شاہ قلقل مینا

حامد علی اختر

متعلقہ مضامین

سوتن

حضرت شاہ قلقل مینا کا بچپن سے ہی پسندیدہ موضوع ’’عورت‘‘ رہا ہے، وہ ہمیشہ اسی غوروفکر میں رہے کہ ’’عورت‘‘ کا بغور مطالعہ کرکے دنیا کے مردوں کو بتائیں کہ عورت پر مرد کس طرح فتح پاسکتا ہے کیونکہ عورت حضرت شاہ قلقل مینا کے نزدیک ہمیشہ سے مرد پر غالب رہی ہے اور اسی کی بدولت وہ حضرت آدمؑ کو جنت سے نکلوانے کا سبب بنی۔ حضرت کے مطابق مرد کی جب بھی ذلت و رسوائی ہوتی ہے، اس کے پیچھے عورت ہی کی مہربانیاں کرم فرما ہوتی ہیں۔ جہنم میں مردوں کی تعداد میں اضافہ کا سبب بھی وہ عورت ہی کو مانتے ہیں، وہ نہ جانے کتنی ایسی داستانیں سناتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں بھی مرد نے عورت کا کہنا مانا وہ بے چارہ تباہ و برباد ہوا۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ دنیا میں تمام مرد عورت سے ڈرتے ہیں وہ اس کے ثبوت کے طور پر ایک بادشاہ کا قصہ بھی سناتے ہیں کہ اس بادشاہ نے اپنے ملک کے تمام مردوں کو اپنے دربار میں اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ جو مرد بھی اپنی عورت سے نہ ڈرتا ہو وہ ہاتھ اٹھائے۔ پورے مجمع میں ایک ہاتھ بادشاہ کو اٹھا ہوا دکھائی دیا، اسے پاس بلا کر بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ آپ کون ہیں، اس نے کہاں میں خان ہوں اور میں اپنی بیوی سے بالکل نہیں ڈرتا۔ بادشاہ کو بڑا تعجب ہوا مگر اس کے دعویٰ کو سچ مان کر اسے ایک سفید گھوڑا انعام میں دے دیا۔ خان خوش ہوتا ہوا گھوڑا لے کر گھر پہنچا۔ بیوی نے خوشی اور گھوڑے کا راز پوچھا تو خان نے پورا واقعہ بتایا۔ بیوی نے برا سا منہ بناکر کہا چلو جو کر آئے وہ تو ٹھیک ہے، مگر تمھیں اتنی بھی عقل نہیں ہے کہ گھوڑا کالا ہونا چاہیے تھا۔ جاؤ اور بادشاہ سے گھوڑا بدل کر لاؤ۔ بے چارہ خان بے چون و چرا واپس آکر بادشاہ سے بولا ہمارا بیگم بولتا ہے کہ گھوڑا کالا ہونا چاہیے۔بادشاہ نے نہ صرف یہ کہ سفید گھوڑا رکھ لیا بلکہ خان کو جھوٹ بولنے کی سزا بھی دی۔
حضرت شاہ قلقل مینا بچپن سے لیکر جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک اسی غوروفکر میں رہے کہ عورت کو کس طرح سے زیرِ دام کیا جاسکتا ہے۔ وہ اپنی اس کوشش میں عمر کے قیمتی ۶۵ سال لگانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے فارمولوں پر عمل کرکے مرد عورت پر فتح پاسکتا ہے۔ وہ اپنی پوری زندگی کی کمائی یعنی عورت پر ریسرچ کی پوری آپ بیتی ایک گٹھری میں لیے اپنے وطن واپس آرہے تھے۔ حضرت بہت خوش تھے کہ میں اپنی اس ریسرچ کو دنیا کے سامنے لاؤں گا اور مردوں کو عورتوں کے چنگل سے آزاد کرواؤں گا نیز یہ کہ دنیا میں عورت کو سمجھنے والا پہلا انسان بھی میں ہی قرار پاؤں گا۔ حضرت حسین سپنے سجائے ہوئے اپنے وطن کی طرف رواں دواں تھے کہ راستے میں ایک گاؤں پڑا۔ گاؤں کے باہرہی ایک کنواں تھا، حضرت کو شدت کی پیاس لگی ہوئی تھی، کنواں دیکھ کر خوش ہوئے۔ پانی پینے کے لیے جیسے ہی کنویں کے پاس پہنچے ایک جوان لڑکی کنویں پر پانی بھرنے آئی۔ حضرت نے اس سے پانی پلانے کی درخواست کی، لڑکی نے پانی پلایا مگر لڑکی کی نظر جیسے ہی حضرت کی پوٹلی پر پڑی لڑکی نے معلوم کیا، اس میں کیا ہے؟ حضرت نے فخریہ انداز میں پوری روداد سنائی۔ لڑکی نے سن کر کہا۔ اچھا تو تم دنیا کو بتاؤ گے کہ کیسے عورت پر راج کیا جاسکتا ہے؟ جلدی سے اس گٹھری کو کنویں میں پھینک دو ورنہ میں ابھی تمھیں ٹھیک کرواتی ہوں۔ حضرت نے کڑی محنت سے تمام چیزیں اکٹھی کی تھیں، وہ نہ مانے۔ لڑکی نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ حضرت نے دیکھاکہ گاؤں والے لاٹھی ڈنڈے لے کر دوڑے آرہے ہیں۔ لڑکی نے کہا ابھی موقع ہے اس گٹھری کو کنویں میں پھینک دو ورنہ بعد میں جو حالات ہوں گے اس کے آپ خود ذمہ دار ہوں گے اور میں پھر چاہتے ہوئے بھی آپ کی کوئی مدد نہیں کرپاؤں گی۔ حضرت نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جان بچانے میں ہی عقلمندی سمجھی اور فوراً گٹھری کنویں میں پھینک دی۔ گاؤں والے جب کنویں کے پاس پہنچے اور حضرت پر حملہ آور ہونا چاہا تو فوراً لڑکی بیچ میں آگئی اور بولی ارے ارے تم حضرت کو غلط سمجھ رہے ہو۔ میرے چلانے کی وجہ حضرت نہیں ہیں، بلکہ وہ سانپ تھا، جو حضرت کی وجہ سے بھاگ گیا اور حضرت تو فرشتہ ہیں، فرشتہ۔ آج یہ وقت پر نہ آتے تو سانپ مجھے ڈس ہی لیتا۔
حضرت شاہ قلقل مینا کا سارا تجربہ و تجزیہ خاک میں مل چکا تھا۔ اور وہ اپنی زندگی کے قیمتی ۶۵ سال کو یوں ہی ضائع ہوتا ہوا محسوس کررہے تھے کیونکہ آج وہ پھر اسی نتیجے پر پہنچے تھے کہ ؎
یہ معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
——