چمتکار

حامد علی اختر

کئی دن کی محنت ومشقت کے بعد وہ یہ پتا لگانے میں کامیاب ہوا تھا کہ ممبئی میں سیٹھ مرزا راشد بیگ ہی سب سے دولت مند آدمی ہے۔ اب اسے کسی طرح سیٹھ راشد کے پاس پہنچنا تھا ، وہ پتہ پوچھتے پوچھتے سیٹھ راشد کی کوٹھی پر پہنچ ہی گیا۔ سیٹھ صاحب لوگوں میں گھرے ہوئے تھے اور وہ تنہائی میں سیٹھ سے بات کرنا چاہتا تھا، خیر کچھ دیر انتظار کے بعد سیٹھ صاحب اسے تنہا مل گئے۔ وہ قریب پہنچا اور سیٹھ صاحب سے ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتے ہوئے بولا، صاحب میں کئی دن پہلے کمانے کی غرض سے ممبئی آیا تھا، مجھے حاجی علی شاہ پر ایک بزرگ مل گئے۔ میں نے ان سے ممبئی آنے کا مقصد بتایا۔ انھوں نے مجھے اسلام کی کچھ باتیں بتائیں اور سمجھایا کہ اصل دولت ایمان ہے اور اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ قبل اس کے کہ میں ان سے کچھ اور سیکھ پاتا وہ نہ جانے کہاں چلے گئے۔ ان کی باتوں سے مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان ہوجاؤں مگر کوئی میری مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ایک صاحب نے آپ کے بارے میں بتایا تو میں آپ کے پاس آگیا ہوں۔
سیٹھ نے سنتے ہی کہا: آپ صحیح جگہ پر آئے ہیں۔ ہم آپ کی پوری مدد کریں گے۔ سیٹھ جی نے فوراً اپنے ملازموں کو حکم دیا کہ فلاں کمرے میں ان کے رہنے سہنے کا انتظام کریں اور مسجد سے امام صاحب کو بلوایا۔ انھیں پوری بات بتا کر روزانہ تعلیم دینے کو کہا۔ بڑی دھوم دھام سے ایک محفل سجائی گئی اور کلمہ پڑھوا یا گیا۔ سیٹھ صاحب کو جب چند روز بعد یہ اطلاع دی گئی کہ قاعدہ ختم ہوگیا ہے اور پارہ شروع ہونے والا ہے تو سیٹھ نے پھر محفل سجائی اور اپنے دوست و احباب کو جمع کیا اور امام صاحب کو بھی تحفہ و تحائف سے نوازا گیا۔ کچھ عرصے بعد سیٹھ راشد نے امام سے پھر رپورٹ مانگی تو بتایا گیا کہ جیسے تیسے کرکے ناظرہ تو چل رہا ہے مگر کوئی سورت زبانی یاد نہیں رہ پاتی اور دعائیں بھی یاد کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ سیٹھ صاحب نے فوراً اپنے منشی کو بلایا اور نومسلم کے دماغ کے لیے میوے اور معجون وغیرہ کے انتظام کرنے کے لیے کہا۔ کچھ روز بعد امام صاحب نے پھر شکایت کی کہ حضرت چند سورت جو زبانی یاد ہونی چاہئیں وہ بھی نہیں ہوپارہی ہیں۔ سیٹھ صاحب نے پھر کچھ اپنے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد احکام جاری کیے۔ نومسلم برابر سیٹھ جی سے مل کر یہ یقین دلاتا رہتا تھا کہ جلدی ہی وہ یاد کرے گا، کیونکہ ابھی زبان پوری طرح عربی کی ادائیگی سے قاصر ہے، اس لیے یہ دقت ہے۔ ادھر امام صاحب کا مسلسل اصرار سیٹھ جی کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا تھا۔ سیٹھ جی اپنے تمام دوست احباب سے اس کے کند ذہن ہونے کا رونا روچکے تھے، مگر کسی کے پاس کوئی علاج نہ تھا۔ کہتے ہیں جب کوئی مرض دوا سے ٹھیک نہیں ہوتا تو دعاؤں کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ یہی سیٹھ راشد نے بھی کیا۔ ہر جگہ دعا کروانی شروع کردی۔ کبھی اپنی کوٹھی پر ہی اجتماعی دعا کراتے کبھی مسجد اور خانقاہوں میں، غرض کچھ دن تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ ایک دن امام صاحب نے سیٹھ جی کو آکر بتایا کہ دو دن سے وہ نومسلم نہ مجھ سے پڑھ رہا ہے اور نہ مسجد میں آتا ہے۔ میں کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہوں مگر اندر سے کوئی جواب نہیں آتا۔ سیٹھ جی امام صاحب پر ناراض ہوئے کہ تم نے دو دن سے کیوں نہیں بتایا؟ اپنے چند احباب کے ساتھ سیٹھ جی کمرے کے دروازے پر پہنچے اور جب کوئی جواب نہ ملا تو سیٹھ جی نے دروازہ توڑنے کا فیصلہ کیا اور کسی انہونی کے خوف سے تمام محلے والوں کو جمع کرلیا۔ دروازہ ٹوٹتے ہی لوگ حیران و ششدر رہ گئے کیونکہ موصوف مصلے پر سجدے میں تھے، سب لوگوں نے سوچا کہ شاید نماز پڑھتے پڑھتے ہی دم نکل گیا۔ سیٹھ صاحب کے تو حواس ہی اڑ گئے کہ اب کیا ہوگا؟ کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر میت کو اٹھانے کے لیے جیسے ہی ہاتھ لگایا۔ موصوف اٹھ کر چیخنے لگے، کم بختوں یہ تم نے کیا کیا؟ اللہ تعالیٰ مجھے خود قرآن یاد کرارہا تھا اور ابھی ۲۹؍پارے ہی ہوئے تھے۔ یہ دعویٰ سنتے ہی لوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ امام صاحب جہاں سے بھی پوچھتے موصوف فوراً فرفر سنادیتے۔ حفاظِ کرام کی پوری ایک ٹیم جمع ہوگئی، جو کوئی جہاں سے بھی ایک آیت پڑھتا موصوف مع حوالے کے بتا کر پڑھتے۔ مگر تیسویں پارے میں سے اگر کوئی پوچھتا تو موصوف خاموش رہتے۔ تصدیق ہونے کی دیر تھی کہ ایک قیامت برپا ہوگئی۔ جسے دیکھو، وہی سیٹھ مرزا راشد بیگ کی کوٹھی پر کھڑا ہے۔ کوئی سیٹھ صاحب کو مبارک باد دے رہا ہے تو کوئی امام صاحب کو اور موصوف کے تو کہنے ہی کیا، جو مصافحہ کرلے وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھے۔ چند دن تک کوٹھی میں میلا سا لگا رہا۔ لوگ موصوف کو نہ صرف نقد بلکہ قیمتی تحائف سے بھی نوازتے رہے، خود سیٹھ صاحب نے ایک بڑی رقم نذرانے کے طور پر دی اور موصوف سے تاحیات اپنے یہاں قیام کی ضد کی۔ موصوف نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے تو اسلام کی روشنی سے نوازدیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ وطن جاؤں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی دعوت دوں۔ سیٹھ جی فوراً تیار ہوگئے اور جلد از جلد واپس آنے کے لیے کہنے لگے۔ موصوف چند دن تک سیٹھ جی کے ان دوستوں سے ملتے رہے جو خود سیٹھ تھے اور پھر خود ایک سیٹھ بن کر واپس وطن آئے۔ آتے ہی بڑی سی حویلی لی اور ایک بڑی کار خریدی۔ راستہ میں موصوف مجھ سے ٹکراگئے تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ حافظ صاحب یہ چمتکار کیسے ہوا۔ حافظ جی مسکرائے اور بولے :
ہذا من فضل ربی۔