محفل و شعرو ادب
شعر گوئی کی صلاحیت قدرت کا انمول تحفہ ہے اس سے سماج کی اصلاح کا کا م لیں۔مفتی کفیل اطہرؔ
راشدہ پبلک نورپور میں علی اکرم انصاری کی صدارت میں محفل و شعرو ادب کا انعقاد
پریس رہلیزیکم اکتوبر2023
نورپورضلع بجنور یوپی۔(پریس ریلیز)اللہ نے انسان کو اظہار بیان کی جو صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں ان میں شعر گوئی کی صلاحیت اس کا بہترین اور موثر تحفہ ہے۔ شعرائے کرام کو چاہئے کہ وہ قدرت کے اس عطیہ کا استعمال سماج کی اصلاح کے لیے کریں۔ان خیالات کا اظہار مفتی کفیل اطہر سیوہاروی نے اپنی افتتاحی گفتگو میں کیا۔وہ راشدہ پبلک اسکول نورپور میں منعقد ہونے والے پروگرام ”محفل شعرو ادب‘‘ میں بطور مہمان خصوصی شریک تھے۔موصوف نے اپنی تقریرمیں شعری محاسن پر سیر حاصل گفتگو کی۔انھوں نے کہا کہ صرف چند الفاظ کو جوڑ کر دو مصرع کہہ لینے کا نام شعر نہیں ہے۔شعر میں کم سے کم صحت خیال،صحت الوزن،صحت تراکیب اور صحت قافیہ کا ہونا ضروری ہے۔ان میں سے اگر ایک چیز بھی کم ہوتی ہے تو
اسے اہل سخن شعر نہیں مان سکتے۔یہ محفل جو دیر رات تک جاری رہی علی اکرم انصاری کی صدارت میں منعقد ہوئی۔
پروگرام کے مہمان اعزازی فعال سماجی کارکن محمد مرتضیٰ آزاد سیوہارہ تھے اور نظامت کے انجام ماسٹر محمد ہاشم حصیری
نے انجام دیے۔ڈاکٹر خلیق الرحمان،حاجی محمد یونس اور ماسٹر اشونی کمار یادو نے مہمانان اور صدرمحفل کا شال اوڑھا کر استقبال کیا۔پروگرام کا آغاز قاری عبدالقیوم جمیل ؔکی تلاوت قرآن سے ہوا۔حکیم سعید نورپوری نے نذرانہ نعت پیش کیا۔پروگرام میں شہر کے معززین کی قابل قدر تعداد شریک رہی۔جن میں ایڈوکیٹ خبیر احمد،محمد شہزاد لیکچرر انٹر کالج بجنور،ماسٹر محمد شاہدلیکچرار، آر جی ان پی انٹر کالج تاج پور،محمد عارف وائس پرنسپل اشرف زکریا انٹر کالج نورپور،صحافی و حکیم اسرارالحق، ماسٹرمحمد قمر عالم،ایڈوکیٹ زاہد حسین،ماسٹر حشم الدین،حافظ محمد اسماعیل،حافظ محمد ارشاد، قاری محمد عاصم،ڈاکٹر محمد عثمان،عارف اجمل،فرمان صدیقی،فہیم ادریسی،عتیق احمد صدیقی وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ تمام شعراء نے بہترین کلام پیش کیا اور خوب دادو تحسین وصول کی۔پسندیدہ اشعار ھدیہ قارئین ہیں۔
اجالوں کی کوئی ترکیب سوچو
اندھیروں کا گلہ کب تک کروگے
مفتی کفیل اطہرؔ
روز محنت کے پسینہ سے میں کرتا ہوں وضو
دست و پا یوں ہی نہیں رہتے منور میرے
علی اکرم ؔ انصاری
مجھے کتنا بدل ڈالا قفس نے
پرندہ ہوں مگر اڑتا نہیں ہوں
گوہر ہلالؔ سیوہاروی
بہہ رہے ہیں خامشی سے ہم کو بہنے دیجیے
ہم کو گر روکا گیا سیلاب ہوجائیں گے ہم
دانش نورپوری
مچھلی پھر بھی تڑپ رہی ہے حالانکہ ہے پانی میں
جانے کتنا زہر گھلا ہے دریاؤں کے پانی میں
ہاشم حصیری
یہ کہہ کر چھوڑ آیا تخت شاہی
مرے معیار کا منصب نہیں ہے
اسرارؔ الحق نورپوری
ہمارے حال پریشاں پہ مسکرایا ہے
وہ جس کے واسطے ہم نے لہو بہایا ہے
نفیس پرویزؔ
پتا کیا بتاتا کسی کو میں اپنا
کرائے کا گھر تھا بدلتا رہا ہوں
یوسف ؔقریشی
ہمیں خبر بھی نہیں کس کی یاد آتی ہے
یہ آستین مگر روز بھیگ جاتی ہے
نعیم ؔراجہ
چند سکے ہیں میری مزدوری
کھاؤں کیا اور اب بچاؤں کیا
اسرار عدیل ؔ
تیرے غموں کا بوجھ اٹھا تو لیا مگر
اے دوست اپنے ہاتھ گنوانے پڑے مجھے
عبدالقیوم جمیلؔ
حرام رزق کما مت کسی بہانے سے
بنے گا خون بھی گندہ خراب کھانے سے
حکیم سعیدؔ
ان کے علاوہ محمدمرتضیٰ آزاد،ذی شان سلیم،تنظیم ادریس وغیرہ نے بھی منتخب کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔