اردو زبان و ادب کی ترویج میں ضلع بجنور کا حصہ

 

ڈاکٹر سراج الدین ندوی
ایڈیٹر ماہنامہ اچھا ساتھی،بجنور
9897334419

جب ہم لسانیات کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ملک کی ایک زبان ہے اور اس زبان میں اسی ملک کی
خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اس ملک کے جغرافیائی حالات،تاریخی واقعات اور سماجی قدریں اس زبان کا حصہ ہوتی ہیں۔ اس
کے برعکس جب ہم اردو زبان کی تاریخ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ زبان ہے جو کئی براعظموں کی نمائندگی کرتی
ہے۔یہ کئی ملکوں کی زبانوں کا حسین گل دستہ ہے،اس میں عربی زبان کی فصاحت و بلاغت بھی پائی جاتی ہے،اس میں فارسی
زبان کی جمالیاتی حس بھی جلوہ افروز ہے،اس میں ترکی زبان کی وسعت اور ہندی زبان کا الڑھ پن بھی موجود ہے۔اسی لیے
اس کا نام اردو رکھاجاتا ہے۔یعنی ایک ایسا لشکر جس میں مختلف صلاحیتوں کے فوجی شامل ہیں۔چنانچہ ایک لشکری زبان
ہونے کی وجہ سے اردو زبان اپنے اندر وہ فولادی صفت بھی رکھتی ہے کہ تمام مخالف آندھیوں کے باوجود یہ پھل پھول رہی
ہے۔اس کے فروغ و اشاعت کا اگر مشاہدہ کرنا ہو تو آپ یوروپی اور خلیجی ممالک کا سفر کریں آپ محسوس کریں گے کہ آپ
عروس البلاد ممبئی یا دارالسلطنت دہلی میں گھوم رہے ہیں اور آپ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
دوسری طرف اس زبان میں اتنی لچک اور نرمی پائی جاتی ہے کہ ہر لفظ کو اپنے اندر اس طرح سمولیتی ہے کہ وہ لفظ اسی
زبان کا معلوم ہونے لگتاہے۔مثال کے طور پر پلان،گلوب،ایکسرے،الٹراساؤنڈ وغیرہ اگر چہ انگریزی زبان کے الفاظ ہیں مگر
اردو میں جس روانی کے ساتھ بولے جاتے ہیں کہ اردو کے اپنے الفاظ معلوم پڑتے ہیں۔
ہماری یہ اردوزبان دکن سے دہلی،لکھنو اور رام پورہوتے ہوئے جب بجنور پہنچتی ہے تو اس میں دکن کی حلاوت،دہلی کی
داخلیت لکھنو کی خارجیت اور بجنور کی ذہانت شامل ہوجاتی ہے جس سے اس کا حسن و جمال مزید نکھر جاتا ہے اورضلع
بجنور میں ایہ ایک انفرادی پہچان بنا لیتی ہے۔
گل سے لپٹی ہوئی تتلی کو گرا کر دیکھو
آندھیو! تم نے درختوں کو گرایا ہوگا
ضلع بجنور نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔اردو ادب کے تمام شعبوں کو یہاں کے اہل قلم نے
اپنے خون جگر سے سیراب کیا ہے۔اگر آپ ماضی کے جھرونکوں میں جھانک کر دیکھیں گے تو آپ کواردو شاعری میں سب
سے نمایاں نام قائم چاندپوری کا ملے گا۔موصوف نے 1793میں وفات پائی۔یہ وہ زمانہ تھا جب اردو شاعری میں خواجہ میر درد
اور میر تقی میر کا ڈنکا بجتا تھا۔قائم چاندپوری ان کے ہم عصر اورمرزا محمد رفیع سودا کے شاگرد تھے۔افسانہ نگاری کا موجد
بہت سے مورخین منشی پریم چند کو بتاتے ہیں،جن کا پہلا افسانہ 1908میں منظر عام پر آیا حالانکہ سجاد حیدر یلدرم جو نہٹور
ضلع بجنور کے رہنے والے تھے ان کا افسانہ 1900میں شائع ہوچکا تھا۔اس طرح افسانہ کے موجود سجاد حیدر یلدرم قرار پاتے
ہیں۔ناول نگاری کے سرخیل ڈپٹی نذیر حمد ہی ہیں جن کا تعلق بجنور سے تھا۔۔تنقید کی دنیا میں عبدالرحمان بجنوری ایک معتبر
نام ہے،اگر عبدالرحمان بجنوری نہ ہوتے تو مرزا غالب کی اہمیت و افادیت دنیا کے سامنے کون پیش کرتا اسی لیے کہا جاتا ہے
کہ ”غالب کو غالب بنانے میں عبدالرحمان بجنوری کا اہم کردار ہے۔“تاریخ نویسی میں ”قصہ احوال روہیلہ“ کو اردو کی سب
سے پہلی کتاب ہونے کامقام حاصل ہے،اس کتاب کے مصنف رستم علی کا تعلق بھی بجنور سے ہی تھا۔ان نابغہ روزگار
شخصیات کے علاوہ علامہ تاجور نجیب آبادی، قاضی سجاد حسین، پروفیسر خورشید الاسلام، اکبرشاہ خان نجیب آبادی، ثاقب

سیو ہاروی، جنوں سہنسپوری،اختر الایمان، رفعت سروش، ہلال سیوہاروی،نشتر خانقاہی، عفان رومانی،گوپی چند نارنگ،گیان
چند جین،چندر پرکاش جوہر بجنوری، ابرار کرتپوری،علیم الدین علیم ،اعجاز دھام پوری،مہندر سنگھ اشک جیسی قد آور
شخصیتوں نے ضلع بجنور میں اردو کے پودے کی آبیار ی کی ہے،اللہ کا شکر ہے کہ ضلع بجنور میں اردو زبان و ادب کو
کبھی یتیمی کا احساس نہیں ہوا۔مولوی مجید حسن، مولوی مظہر الدین شیر کوٹی نے صحافت وادب کا بلند معیار قائم کر کے ضلع
بجنور کو اردو صحافت میں زندہ جاوید مقام عطا کیا۔پروفیسر وحید الدین ملک، پروفیسر ریاض الاسلام، پروفیسر عبد الصمد
صارم پروفیسر سمیع الدین، پروفیسر ماجدہ اسد وغیرہ نے علوم عصریہ اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں کارہائے نمایاں
انجام دے کر ضلع بجنور کے لیے سرمایہ افتخار فراہم کیا۔سیاست و قیادت کے میدان میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، حافظ
محمد ابراہیم، قاضی عبد اللطیف گاندھی، بیرسٹر آصف علی، امام الدین انصاری جیسے بے باک و مجاہد ر ہنما ہوئے،جنھوں نے
بجنور کی آواز کو ملک کی آواز بنادیا۔مولانا محمد علی جوہر، سرسید احمد خاں، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی،مولانا امین احسن
اصلاحی جیسے عباقر ہئ روز گار کے جذ بہ وکردار کی تشکیل میں بھی ضلع بجنور نے اہم رول ادا کیا۔
یہاں سے نکلنے والا مدینہ اخبار اردو کی ترویج کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں حق کی آواز بلند کرتا ہے اور ملک میں آزادی کا
بگل بجاتا ہے،یہ اخبار پہلی بار 1912ء میں شائع ہوا۔ اس کی بنیاد مولوی مجید حسن نے رکھی، اور اس کے پہلے مدیر و ایڈیٹر
حامد الانصاری غازی تھے۔اس کا مدینہ پریس کے نام سے اپنا پرنٹنگ پریس تھا۔یہ متحدہ صوبے کے سب سے نمایاں مسلم
اخبارات میں سے ایک تھا۔ اس نے خبروں کی منظم ترتیب اور اعلی معیار کی خطاطی کے ذریعے قارئین سے قبولیت حاصل
کی۔ پورے برصغیر میں پڑھا جاتا تھا، اس نے مسلم رائے عامہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔سیاسی طور پر یہ انڈین نیشنل
کانگریس کا حامی تھا۔یہاں سے شائع ہونے والا غنچہ نئی نسل کی فکری و ذ ہنی آبیاری کرتا ہے۔نسل نو کو زندہ رہنے کا ہنر
سکھاتا ہے اور اس طرح اردو صحافت بچپن سے لے کر بڑھاپے تک آنے والو کے لیے نقش راہ بناتی ہے۔
ضلع بجنور کے تقریباً ہر شہر نے اردو زبان و ادب کی اشاعت میں حصہ لیا۔اس میں نجیب آباد،کرت
پور،بجنور،شیرکوٹ،سیوہارہ،دھام پور،نگینہ،اور چاندپور بہت نمایا ں ہیں۔ان شہروں سے وابستہ نمایاں افراد کا تذکرہ آچکا
ہے۔دھام پور کے حوالہ سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اس شہر کو اردو دنیا میں متعارف کرانے والی شخصیت حافظ
عبدالسمیع دھام پوری کی ہے۔ان کی ایک نعت بہت مشہور ہوئی،درسی کتب تیار کرنے والے بیشتر اداروں نے اس نعت کو
درسیات میں شامل کیا۔دو شعر آپ بھی ملاحظہ کرلیں:
دین سب کو سکھاتے تھے پیارے نبیؐ
اچھی باتیں بتاتے تھے پیارے نبیؐ
یہ حقیقت ہے حافظ کسی کا کبھی
دل نہ ہرگز دکھاتے تھے پیارے نبی
اگر ہم ماضی سے حال کی دنیا میں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ضلع بجنور کا گوشہ گوشہ اردو کی شمع سے جگمگا رہا ہے۔شیر
کوٹ میں طیب آزاد شیر کوٹی ہیں جو اس شمع کو روشن کیے ہوئے ہیں،موصوف کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن
مجید کے معتد بہ حصہ کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔دھام پور میں بزم قمر سے وابستہ افراد اردو کی کھیتی کو لالہ زار بنائے ہوئے
ہیں۔اس بزم کی بنیاد استاذ شاعر حضرت بہزاد دھام پوری نے رکھی تھی۔آج اس بزم کے تربیت یافتہ درجنوں شعراء و ادباء
اردوادب کی خدمت کررہے ہیں۔دھام پور سے جب آپ سیوہارہ کی طرف بڑھتے ہیں تو درمیان میں ایک گاؤں ”سرکڑہ“ ہے۔اگر
کہا جائے کہ اس گاؤں نے بجنور کے بڑے شہروں سے زیادہ اردو کی اشاعت میں حصہ لیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔یہاں سے
گزشتہ 32سال سے بچوں کے لیے اردو کا ماہنامہ ”اچھا ساتھی“ بلا ناغہ شائع ہورہا ہے۔یہ رسالہ ملک کی طول و عرض کے
علاوہ بیرون ملک بھی پسند کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس چھوٹی سی بستی میں ایک درجن شاعر، ادیب اور اردو معلمین
وعلماء پائے جاتے ہیں۔اردو کی ایک بڑی لائبریری یہاں موجود ہے جس میں دس ہزار سے زائد کتابیں ہیں،ہندوستان کے معتبر
اخبارات و رسائل یہاں آتے ہیں۔اردو کتابوں کا پبلیکیشن بھی موجود ہے جس کے تحت دوسوسے زائد درسی و غیر درسی کتب
منظر عام پر آچکی ہیں۔سیوہارہ میں عتیق ماہرؔ،سہنسپور میں کفیل سہنسپوری اور ڈاکٹر تہذیب ابرار،روانہ میں معین
شاداب،نورپور میں عبدالغفاردانش اور علی اکرم انصاری،چاندپور میں شکیل جمالی ،نہٹور میں امیر نہٹوری،نگینہ میں ڈاکٹر
شیخ ارشد نگینوی اور ان کے احباب،کرت پور میں شناور کرتپوری اور ارشد ندیم،نجیب آباد میں ڈاکٹر آفتاب نعمانی اور ان کے
رفقاء،بجنور میں نظر بجنوری،وغیرہ موجودہ دور میں وہ اصحاب قلم ہیں جو اردو زبان و ادب کو نہ صرف زندگی بلکہ نئی

جہات سے روشناس کرارہے ہیں۔تقریبا ہر شہر میں ادبی انجمنیں قائم ہیں۔اس کے تحت،ہفتہ وار،پندرہ روزہ اورماہانہ نشستیں
منعقد ہوتی ہیں۔ اردو اخبارات کی ترسیل کا نظم بھی ہر شہر میں ہے۔اگرچہ اخبارات کی تعداد متاثر ہوئی ہے،ہر شہر اور قریہ
میں مدارس قائم ہیں جن میں اردو ذریعہ تعلیم ہے۔میں سمجھتا ہوں جو لوگ اردو کے ختم ہونے کا ماتم کرتے ہیں انھیں آگے بڑھ
کر اردو کی ترویج و اشاعت میں حصہ لینا چاہئے۔اردو ایک زندہ زبان ہے۔حالات کے نشیب و فراز اور اقتدار کے آنے جانے
سے تھوڑا بہت اتار چڑھاؤ ہر زبان پر آتا ہے۔بھارت میں بہت سی قبائلی اور علاقائی زبانیں دم توڑ رہی ہیں۔قابل اطمینان امر یہ
ہے کہ اردو کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔یہ اردو کی چاشنی اور حلاوت ہے جو اپنے دشمنوں کا دل بھی موہ لیتی ہے۔
آپ بھی اردو کی اشاعت میں حصہ داری ادا کیجیے،اسے پڑھیے۔اپنی نسلوں کو پڑھائیے،اخبارات و رسائل خرید یے،ہر گھر
میں اردو کی لائبریری بنائیے،اپنے شادی کارڈ اردو میں طبع کرائیے،دوکانوں کے بورڈ ز وغیرہ اردو میں آویزاں کیجیے۔یہ
ہمارے اپنے ملک کی زبان ہے۔ہمارے دینی اثاثے کی زبان ہے۔اس کو پڑھنا اور پڑھانا اگر ایک طرف ملک کی اہم خدمت ہے
تو دوسری طرف مذہبی فریضہ بھی ہے۔