بچے کی پیدائش کے چند ماہ بعد آٹھ ہزار میٹر کی چوٹی سر کرنے والی خاتون

محمد زبیر خان

آٹھ ہزار میٹر کی بلندی، منفی 15 ڈگری کی ٹھنڈ اور ہوا کا دباؤ اتنا تیز کے ساتھ اُڑا کر لے جائے۔
مگر ان مشکلات کے باوجود گاشر برم ٹو کی چوٹی پر پہلی بار ایک پاکستانی خاتون پہنچی۔ 8035 میٹر کی بلندی پر جانے سے چند ماہ قبل ہی انھوں نے اپنے دوسرے بچے کو جنم بھی دیا تھا۔’میں باکسر اور فائٹر ہوں۔‘ یہ الفاظ نائلہ کیانی کے ہیں۔ ’مجھے پتا تھا میرے اندر اتنا حوصلہ موجود ہے کہ اپنی پہلی ہی مہم جوئی میں آٹھ ہزار میٹر کی چوٹی سر کرسکتی ہوں۔‘نائلہ سے قبل اب تک کسی پاکستانی خاتون نے ملک میں موجود آٹھ ہزار میٹر کی پانچ چوٹیوں میں سے کوئی سر نہیں کی ہے۔الپائن کلب آف پاکستان کے سیکریٹری کرار حیدری کے مطابق نائلہ اور ان کی ٹیم نے کوہ پیمائی کی دنیا میں تاریخ رقم کردی ہے۔’وہ نہ صرف گاشر برم ٹو کو فتح کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں بلکہ وہ ایسی کوہ پیما بھی ہیں جنھوں نے اپنی پہلی مہم میں ہی آٹھ ہزار میٹر کی چوٹی فتح کی ہے۔‘پاکستانی کوہ پیماؤں کی اس ٹیم میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں تھا، اس لیے بھی اس ٹیم کی برادری کو سراہا جا رہا ہے۔کرار حیدری کے مطابق الپائن کلب آف پاکستان نے نائلہ کیانی، پاکستانی کوہ پیماؤں سرباز سد پارہ، علی رضا سد پارہ، سہیل سخی اور ان کے ساتھیوں کو اعزازت دینے کے لیے حکومتِ پاکستان سے سفارش کی ہے۔
نائلہ کیانی کا تعلق صوبہ پنجاب میں راولپنڈی شہر کے علاقے گجر خان کے ایک قدامت پسند خاندان سے ہے۔ انھوں نے ایرو سپیس انجینئر نگ کی تعلیم برطانیہ سے حاصل کر کے اپنے اس شعبے میں بھی کام کیا۔
تاہم اب اس وقت وہ خاوند کے ہمراہ دبئی میں مقیم ہیں جہاں اس وقت وہ بیکنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
نائلہ کیانی بتاتی ہیں کہ انھیں بچپن سے مہم جوئی کا شوق تھا۔ ’زمانہ طالب علمی اور اب بھی باکسنگ کرتی ہیں۔ دبئی میں قیام کے دوران راک کلائمبنگ اور آئس سکیٹنگ شروع کی۔
’قدامت پسند ہونے کے باوجود میرے خاندان والے کبھی میرے شوق کی راہ میں حائل نہیں ہوئے۔‘
شادی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ’ہماری پسند کی شادی تھی۔ میرے خاوند خالد راجہ کو میرے سارے شوق پتا تھے۔‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’انھیں یہ بھی پتا تھا میرے شوق اور دلچسپیاں تبدیل ہوتی رہی ہیں۔‘

شادی کی بڑی تقریبات کی مخالف نائلہ نے اپنی شادی کو یادگار بنانے کے لیے کے ٹو بیس کیمپ پر تقریب منعقد کی اور ان کی تصاویر وائرل بھی ہوئی تھیں۔
’ابھی بچے چھوٹے ہیں، یہی موقع تھا‘
اس جوڑے کے فی الحال دو بچے ہیں۔ نائلہ بتاتی ہیں کہ ’میرے ایک بچے کی عمر دو سال سے زیادہ ہے، جبکہ میری بیٹی ساڑھے سات ماہ کی ہے۔ اسے (وہاں) چھوڑے پانچ ہفتے ہونے کو ہیں۔ خالد اور میرے خاندان والوں نے ان کا اچھے سے خیال رکھا۔‘
’بچے کی پیدائش کے چند ماہ بعد آٹھ ہزار میٹر کی چوٹی فتح کرنے کے لیے جانا مشکل ضرور تھا مگر ناممکن نہیں۔‘
ان کے شوہر خالد راجہ کہتے ہیں کہ ’میں نے صرف نائلہ کیانی سے شادی نہیں کی بلکہ میں نے نائلہ کیانی کے خوابوں سے بھی شادی کی ہے۔ انھوں نے بھی صرف مجھ ہی سے شادی نہیں کی بلکہ میرے خوابوں سے بھی شادی کی ہے۔
’ہم دونوں ایک دوسرے کے خواب پورے کرنے میں بھی ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔‘
خالد راجہ کا کہنا تھا کہ نائلہ کیانی مہم جو شخصیت کی مالک ہیں۔

’ہم نے سوچا کہ ابھی ہمارے دو بچے ہیں۔ یہ چھوٹے ہیں تو شاید یہ اچھا موقع ہے کہ نائلہ کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنا خواب پورا کرسکیں۔ کچھ عرصے بعد بچے بڑے ہونے پر ان کی ضرورتیں بڑھ جائیں گی تو شاید ایسا ہونا مشکل ہوجائے گا۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اس لیے بچوں کی ذمہ داری کچھ عرصے کے لیے میں نے اور خاندان والوں نے اٹھائی۔ ان پانچ ہفتوں کے دوران وہ بچوں کی ضرورت کی ہر چیز چھوڑ کر گئی ہیں۔‘

خالد اپنی اہلیہ کی کامیابی پر اس قدر خوش ہیں کہ یہ ’بیان سے باہر ہے۔‘
اپنے اس سفر کو یاد کرتے ہوئے نائلہ کہتی ہیں کہ اس مہم سے پہلے ’میں نے کوہ پیمائی کی کوئی تربیت حاصل نہیں کی تھی۔ آٹھ ہزار میٹر سے قبل کوئی پانچ، چھ ہزار میڑ کی چوٹی بھی سر نہیں کی تھی۔‘

مگر یہ ضرور تھا کہ انھوں نے باضابطہ مہم سے قبل گاشر برم ٹو کے کیمپ تھری پر ایک مشق کی تھی۔ یہ سب کوہ پیماؤں کے لیے باضابطہ مہم شروع کرنے سے قبل معمول کی پریکٹس ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں زیادہ تر کوہ پیماؤں کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ ان کی پیدائش اور بچپن ہی پہاڑوں اور دو، دو ہزار میٹر کی بلندی پر ہوتی ہے۔ وہ اس ماحول کے بھی عادی ہوتے ہیں جبکہ میں میدانی علاقے کی رہنے والی تھی۔ اس لیے میرا آٹھ ہزار میٹر تک پہنچا مشکل سمجھا جارہا تھا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’بچے کی پیدائش کے فوراً بعد جسم کسی بڑی مہم کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مہم کی تیاری کے لیے میں نے جسمانی تربیت سے زیادہ اپنے حوصلہ کو مضبوط کیا اور خود کو ذہنی طور پر تیار کیا کہ میں یہ کرسکتی ہوں۔‘
یہی وجہ ہے کہ مہم کے دوران وہ دو گھنٹے تک سٹریس کا بھی شکار رہیں مگر اس مشکل موقع پر ان کا حوصلہ اور دماغی طور پر مضبوط ہونا کام آیا تھا۔

نائلہ کیانی کہتی ہیں کہ اس مہم کے دوران ’میرے ہمراہ سرباز سدپارہ اور سہیل سخی جیسے کوہ پیما تھے۔۔۔ مرحوم محمد علی سدپارہ جیسے عظیم کوہ پیما کے استاد علی رضا سد پارہ کا ساتھ بھی حاصل تھا۔‘
سرباز سدپارہ، سہیل سخی اور علی رضا سد پارہ رسیاں لگاتے تھے۔ علی رضا سد پارہ قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ چند دن بیس کیمپ پر گزارنے کے علاوہ کیمپ تھری تک آنے جانے سے وہ ماحول کی عادی ہوگئی تھیں۔ انھیں اب اس مہم کی مشکلات کا بھی اندازہ ہوگیا تھا۔ انھوں نے خود کو مشکل وقت کے لیے ذہنی طور پر تیار کر لیا تھا۔
نائلہ کیانی کو مہم کے دوران کئی مشکلات پیش آئیں۔ ’بلندی پر ہونے کی وجہ سے میرے لیے خوراک لینا بھی مشکل ہوجاتا تھا۔ نیند پوری کیا ہوتی مجھے ایسے لگتا جیسے روٹھ ہی گئی ہوں۔ کئی مواقع پر ایک قدم اٹھانا بھی مشکل ہوجاتا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’باضابطہ مہم کے دوران کیمپ تھری سے اوپر جاتے ہوئے پتا نہیں کیا ہوا کہ میں سٹریس کا شکار ہوگئی۔ بظاہر ایسے محسوس ہوتا تھا کہ میرے لیے ایک قدم چلنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔
’میرا جسم میرا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید میرا سفر ادھر ہی ختم ہو جائے۔‘
نائلہ نے سوچا کہ کیا وہ منزل کے اتنا قریب پہنچنے کے باوجود منزل پر پہنچ نہیں پائیں گی۔ ’میں یہ ہونے نہیں دوں گی۔ انتہائی مشکل حالات کے اندر اپنے حوصلے اور ارادوں کو اکھٹا کیا۔ خود کو سمجھایا کہ میں یہ کرسکتی ہوں اور کروں گی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے ساتھیوں نے میرا حوصلہ بڑھایا اور دو گھنٹے تک اس صورتحال سے جنگ کرتی رہی بالآخر میں اس سٹریس کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی اور سفر کو پھر تیزی سے شروع کیا۔‘
’چوٹی پر ایسا لگا جیسے ہوا میں اُڑ رہی ہوں‘
نائلہ کیانی کہتی ہیں کہ کیمپ فور پر پہنچ کر ’میری طبیعت بھی بحال ہوچکی تھی۔ کیمپ فور سے آگے اب رسیاں نہیں خود ہی منزل طے کرنا تھی۔
’ہم چاروں نے اپنی حفاظتی اقدامات کے منصوبے کے تحت خود کو ایک ہی رسی سے باندھ کر چوٹی کی طرف چل پڑے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موسم انتہائی سرد منفی 10 سے 15 ڈگری تک تھا۔
وہ یاد کرتی ہیں کہ ’تیز ہوا چل رہی تھی۔ جیسے ابھی ہمیں یہ ہوا اپنے ساتھ اڑا کر لے جائے گی۔
’ہم لوگ سوچ سمجھ کر قدم پر قدم رکھ رہے تھے۔ سہیل سخی کی بھی آٹھ ہزار میٹر کی پہلی مہم تھی۔ علی رضا سدپارہ اور سرباز سدپارہ ہمارا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔‘
نائلہ کیانی کا کہنا تھا کہ کیمپ فور سے چوٹی تک کوہ پیمائی کے اوزاروں کی مدد سے شاید پندرہ گھنٹے چلے تھے۔ ’جب چوٹی پر پہنچی تو ہوا کا دباؤ مزید بڑھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہاں پر کھڑا ہونا بھی مشکل تھا۔ میں نے پاکستان کا پرچم لہرایا، ویڈیو اور تصاویر بنائی۔
’میرے بچپن کا خواب ہواؤں میں اڑنا، چوٹیوں پر چڑھنا پورا ہوچکا ہے۔ چوٹی پر برف کے ٹکڑے تیز رفتاری سے اُڑ کر ہمارے جسم اور منھ پر لگ رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہاں پر ایک طرف چین تھا، دوسری طرف انڈیا کے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں ہوا میں اُڑ رہی ہوں۔‘
سرباز سدپارہ پاکستان کے مشہور کوہ پیما ہیں جنھیں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کے علاوہ کئی خطرناک چوٹیاں فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ گاشر برم ٹو کی ٹیم کی قیادت کر رہے تھے۔
سرباز سدپارہ کہتے ہیں کہ نائلہ کچھ عرصے سے ان کے ساتھ رابطے میں تھیں۔
وہ چاہتی تھیں کہ ’پہلی ہی مرتبہ آٹھ ہزار میٹر کو فتح کیا جائے۔ ہم انھیں سمجھاتے تھے کہ یہ کوئی اتنا آسان نہیں ہیں۔ ان کو کئی مرتبہ بتایا کہ قراقرم اور ہمالیہ میں واقع پہاڑ کئی لحاظ سے مشکل سمجھے جاتے ہیں۔
’حال ہی میں، میں نے ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا۔ وہاں کے حالات اور یہاں کے حالات مختلف ہیں۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو اب کمرشل بنیادوں پر فتح کیا جاتا ہے۔ وہاں پر رسیاں لگی ہوئی ہیں۔ روٹ بنائے گئے ہیں۔ ماہر ترین نیپالی شرپا مدد کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں سب خود کرنا پڑتا ہے۔‘
سرباز سدپارہ کہتے ہیں کہ نائلہ کے حوصلے کے سامنے ’ہم لوگ بھی شکست کھا گئے تھے۔ دل نے کہا کہ وہ سب کچھ کر سکتی ہیں جس کا وہ فیصلہ کریں۔ تو اس کے بعد ہم لوگوں نے تیاریاں شروع کیں۔‘
جب مقامی ماحول اور صورتحال سے عادی ہونے کے لیے نائلہ کیمپ تھری تک گئیں تو انھیں اسی فیصد یقین ہوگیا کہ وہ کامیاب ہوجائیں گی۔
سرباز سدپارہ کا کہنا تھا کہ ’مہم کی تیاری کے دوران سب کچھ ہمیں خود کرنا پڑا۔ علی رضا سد پارہ نے چھ مرتبہ گاشر برم ٹو کو فتح کیا تھا۔ وہ اس پہاڑ سے اچھے سے واقفیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے روٹ طے کرنے اور بنانے میں مدد کی۔ کیمپ فور تک ہم لوگوں نے رسیاں لگائیں۔‘
’اپنا سامان، کھانا، بیگ تک خود اٹھا کر اوپر گئے۔ عرض یہ مہم ہر طرح سے ماؤنٹ ایورسٹ فتح کرنے سے زیادہ مشکل تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مہم کے دوران نائلہ نے ’جس طرح حوصلے سے کام لیا، جس طرح انھوں نے اپنی کوہ پیمائی کی پہلی مہم ہی میں آٹھ ہزار میٹر کو فتح کیا، اس نے مجھ سمیت تمام بڑے بڑے کوہ پیماؤں کو حیران و پرشان کردیا تھا۔‘
’اس وقت گاشر برم ٹو پر کئی غیر ملکی مہم جو بھی موجود ہیں۔ سب نے بہادر اور حوصلہ مند خاتون کو دل کھول کر داد دی تھی۔‘

(بشکریہ بی بی سی اردو)