھ پڑھ کر رو رہی تھی ۔اندازہ لگانا مشکل تھا کہ کون ہیں کیونکہ عمر کے لحاظ سے جوان معلوم ہو رہی تھیں اس لئے ماں تو نہیں ہو سکتی تھیں۔ اتنی محبت بیوی کو اس زمانے میں ناممکن سی چیز تھی کیوں کہ اتنی محبت تو کہانی قصوں میں پڑھی یا سنی تھی۔دیکھنے کا اتفاق تو کبھی ہوانہیں تجسس نے مجبور کیا کہ غریب داس کے بھائی سے معلوم کروں کہ کون ہیں؟معلوم ہوا کہ سگی بہن ہیں ۔اب دل کو قرار میسّر ہو ا ورنہ ہم اپنی بیوی کو بلا وجہ ہی۔۔۔۔۔۔!
مسلسل دو دن تک غریب داس کے ٹیسٹ چلتے رہے اور ترتیب وار رپورٹ آتی رہی اللہ کا شکر کہ کسی میں کچھ نہیں تھا ۔سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا ۔غریب داس کے رشتے دار و احباب نے چین کی سانس لی ۔گھر واپسی پر غریب داس کے بڑے بھائی نے کہا کہ رکو چائے پی کر گھر جانا۔ میں کافی تھکا ہوا تھا مگرمجبوراً رکنا پڑ گیا۔تھوڑی دیر میں غریب داس کی بیوی چائے بنا کر لے آئی بڑے بھائی نے غریب داس کی بیوی سے معلوم کیا ارے تمہیں تو کچھ پتا ہوگا پرسوں رات کو ہوا کیا تھا۔ کہنے لگی بھائی کچھ بھی نہیں ۔ماں چونکہ عدت میں ہیں سفید چادر اوڑھ رکھی ہے رات کو اٹھی تھیں ان کی نظر پڑ گئی تبھی سے چلانے لگے کہ اب میرا آخری وقت ہے فرشتے مجھے لینے آ گئے ہیں ۔بڑے بھائی نے میری طرف دیکھا اور بڑی حسرت سے آہ بھری، بولے بتاؤ اس نے سب کو پریشا ن کرنے کے ساتھ ساتھ میرے ساڑھے تین لاکھ روپیہ بھی ٹھکانے لگوا دیئے