فریبی بیوی

حامد علی اختر

دنیش تعلیم حاصل کرکے ایک طویل عرصے کے بعد وطن واپس آیا تو اسے ہر چیز بدلی بدلی لگ رہی تھی۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ پورا شہر ہی بدل چکا ہے۔ بچے جوان ہوگئے ہیں اور جوان بوڑھے، گلی ، کوچہ، سڑک، ہر چیز بدل چکی تھی وہ تمام چیزوں کو حیرت بھری نگاہ سے دیکھ رہا تھا اور اپنے بچپن کو تلاش کررہا تھا جو چاہتے ہوئے بھی اسے حاصل ہونے والا نہیں تھا۔ جہاں وہ نہ جانے کتنی چیزو ں کو تلاش کررہا تھا انھیں میں ایک اس کا بچپن کادوست ونود تھا۔ جس سے وہ جلد سے جلد ملنا چاہتا تھا مگر رات کو اس کی یہ خواہش کسی طرح بھی پوری ہونے والی نہیں تھی۔ کیونکہ ونود کا گھر اس کے گھر سے بہت دور بھی تھا اور پھر رات کو گھر والے اسے جانے کی اجازت بھی نہیں دینے والے تھے۔ بڑی مشکل سے دنیش نے کسی طرح رات گزاری اور صبح وہ تیار ہوکر ونود کے گھر پہنچا۔ ونود گھروالوں سے الگ رہنے لگا تھا، اس لیے گھر سے ونود کی دوکان کا ایڈریس ملا اور یہ پتہ چلا کہ دنود کی شادی ہوچکی ہے۔ وہ جلدی سے گھر سے نکلا اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے جیولرس کی طرف بڑھنے لگا ابھی وہ چند گلیاں ہی پار کرپایا تھا کہ اسے ایک گھر سے ہلکی سی آواز سنائی دی۔ اس نے دیکھا کہ ایک نہایت ہی حسین و جمیل دوشیزہ اسے بلا رہی ہے، وہ اس کے بلاوہ پر گھر میں چلا گیا، کچھ دیر بعد نکل کر وہ اپنے عزیز دوست کی دکان پر پہنچا۔ ونود نے دنیش کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔ گھنٹوں دونوں بچپن کی یادوں میں مست رہے۔ اور نہ جانے کہاں کہاں کے گلے شکوے ہوئے اور پھر دنیش نے جیب سے ایک سونے کا سکہ نکال کر دکھایا کہ یار تم تو جیولرس ہو دیکھنا یہ اصلی ہے یا نقلی۔ ونود سکہ دیکھ کر ہی چونک گیا اس نے فوراً پوچھا کہ یہ سکہ تمہارے پاس کہاں سے آیا۔ دنیش نے راستہ میں ملی دوشیزہ کا قصہ یارانہ کے باعث بتایا اور یہ بھی بتایا کہ کل اس نے پھر بلایا ہے۔ ونود نے کل کا وقت پوچھا اور دل ہی دل میں کل کے لیے پروگرام بنانے لگا کہ وہ کیسے اپنی بیوی کو رنگے ہاتھ پکڑے گا۔آج ونود وقت مقررہ کے خلاف اپنی دکان سے گھر پہنچا۔ اچانک شوہر کے آجانے سے بیوی چونکی اور پھر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے مسکرا کر بولی۔ آج آپ اچانک کیسے آگئے۔ ونود کچھ نہیں ایسے ہی تمہاری یاد آرہی تھی میں نے سوچا چلو دیدار کرکے آجاتا ہوں۔ ونود باتیں کرتے کرتے پورے گھر کی تلاشی لے چکا تھا اور محسوس کرچکا تھا کہ گھر میں کوئی اور نہیں ہے، وہ تسلی کرکے واپس اپنی دکان پر آگیا۔ تھوڑی دیر میں دنیش بھی ہانپتا کانپتا ونود کی دکان پر پہنچا۔ ونود نے کہا خیریت کیسے حالت خراب ہے۔ دنیش نے کہا کہ یار آج تو مرتے مرتے بچا ہوں۔ کیوں کیا ہوا؟ ارے یار آج اس کا شوہر اچانک آگیا تھا۔ تواس نے تمھیں پکڑا نہیں۔ ارے پکڑ تو لیتا مگر شکر کرو اس نے پورے مکان کی تلاشی لی اور مگر مچان پر نہیں دیکھا۔ ونود دل ہی دل میں بچھتا رہا تھا کہ کاش وہ مچان کی بھی تلاشی لے لیتا۔ ونود نے دنیش سے کہا کہ اب تو کل کی چھٹی۔ دنیش نہیں یار وہ ہمت والی ہے ، اس نے کل پھر بلایا ہے۔ یہ دیکھو سونے کا سکہ۔ ونود کو سکہ دیکھ کر جو ذرا سا شک و شبہ تھا وہ بھی جاتا رہا اور اس نے پھر کل کے لیے منصوبہ بندی شروع کردی۔ آج پھر اچانک ونود نے گھر پہنچ کر اپنی بیوی کو چونکا دیا او رمکان میں ادھر ادھر تلاش کرنے کے بعد وہ مچان پر چڑھ کر دیکھنے لگا۔ بیوی نے ٹوکا مچان پر کیا دیکھ رہے ہو۔ ونود نے کہا کچھ نہیں ایک سامان رکھا تھا، اسے تلاش کررہا ہوں۔ مچان اور پورے گھر کی تلاشی لینے کے بعد ونود مطمئن ہوکر دکان پر واپس آگیا۔ تھوڑی دیر بعد دنیش نے آکر اپنی روداد سنائی کہ یار لگ رہا ہے اس کے شوہر کو کچھ شک ہوگیا ہے۔ آج پھر وہ عین وقت پر آدھمکا۔ ونود نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا کہ آج تم کیسے بچے تو دنیش نے بتایا کہ اس کی بیوی بھی بڑی عقلمند ہے۔ اس نے چٹائی میں لپیٹ کر مجھے دیوار سے لگا کر کھڑا کردیا تھا۔ وہ کئی مرتبہ میرے پاس سے گزرا مگر مجھے نہیں دیکھ پایا۔ ونود کا اندر سے جی چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی دیوار میں سر مار کر اپنے آپ کو ہلاک کرلے مگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے سونے کے سکے کے بارے میں پوچھا دنیش نے پھر اسے سونے کا سکہ دکھایا اور کہا کہ کل پھر بلایا ہے۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا مگر ونود کا رنگے ہاتھ پکڑنے کا سپنا پورا نہ ہوسکا۔ وہ روزانہ نئی نئی ترکیبیں سوچ کر جاتا مگر اس کی بیوی کسی نہ کسی طرح دنیش کو بچالیتی۔ ونود اپنی بیوی کی حرکتوں سے عاجز آچکا تھا اور اس کی کوئی ترکیب کارگر بھی نہیں ہورہی تھی، چنانچہ اس نے ایک خطرناک فیصلہ کرلیا آج گھر میں گھستے ہی اس نے بجائے تلاشی لینے کے پورے گھر میں پیٹرول چھڑکنا شروع کردیا۔ بیوی ساتھ ساتھ ہائے توبہ مچاتی رہی، مگر ونود نے ایک نہ سنی اور صاف صاف کہہ دیا کہ میں اپنے مکان کو آگ لگا رہا ہوں تو تمھیں کیا پریشانی ہے۔ ونودنے پورے مکان کو آگ کے حوالے کردیا اور واپس اپنی دکان پر آکر چین کی سانس لی۔ ابھی ونود پوری طرح سکون بھی حاصل نہ کرپایا تھا کہ سامنے سے دنیش آتا دکھائی دیا۔ اس سے پہلے کہ ونود اس سے کچھ معلوم کرتا، دنیش خود ہی بتانے لگا کہ آج بہت برا ہوا اس کے شوہر نے پورے گھر کو جلا کر خاک کردیا۔ ونود تو تم آج گئے نہیں تھے، ارے گیا تو تھا مگر آج موت بالکل قریب سے نکل گئی۔ کیسے؟ کیسے کیا اس نے بیوی کے روکنے کے باوجود پورے گھر کو آگ لگادی۔ جب دونوں میں تکرار ہوئی تو اس نے اپنے مکان کا حوالہ دے کر کہا میں کچھ بھی کروں میرا مکان ہے۔اس لڑائی میں اس نے بڑے صندوق کو اپنے میکے کا بتاکر صحن میں کھینچ لیا تھا ورنہ آج میں تمہارے سامنے نہ ہوتا۔ اور بے چارہ ونود صرف دل ہی دل میں یہ شعر پڑھ کر رہ گیا کہ
بہلا نہ دل نہ تیرگیٔ شام غم گئی
یہ جانتا تو آگ لگاتا نہ گھر کو میں
ونود اپنی بیوی کو اس کے میکے چھوڑ آیا اور کافی دنوں تک اس نے بیوی کی کوئی خبر نہ لی۔ جب سسرال والوں کی طرف سے بار بار لے جانے کا تقاضا ہوا تو ونود نہ لے جانے کا کوئی صحیح بہانا بھی نہ بتاسکا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ میں دنیش کو اپنی سسرال لے جاکر اس کی زبانی پوری کہانی سناؤں تاکہ وہ لوگ خود ہی پھر میرا پیچھا چھوڑ دیں کیونکہ وہ لوگ خود سنیں گے تو حقیقت خود بہ خود ان کے سامنے آجائے گی۔ اور پھر وہ لوگ لے جانے کا تقاضا بند کردیں گے۔ چنانچہ ونود اپنے دوست کو اپنی سسرال لے گیا اور سب گھر والوں کے سامنے اس نے اپنی وہ سونے کے سکہ والی آپ بیتی سنانے کی ضد کی۔ دنیش نے مزے لے لے کر اپنی کہانی سنانی شروع کردی جب وہ مکان میں آگ تک پہنچا تو اسے سامنے پردے کے پیچھے سے کوئی ’’نہ‘‘ اور چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے دکھائی دیا۔ دنیش کو فوراً تمام حالات کا اندازہ ہوگیا اور اس نے خاموشی اختیار کرلی۔ ونود اور تمام گھر والوں نے اصرار کیا کہ آگے بتاؤ کیا ہوا، دنیش نے کہا پھر کیا ہونا تھا میری آنکھ کھل گئی۔ ——