الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں!!
سیدہ تبسم منظور ناڈکر۔ ممبئی
ہماری زندگی ہمیشہ مختلف مراحل سے گزرتی رہتی ہے. اور ہمیں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہتاہے۔ ہمیں زندگی میں کئی طوفانوں سے ٹکرانا پڑتا ہے، معاملات سے نپٹنا پڑتا ہے۔ ہم بہت سارے طریقے اور اپنی ذاتی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ان باتوں سے گزرتے رہتے ہیں۔عجیب بات یہ ہے کہ زندگی کے معاملات کو درست کرنے اور خوشگوار کرنے میں مددگار بہت ساری باتوں کو ہم اہمیت نہیں دیتے۔ اگر ہم ان باتوں پر دھیان دیں تو ہمیں بہت ساری پریشانیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ ایسے ہی باتوں میں ایک صلاحیت ہے اور وہ ہے ’الفاظ’ کا درست اور برمحل استعمال۔
دیکھا گیا ہے کہ ہم لفظوں کے صحیح اور برمحل استعمال کو کبھی اہم اور مقدم نہیں سمجھتے۔کچھ الفاظ کہنے اور سننے میں تو بہت نزاکت رکھتے ہیں لیکن اپنی معنی کی وجہ سے بہت سخت اور کھردرے ہوتے ہیں۔ لفظوں کے بھی بہت ذائقے ہوتے ہیں ، بولنے سے پہلے چکھ لینا چاہئے۔سچ کہیں تو کڑوے لفظ کہنے والوں کا کچھ نہیں جاتا ۔۔۔ یہ تو ان کو سہنے والوں کا ظرف ہوتا ہے کہ وہ اسے پی جاتے ہیں۔ اس طرح کی کڑوی بات کرنے والے لوگ اپنے رویوں میں ضد، انا کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔ دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوششیں کرنا، خود کو ہی بہت کچھ سمجھنا،دوسرے سے بد تمیزی، بدلحاظی، بد اخلاقی، من مانی کرنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔
لفظ بہت نایاب اثاثہ ہوتے ہیں۔ان کی حرمت کا پاس رکھنا بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ یہ الفاظ بڑے قیمتی ہوتے ہیں۔۔۔۔الفاظ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔۔۔۔ کسی کے ساتھ اچھے روپ میں تو کسی کے ساتھ برے روپ میں۔۔۔۔۔کیونکہ لفظوں میں رنگ بھی ہے، روپ بھی ہے، ناپ بھی ہے ،گہرائی بھی ہے۔ کسی کے کہے ہوئے الفاظ زندگی بھر یاد رہتے ہیں۔ اچھے کہے ہوئے بھی اور برے بھی۔۔۔۔۔یہ الفاظ ہی ہیں جو مرہم بن کر زندگیاں بچاتے ہیں۔۔۔۔ یہ الفاظ ہی ہیں جو زہر بن کر جان بھی لیتے ہیں۔۔۔۔۔ کبھی تیر بن کر دل میں چبھتے ہیں تو کبھی سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں اور زندگی بنا جاتے ہیں۔ میٹھے اور پر خلوص الفاظ کسی کی روح کو تروتازگی بخش دیتے ہیں اور اگر یہی الفاظ زہر آلود اور حقارت بھرے ہوں تو جیتے جی مار دیتے ہیں۔ اچھے برے الفاظ کا ذخیرہ تو ہر کسی کے پاس ہوتا ہے مگر الفاظ کا چناؤ ہی ان الفاظ کو انمول بناتا ہے۔تیر ،تلوار، چاقو سے بھی زیادہ گہرا زخم دے جاتے ہیں یہ الفاظ۔۔۔۔گفتگو کرتے وقت لفظوں کے چناؤ کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔
الفاظ کی اپنی ہی ایک دنیا ہوتی ہے۔ ہر لفظ اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے۔کچھ لفظ حکومت کرتے ہیں تو کچھ غلامی۔ کچھ لفظ حفاظت کرتے ہیں اور کچھ وار کرتے ہیں۔ ہر لفظ کا ایک مکمل وجود ہوتا ہے۔لفظ صرف معنی نہیں رکھتے یہ تو دانت بھی رکھتے ہیں۔۔۔۔ جو کاٹ لیتے ہیں۔۔۔۔ یہ ہاتھ بھی رکھتے ہیں جو کسی کے گریبان کو چاک کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔ یہ پاؤں بھی رکھتے ہیں جو ٹھوکر لگا دیتے ہیں۔۔۔۔۔یہ زہر بھی رکھتے ہیں اور مٹھاس بھی۔۔۔۔ اور ان لفظوں کے ہاتھوں میں اگر لہجہ کا بارود تھما دیا جائے تو پھر تو یہ پورے وجود کو چھلنی چھلنی کردیتے ہیں۔
الفاظ ہی بتاتے ہیں کہ آپ کو اوروں کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہےیہ الفاظ نہ ہوں تو شاید کچھ بھی نہ ہو۔ کئی لوگوں کو اس قدر بولنے کی عادت ہوتی ہے کہ بس بولے چلے جاتے ہیں۔وہ کیا کہہ رہے ہیں، ان کی باتوں کا سامنے والے پر کیا اثر ہو رہا ہے، کچھ نہیں سمجھتے۔کبھی کبھی کہے گئے الفاظ چاقو کی دھار سے بھی تیز ہوتے ہیں اور یہ زخم کبھی نہیں بھرتے۔۔۔بس رِستے رہتے ہیں اور ہمیشہ یاد رہ جاتے ہیں۔ ۔ ۔۔ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
ادا کئےگئے لفظوں سے ہی انسان کا کردار پتہ چلتا ہے۔ ہر انسان ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ کہہ رہا ہوتا ہے۔ آپ کو کہیں بھی خاموشی نہیں ملے گی آپ کسی بھی محفل میں جاتے ہیں، کہیں بھی جاتے ہیں ہر انسان دوسرے انسان سے گفتگو میں مشغول ہوتا ہے ہر کوئی کسی نہ کسی سے بات کر رہا ہوتا ہے ،چاہے وہ معنی خیز ہو ،چاہے وہ بے معنی ہو، بس بات کرتے رہنا چاہتے ہیں ،بولنا چاہتے ہیں۔کیا صحیح ہے؟ کیا غلط ہے؟ کیا سچ ہے؟ کیا جھوٹ ہے؟ اس کو جانچے بنا ہم بولنا چاہتے ہیں۔
اب تو تعلیم پر بہت زور دیا جاتا ہے اور بہت تعلیمی یافتہ ڈگری ہولڈر بھی بہت ہیں۔ مگر نہ جانے کیوں پڑھے لکھے نہیں لگتے۔ پہلے لوگ کم پڑھے لکھے ہوتے تھے ان کے پاس الفاظ کا ذخیرہ نہیں ہوتا تھا۔ مگر سوجھ بوجھ تھی جو بھی کہتے، مگر اپنے لفظوں سے لوگوں کے دل چھلنی نہیں کرتے تھے۔ اب کیا وجہ ہے؟ ہمارے پاس بےشمار لفظوں کا ذخیرہ ہوتے ہوئے بھی کیوں ہم بولنے میں لفظوں کا مناسب استعمال نہیں کرتے؟ یا پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ان پڑھ ہیں جو صحیح لفظوں کا انتخاب نہیں کرتے اور اپنے الفاظ سے اوروں کو نشتر چبھوتے ہیں۔
پہلے کہانی افسانہ ناول اور کئی کتابیں پڑھتے تھے جس سے لفظوں کا ذخیرہ جمع ہوتا تھا مواد ملتا جو نہ صرف پڑھنے والے کی تسکین کرتا بلکہ پڑھنے والے کے علم میں بھی اضافہ کرتا ۔اسکا سب سے بڑا
فائدہ پڑھنے والے کوخوبصورت الفاظ ملتے۔ لوگوں کو نئے موضوعات پر گفتگو کرنے کے لئے مواد ملتا۔ اب تو انسانی زندگی سے کتاب کب کی چلی گئی، لفظ بے وقعت ہوگئے، لوگوں کا قیمتی وقت انٹرنیٹ اور شوشل میڈیا نے لے لیا۔ لفظ شائستگی کی علامت تھے، اب بے وقعت ہوئے اور اپنی قیمت کھو رہے ہیں۔الفاظ بلکل چابیوںکی طرح ہوتے ہیں. جیسے چابی کے استعمال سے تالا کھول سکتے ہیں بند کر سکتے ہیں اسی طرح یہ الفاظ کی چابیاں لوگوں کے دل کھول بھی سکتے ہیں.اور زبان بند بھی کر سکتے ہیں. الفاظ میں وہ طاقت ہے جس سے دوسروں کے دل میں جگہ بھی بنائی جا سکتی ہے اور دل سے اترا بھی جا سکتا ہے. ان ہی لفظوں کے اشک بنتے ہیں جو زباں سے کبھی ادا نہیں ہوتے۔ اپنے لفظوں کے بارے میں محتاط ہو جائیں انہیں ادا کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ یہ کسی کے وجود کو سمیٹیں گے۔ یا پھر اس کے وجود کو کرچی کرچی کر کے بکھیر دیں گے۔