ترقی ہی ترقی

الطاف حسین جنجوعہ

جموں وکشمیر تنظیم ِ نوقانون 2019کے اطلاق کو چار سال مکمل ہونے کو ہیں۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ اِن سالوں میں صرف ترقی ہی ترقی ہوئی ہے۔اچھا ہی اچھا ہوا ہے اور پچھلے ستر سالوں میں پہلی بار ہوا ہے۔ذرائع ابلاغ پرہرسوںآپ کو ترقی اور حصولیابی کی مفصل خصوصی رپورٹیں پڑھنے، سننے کو ہی ملتی ہیں۔ترقی، خوشحالی کی خبر تو نمایاںسُرخی کے ساتھ مستقل صفحہ اول پر ہے۔ اِس میں آپ کو پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں یکسوئی بھی دکھائی دے گی ، البتہ انداز اپنا اپنا ہوسکتا ہے۔ جو ترقی کی بات کرتا ہے اُسی کی ترقی ہورہی ہے۔
آپ نے اگر مشاہدہ کیا ہوا تو چند برس سے حکومتی وانتظامی سطح پر منعقد ہونے والی تقریبات کا انداز ہی بالکل بدل چکا ہے۔ ہر پروگرام کو بہترین شو کے طور پیش کرنے کے لئے شاہی انتظامات ہوتے ہیں۔ پہلے جس محکمہ کی تقریب ہوتی تھی، اُسی کے متعلقہ ذمہ داران اِس کا انتظام وانصرام کرتے تھے مگر اب بڑے پروگراموں کے باقاعدہ ٹھیکے الاٹ ہوتے ہیں اور یہ ٹھیکے اپنے اور خاص کو ملتے ہیں، جن کی ترقی ہی ترقی ہورہی ہے۔
ایک انقلابی قدم اُٹھاتے ہوئے 1050سے زائد خدمات کو آن لائن کر دیاگیا جس کے لئے پہلے آپ کو متعلقہ دفاتر میں جانا پڑتا تھا۔ اب آپ گھر بیٹھے یا پھر کسی کمپیوٹر وانٹرنیٹ چلانے والے کے پاس جاکر یہ کام کرواسکتے ہیںلیکن کام کی رفتار صرف اُنہی کے لئے ہے جواثر رسوخ بھی رکھتے ہیں ۔و ہ آن لائن اپلائی کر کے اُس کا ریفرنس نمبر متعلقہ حکام کو بذریعہ وہاٹس ایپ کر کے طے شدہ چائے پانی کے ساتھ بھیج دیتے ہیں تو کام بہت جلد ہوجاتا ہے ۔غریب ، بے سہاراافرد اور سادہ لوح لوگوں کے لئے آف لائن یا آن لائن سے ہنوز کوئی زیادہ فرق پڑا نہیں۔ اُن کے کام کی رفتار اُسی طرز ِ عمل سے چل رہی ہے۔
ایک بڑی ترقی یہ ہوئی ہے کہ پچھلے آٹھ ماہ کے زائد عرصہ سے عمر رسیدہ افراد، بیواؤں، معذوروں کو محکمہ سماجی بہبود کے ذریعے جومبلغ ایک ہزار روپے ماہانہ پنشن ملتی تھی، وہ بند ہے۔ جانچ پڑتال ،کانٹ چھانٹ کا عمل اتنا طویل ہوگیاکہ کئی بزرگ تو پنشن ملنے کے انتظا ر میں دُنیا سے چلے گئے۔ آ پ اگر گاؤں میں کسی بھی بزرگ یا بیوہ کا حال چال پوچھنے جائیں یا کہیں اتفاقیہ ملاقات ہوجائے تو اُن کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ پنشن کب تک ملے گی؟۔ارباب ِ حل وعقد کا کہنا ہے کہ ہزاروں لوگ غیر مستحق اورفرضی پنشنرز تھے، اب اِن سب کی کانٹ چھانٹ کر کے بڑی ترقی کی گئی ہے۔
سال 2005کو ملک بھر میں متعارف ’مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانتی قانون‘کے تحت گاؤں سطح پر محنت کشوں کو سال میں سو دن روزگار کی ضمانت دی گئی ہے۔اس قانون کے تحت اس وقت اوسطاًہر پنچایت میں سالانہ 50سے 60لاکھ روپے آرہے ہیں ۔پچھلے دس تاپندرہ سال کی یہ مجموعی طور رقم کروڑوں میں بنتی ہے جس سے تو گاؤں میں بہترین راستے، نالیاں، گلے کوچے اور دیگر اہم کام ہوجانے چاہئے تھے ، مگر زمینی سطح پر اِسقدر کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ ہاں اس ضمن میں اگر ہوئی ترقی کو دیکھنا ہے تو آپ اپنے اپنے علاقوں میں منریگا کے تحت تعینات عملہ خاص کر گرامین روزگارسیویک (جی آر ایس )،ڈاٹا انٹری آپریٹرکو دیکھ کر بخوبی انداز لگاسکتے ہیں۔ اِن کوماہانہ 7500سے 10ہزار روپے اُجرت سرکار کی طرف سے ملتی ہے لیکن کس تیز رفتار سے انہوںنے ترقی کی منازل طے کی ہیں، وہ اِن کے اعلیٰ شان مکانات، برینڈیڈ گاڑیوں اورغیر منقولہ ومنقولہ اثاثہ جات سے پتہ لگ سکتا ہے ۔اِنہوں نے تو ترقی کے ریکارڈ ہی نہیں توڑ ے بلکہ پٹواری جس کا خاص مقام اور رتبہ گاؤں سطح پر ہوتا تھا، کو بھی مات دے دی ہے۔ گاؤں سطح پر قدردانوں کی فہرست میں جی آر ایس موصوف صف ِ اول پر ہیں۔
بیروکریسی کی ترقی ہی ترقی ہورہی ہے۔ سنگل ونڈوسسٹم سے وہ بلاخلل فائلیں اور کام نپٹارہے ہیں۔ اُنہیں کسی کے آگے پوچھ ہے نہ احتساب، البتہ کام کی رفتار ’چائے کے ذائقہ اور مٹھاس‘پر مبنی ہے۔پہلے اُنہیں عوام کے چنے ہوئے نمائندوں سے مشورے کر کے فیصلے لینے پڑتے تھے، اب تو فیصلہ سازی، منصوبہ سازی میں وہ اپنی لیاقت کا بلاروک ٹوک مظاہرہ کررہے ہیں اور زمینی سطح پر فیصلوں کو عملی جامہ بھی شاندار طریقہ سے کروارہے ہیں۔ یہ ترقی ہی تو ہے۔
جموں صوبہ میں اگر آپ ندی، نالوں، دریاؤں کے قریب سے گذریں تو ایک ترقی اور آپ کو واضح نظر آئے گی کہ کھڈے ہی کھڈے ہیں۔ جگہ جگہ جے سی بی مشینیں لگی ہیں جوکہ دھڑا دھڑ ڈمپر اور ٹپروں پر ریت وبجری نکال کر لوڈ کر رہی ہیں۔چار برس کے دوران جے سی بی مشینوں میں جنہوں نے سرمایہ کاری کی ہے، اُنہوں نے کافی ترقی کی ہے اور اِس ترقی میں اُن کے شانہ بشانہ چلنے والی سول وپولیس انتظامیہ کی بھی ترقی ہوئی ہے، ہورہی ہے۔گاؤں سطح پر موجود سڑکوں پر بلیک ٹاپنگ بھی ہورہی ہے ۔گاؤں میں لوگ تو اس بات پر ہی خوش ہیں کہ تار کول تو بچھی۔ اسی خوشی سے ٹھیکیدار بھی خوش ہیں جنہیں قواعد وضوابط اور معیار کی فکر نہ رہی اور خوب ترقی کی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ چند ماہ میں بلیک ٹاپنگ اُکھڑنا بھی شروع ہورہی ہے،مگر اس میں بھی ترقی کا راز ہی مضمر ہے۔
انتظامیہ نے اپنوں اور ترقی کی بات کرنے والوں کی خوب ترقی کی ہے۔جموں وسرینگر شہرؤں کی دیواروںپر پینٹنگ، راستوں ، گلی کوچوں میں ٹائلنگ بچھانے والوں اور اِ ن کو آشروارد دینے والوں کی کتنی ترقی ہوئی ہے، آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔یہ تو کچھ مثالیں تھیں نظر آنے والی ترقی کی، باقی اعلیٰ سطح پر ایسی ترقی ہوئی ہے جو عام لوگوں کے وہم وگمان میں بھی نہیں…………
تیزر رفتار انٹرنیٹ سے بڑی ترقی ہوئی ہے کہ پہلے جائزہ اجلاس کے لئے بڑے یوٹی یا صوبائی سطح کے عہدیداران کو جائزہ میٹنگوں کے لئے ضلع یا تحصیل سطح پر جاتی تھی، اب ویڈیو کانفرنس کے ذریعے جہاں بیٹھے ہیں، وہیںسے رابطہ کر کے بات ہوتی ہے۔ بہت بڑی پیش رفت ہے۔نیٹ کی رفتار تیز ہونے کی وجہ سے آن لائن ویڈیو کانفرنس میٹنگوں میں طوالت بھی ہے اور تسلسل میں۔ اب ہر روز دو تین میٹنگوں کے شیڈیول ہوتے ہیں۔مرکز سے لیکر بلاک سطح تک انتظامی مسلسل آپسی رابطے میں ہے۔ البتہ عوام اور انتظامیہ کے درمیان دوری بڑی ہے۔ کئی علاقوں میں تو لوگوں کو اپنے افسران کے ہفتوں دیدار بھی نصیب نہیں ہوتے کیونکہ موصوف آن لائن ہوتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
کالم نویس جموں وکشمیر ہائی کورٹ میںوکیل ہیں