دور حاضر میں سیرت نبویؐ کی رہنمائی

ڈاکٹر سراج الدین ندوی

مسائل اور زندگی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔یہ ممکن نہیں کہ ہم زندہ ہوں اور ہمارے سامنے مسائل نہ ہوں ۔البتہ مسائل کی نوعیت بدلتی رہتی ہے ۔کبھی انسان کو ذاتی طور پر بیماری و بے روزگاری کے مسائل درپیش ہوتے ہیں اور کبھی بحیثیت ملت ملی تشخص و تحفظ کا مسئلہ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے ۔مجھے تاریخ کا کوئی ایسا دور اور زمین کا کوئی قابل ذکر حصہ ایسا نہیں ملا جہاں انسان آباد ہوں اور ان کو مسائل درپیش نہ ہوں ۔قدیم زمانے میں تو انسان کے سامنے آگ جلانے ،کھیتی کرنے اور سفر کرنے کے سلسلہ میں اس قدر مسائل موجود تھے جن کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے ۔چنانچہ اس بدیہی حقیقت کو تسلیم کرلینا ہی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم یہ تسلیم کرلیں کہ آج کے دور میں ہم جن مسائل کا سامنا کررہے ہیں وہ مسائل نئے ضرور ہوسکتے ہیں ،لیکن دشواریاں اور مصائب نئے نہیں ہیں اور نہ آخری ہیں ۔اس حقیقت کو بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ مسائل کا سامنا صرف شیطانی اعمال انجام دینے والوں کو ہی نہیںکرنا پڑتا بلکہ اللہ کے نیک بندوں کو بھی کرنا پڑتا ہے ۔ابنیاء کے سامنے الگ قسم کے مسائل تھے ،صحابہ کرام کے زمانے میں بھی امت کو مسائل درپیش تھے۔اولیاء اللہ بھی دکھ اور پریشانیاں جھیلتے رہے ہیں۔میں پوری دنیا کی تاریخ اور مسائل کا احاطہ نہیں کروں گا ۔بلکہ اپنی تحریر کو وطن عزیز کی حدود میں رکھ کر ہی یہ بتانے کی کوشش کروں گا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں سیرت رسول ؐ سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے ۔
وطن عزیز کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے ۔اگر پوری تاریخ کے چند مسائل کا بھی ذکر کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے ۔اس لیے ہم اپنے مسائل کی فہرست کو صرف ایک صدی میں محیط کرلیتے ہیں ۔اس صدی میں ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے بڑا ایونٹ آزادی وطن کا ہے ۔وہی آزادی جس کے لیے ہم نے جان کے نذرانے پیش کیے تھے ،جن کے لیے بچوں نے یتیمی کا اور دوشیزائوں نے بیوگی کا دکھ برداشت کیا تھا ۔مگر اسی آزادی نے جب دستک دی تو ہمارے دل اور جگر تقسیم ہوگئے ۔آزادی کی خوشی ،تقسیم وطن کے نتیجے میں ہونے والے فسادات کی آگ میں معدوم ہوگئی ۔کیا کوئی ہندوستانی اس زخم کو بھول سکتا ہے ۔کس قدر بھیانک منظر رہا ہوگا ۔جب ملک ہندو اور مسلمان کے نام پر تقسیم ہورہا ہوگا ۔وہی ہندوستانی جو شانہ بشانہ انگریز کے خلاف لڑ رہے تھے وہی آپس میں دست بگریباں تھے ۔کیا آج کے حالات اس سے بھی زیادہ اندوہ ناک ہیں ۔
موجودہ دور میں جو مسائل امت مسلمہ کو درپیش ہیں ان کو ہم دو ابواب میں تقسیم کرسکتے ہیں ۔ایک وہ مسائل جو ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں جنھیں ہم ملت کے داخلی مسائل بھی کہہ سکتے ہیں ۔دوسرے وہ مسائل ہیں جو اغیار کی سازشوں کا نتیجہ ہیں ،جنھیں ہم خارجی مسائل کا نام بھی دے سکتے ہیں ۔جب ہم اپنے داخلی مسائل پر نظر ڈالتے ہیں تو ان میں بھی دو طرح کے مسائل سے سابقہ پڑتا ہے ۔ایک وہ مسائل جن کا تعلق ہمارے دین یا آخرت سے ہے اور ایک وہ مسائل ہیں جن کا تعلق ہماری دنیاوی زندگی سے ہے ۔مثال کے طور پر دینی تعلیمات سے ناواقفیت ،مسلکی تنازعات ،مساجد و اوقاف کا تحفظ ،غیر اسلامی رسوم و رواج کا چلن وغیرہ مسائل کی وہ قسم ہے جن کا تعلق ہمارے دین سے ہے اور یہ مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں ۔دین سے ناواقفیت میں کسی دشمن کا کیا قصور ہے ،ہر قابل ذکر مسلم بستی میں مسجد اور مدرسہ موجود ہے اور وہاں دینی امور سے واقف ایک امام بھی موجود ہے اس کے باوجود ہماری اکثریت دین سے ناآشنا ہے ۔درجنوں دینی تنظیمیں ہیں ،ہر سال صدہا عظیم الشان اجلاس منعقد ہوتے ہیں ،لاکھوں لوگ جماعت میں نکل کر دین سیکھنے جاتے ہیں ،اس کے باوجود ہم دین کی بنیادی تعلیم سے کما حقہٗ واقف نہیں ہیں ۔یہ قابل افسوس پہلو ہے ۔دین کی وہ تعلیمات جن کا تعلق ہماری آخرت کی فوزو فلاح سے ہے ان سے ہم غافل ہیں ۔اگر ہماری دینی جماعتیں ،مساجد کی کمیٹیاں ،مدارس کے مدرسین یہ طے کرلیں کہ وہ اپنے دائرہ عمل میں ہر مسلمان مردو عورت کو دین کی بنیادی تعلیم سے آراستہ کرے گا تو کونسا مشکل کام ہے ؟اگر صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جائے تو محض ایک سال میں سارے مسلمان دین کی بنیادی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔کیا صفہ نبوی سے ہمیں یہ رہنمائی نہیں ملتی ؟نبی اکرم ؐ نے مکہ میں دار ارقم کو اور مدینہ میں صفہ نبوی کو عوامی تعلیم گاہ بنایا تھا ۔اس کے علاوہ جمعہ کے خطبوں اور دیگر اہم مواقع پر آپؐ صحابہ کرامؓ کو دینی تعلیم سے واقف کراتے ،یہاں تک کہ خواتین کی طلب پر آپ نے ہفتہ میں ایک دن ان کے لیے مختص فرمادیا ،قبائل کی طلب پر ان کے یہاں معلمین بھیجے ۔افسوس ہے کہ خود کو نبی ﷺ کا جانشین کہنے والے اور اس منصب کی بنیا د پر قوم سے تکریم و احترام کی توقع کرنے والے ان فرائض کو بھول گئے جو اس منصب کی وجہ سے ان پر عائد ہوتی ہیں ۔مسلکی تنازعات ،،مساجد و اوقاف کا تحفظ ،غیر اسلامی رسوم و رواج کا چلن وغیرہ مسائل کا حل بھی اسی میں ہے کہ ہم دینی تعلیمات سے واقف ہوں ۔
داخلی مسائل میں دوسری قسم ان مسائل کی ہے جن کا تعلق ہماری دنیوی زندگی سے ہے ۔اس ضمن میں بے روزگاری ،سیاسی بے وزنی ،قیادت کا فقدان ،عدم تحفظ کا احساس اور مایوسی کی کیفیت وغیرہ کو شمار کیا جاسکتا ہے ۔ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ہمارے درمیان بے روزگاری کا مسئلہ ہے یا اچھے افراد کانہ ملنا مسئلہ ہے ۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اس وقت کام کی کمی نہیں ہے ،بلکہ کام کرنے والوں کی کمی ہے ۔اسکولوں کو اچھے مدرس دستیاب نہیں ،مساجد کو قابل امام میسر نہیں ،کارخانوں کو وفادار ملازم حاصل نہیں ،ہاسپٹلس کو خدمت کا جذبہ رکھنے والے ڈاکٹر س اور کمپنیوں کو مخلص انجینئر س میسر نہیں ہیں ۔یہاں تک کہ وفادار اور محنتی مزدور بھی ندارد ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جو کام بھی کریں اس میں اخلاص و وفاداری ہو ۔اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ ہم کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو ۔اسی کے ساتھ ہم جو کمائیں اس کو کفایت شعاری کے ساتھ خرچ کریں ،کل کے لیے کچھ بچائیں ،اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلائیں تو آپ کم آمدنی میں سکون کی دولت پائیں گے ۔اس کے علاوہ ہمارے خیراتی ادارے ،مخیر حضرات اپنی دولت کا ایک حصہ بے روزگارافراد کی اعانت کے لیے رکھیں ،انھیں بغیر سود کے قرض فراہم کردیں ،ان کے پروڈکٹ کی مارکیٹنگ میں باہمی تعاون کریں تو آپ بے روزگاری کے عفریت سے نجات پاسکتے ہیں ۔نبی اکرم ﷺ کے اسوہ میں اور صحابہ کرام کی زندگی میں یہ سب باتیں ہمیں ملتی ہیں ۔امانت دار تاجر کے لیے بشارت ،محنت کشوں کی حوصلہ افزائی ،دست نبوی ؐ کے ذریعہ کلہاڑی میں دستہ لگانا ،وغیرہ کی تعلیمات ہماری بے روزگاری دور کرنے میں کیوں کر معاون نہیں ہوسکتیں ۔
ہماری سیاسی بے وزنی ہمارے انتشار کا نتیجہ ہے ۔ہم نوٹ کے بدلے ووٹ دیتے ہیں۔ہر شخص لیڈر بننے کا خواہاں ہے ۔اس کے باجود قیادت کا فقدان ہے ۔اس لیے کہ جو لوگ قائد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ،وہ حب قومی کے جوہر سے عاری ہیں ۔ان کے نزدیک اپنی برادری اور اپنا علاقہ ہے ۔اگر آپ متحد ہونا چاہیں تو کون روک سکتا ہے ؟دور نبوی میں قریش کے معززین ،مدینہ کے انصار ،حبش کے بلال ،روم کے صہیب ،پسماندہ طبقات سے آل یاسر ،کلمہ کی بنیاد پر ایک ہوسکتے ہیں تو اسی کلمہ کی بنیاد ہم منتشر کیوں ہیں ؟اگر ہم متحد ہوجائیں تو کس کی مجال ہے جو ہماری مساجد اور اوقاف کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے ۔
مسلمانوں کے سامنے جو مسائل ہیں ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ان مسائل سے ہے جو ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں ۔اس لیے ان کا حل بھی انھیں خود ہی تلاش کرنا ہوگا ۔رہے وہ مسائل جو حکومت وقت ،اسلام مخالف گروہوں کی جانب سے کھڑے کیے گئے ہیں یا کیے جارہے ہیں تو ان کا سامنا تواصوا بالحق اور تواصو بالصبر کی روشنی میں کیا جانا چاہئے۔اس وقت اس فہرست میں سب سے بڑا مسئلہ مسلمانوں سے نفرت میں اضافہ ہے ۔مسلمانوں سے نفرت کی ایک وجہ تو مذہبی شدت پسندی ہے ۔غیر مسلم اسلام سے نفرت کرتا ہے اس لیے وہ مسلمانوں سے بھی نفرت کرتا ہے ۔مگر ایسے لوگ میری معلومات کے مطابق کم ہیں ۔نفرت کی ایک وجہ یہ غلط فہمی ہے کہ مسلمان بادشاہوں نے غیر مسلموں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر زیادتیاں کی ہیں ۔حالانکہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے ۔یہ سب کچھ پہلے انگریزوں کا اور ان کے بعد سنگھ کا پروپیگنڈا ہے ۔نفرت کی تیسری وجہ موجودہ مسلمانوں کے اخلاق و معاملات ہیں ۔اس وقت ہم مسلمان، ملک اور سماج کو کچھ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔ہمارے اندر لب و لہجہ کی حلاوت ،معاملات کی شفافیت ،مصیبت میں اغیار کے لیے جذبہ ہمدردی و خیر خواہی بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے ۔اگر ہزار مسلمانوں میں سے کوئی جذبہ کسی ایک کے اندر ہے بھی تو اس قدر کم ہے کہ اس کے اثرات نظر نہیں آتے ۔رسول اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ؐ کے اخلاق کریمانہ کے باوجود اہل مکہ اور بعد میں اہل عرب صرف اس لیے آپ سے نفرت کرنے لگے اور دشمن ہوگئے کہ آپ ایک اللہ کی عبادت و فرمانروائی کی تعلیم دیتے تھے ۔مگر اس کا جواب بھی آپ ؐ نے کبھی نفرت سے نہیں دیا ۔دشمنوں کے ساتھ محبت بھرا سلوک ہمیشہ آپ کا شیوہ تھا۔دراصل ہمیں سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ غیر مسلم ہم سے نفرت کیوں کرنے لگے ۔اس وجہ کو دور کرنا چاہئے ۔اگر ان کی عداوت کلمہ طیبہ کے اقرار اور اس پر عمل کی وجہ سے ہے تو اس کو برداشت کیجیے یہ آپ کی خوش نصیبی ہے کہ کوئی آپ سے اس لیے نفرت کرتا ہے کہ آپ اللہ کو ایک مانتے ہیں ۔ حکمرانوں کا متعصبانہ رویہ ہو یا عدلیہ کے عجلت پسندانہ اور آئین کی روح کے منافی فیصلے دراصل ان کی وجہ بھی یہی نفرت ہے جس کا ذکر میں نے ابھی اوپر کیا ہے ۔
نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں ہمیں آج کے حالات میں جو رہنمائی ملتی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کا جائزہ لیں ،اسلامی تعلیمات کے برحق ہونے پر صحابہ والا یقین و اعتماد اپنے اندر پیدا کریں ۔ہمارے اندر مایوسی اور گھبراہٹ کی کیفیت ایمان کی کمزوری کی علامت ہے ۔اگر ایمان کامل میسر ہے تو آپ بڑے سے بڑے طوفان سے ٹکراسکتے ہیں ۔بقول حفیظ میرٹھی :۔
میسر ہو اگر ایمان کامل
کہاں کی الجھنیں کیسے مسائل
کامل ایمان کے ساتھ ساتھ ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل بھی کرنا ہے ۔قول و عمل سے دعوت بھی دینا ہے ۔کلمہ کی بنیاد پر متحد بھی رہنا ہے ۔ انسانیت کے دکھوں کا مداوا بھی کرنا ہے ۔اپنے تمام کاموں میں احسان (BEST PERFORMENC)کی روش بھی اپنانی ہے ۔اسوہ رسول کی روشنی میں ایک طرف آپ کو عبداً شکوراً بننا ہے تو دوسری طرف خیرکم لاھلہٖ کے اعزازکا بھی مستحق بننا ہے۔آپ سیرت نبوی کا ایک ایک ورق پلٹتے جائیے اور موجودہ حالات میںاپنے لیے حل تلاش کرتے رہئے ۔رسول اللہ کی زندگی ہمارے لیے روشن چراغ ہے ،امید کا سورج ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سچے دل سے آپ پر ایمان لائیں اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات کو حرز جاں بنائیں۔