اجتماعات وابستگان کو نیا عزم و حوصلہ عطا کرتے ہیں

سراج الدین ندوی

جماعت اسلامی ہند نے اپنے ارکان کو آواز لگائی کہ وہ سب 15؍ تا 17؍ نومبر2024کو حیدرآباد کی وادئی ہدیٰ میںجمع ہوں۔اس لیے جماعت اسلامی کے ارکان اس جانب رواں دواں ہیں ۔ہمارا یہ اجتماع کسی کے خلاف نہیں ہے ۔ہم کوئی قلعہ فتح کرنے نہیں جارہے ہیں ،بلکہ اپنے اس سبق کو دہرانے جارہے ہیں جو قائد تحریک مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے 1941میں پڑھایا تھا ۔ہم وقفہ وقفہ سے اس کی یاددہانی کے لیے جمع ہوتے ہیں اور ایک نئی امنگ و حوصلہ کے ساتھ میدان کارزار میں واپس جاتے ہیں ۔یہاں بھی ہم دنیاوی مشاغل کے سبب سرد پڑنے والے جوش کو نئی طاقت دینے کے لیے آرہے ہیں ۔اپنا احتساب کرنے کے لیے جمع ہورہے ہیں ۔ہم دیکھنے آئے ہیں کہ اقامت دین کی منزل ابھی کتنے گام باقی ہے ۔میں بھی اپنے رفقاء تحریک کے ساتھ محو سفر ہوں ۔جی چاہتا ہے کہ میرے پر لگ جائیں اور پلک جھپکتے ہی وادی ہدیٰ حیدرآباد پہنچ جائوں ۔مگر کیا کہیے منزل جس قدر قریب آرہی ہے ،شوق جس طرح انگڑائیاں لے رہا ہے ،ٹرین کی رفتار بجائے بڑھنے کے کم ہوتی جارہی ہے ۔اپنے وقت سے چار گھنٹے لیٹ ہوگئی ہے ۔یہ بھی شاید ہمارا امتحان ہے ،اس سے صبر و تحمل کی صفت میں اضافہ ہوتا ہے ۔خیر وہ وقت بھی آ گیا جب ہم اپنے مطلوبہ اسٹیشن پر اتر گئے ہیں ۔پلیٹ فارم پر ہی استقبالیہ کائونٹرلگے ہیں ،جہاں شاہین صفت نوجوانان خیر مقدم کررہے ہیں ۔ہمارا سامان اٹھا کر لے جارہے ہیں اور ان کی رہنمائی میں ہم اس بس میں سوار ہوگئے ہیں جو ہمیں اجتماع گاہ لے جانے کے لیے ہماری منتظر تھی ۔ہم بیٹھے ہی تھے کہ اس نے چلنا شروع کردیا ہے ۔حیدرآباد کے مختلف علاقوں سے گزرتی ہوئی شاہ راہ اجتماع پر آگئی ہے ۔دور دور تک خیر مقدمی بینرس آویزاں ہیں ۔لگتا ہے پورا شہر ہمارے استقبال کو آنکھیں بچھائے ہے ۔
ہم اپنی قیام گاہ کی طرف بڑھے ۔درمیان میں ایک وسیع و عریض آڈیٹوریم نظر آیا ۔جس پر لکھا تھا ’’ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ آڈیٹوریم‘‘یہ واٹر پروف بنایا گیا تھا ۔بڑا سا اسٹیج قیادت کی کشادہ قلبی کا مظہر تھا ۔جی چاہتا تھا کہ قیام گاہ سے پہلے یہیں چند منٹ بیٹھ لیاجائے اور اس کی دیدہ زیبی سے آنکھوں کو ٹھندا کیاجائے ۔مگر نظم کا تقاضا تھا کہ پہلے قیام گاہ جایا جائے اور وہاں اپنا سامان رکھ کر اطمینان سے یہاں بیٹھا جائے ۔چنانچہ ہم آگے بڑھے ۔قیام گاہ میں سامان رکھا ۔فریش ہوئے اور اپنے معمولات میں مشغول ہوگئے ۔
اس اجتماع کے بیجز ہمیں پہلے ہی فراہم کردیے گئے تھے ۔البتہ ہمیں داخلی دروازے پر اپنی آمد درج کرانا تھی سو وہ ہم کرا چکے تھے ۔اجتماع گاہ کی ہر چیز میں حسن و جاذبیت اور سلیقہ و تہذیب تھا۔نماز گاہ انتہائی نفیس تھی ۔سات محرابیں بنائی گئیں تھیں ۔اسی سے ملحق بلندی پر بیت المقدس کا گنبد بنایا گیا تھا تاکہ شرکاء کے اندر اس کی بازیابی کا جذبہ بیدار ہو اور وہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے لیے حسب استطاعت کچھ کرسکیں کچھ نہ سہی ان کے لیے فلاح و کامرانی کی دعائیں مانگ سکیں ۔ایک جانب مختلف حلقوں کی قیام گاہیں تھی ،حسب دستور جنوب و شمال کی الگ الگ طعام گاہیں تھیں ،جہاں ان کے ذوق کے مطابق مینو تھا اور کیا امیر کیا مامور سب ایک ہی صف میں کھڑے تھے ۔ہم نے دیکھا کہ امیر جماعت ،نائب امراء اور سکریٹریز بھی اسی قطار میں تھے جس میں عام ارکان جماعت کھڑے تھے ۔جماعت اسلامی ہند کا یہ وہ خوبی ہے جو اسے دوسری دینی تحریکوں سے ممیز کرتی ہے ۔دیگر جماعتوں میں امراء و نائبین کے لیے نہ صرف طعام گاہ الگ ہوتی ہے بلکہ مینو میں بھی فرق رہتا ہے۔ ایک جانب جماعت اسلامی ہند سے وابستہ اداروں کے اسٹال تھے ۔غیر جماعتی اداروں کو الگ جگہ فراہم کی گئی تھی ۔اس اجتماع میں ’’ ادراک شو‘‘ کے عنوان سے بھی ایک پنڈال تھا ۔یہاں مختلف چارٹوں ،ویڈیوز اور دیگر سمعی وبصری ذرائع کی مدد سے جماعت اسلامی ہند کی کارکردگی کی نمائش کی گئی تھی ۔راہ حق کے ان مسافروں کا تعارف کرایا گیا تھا،جنھوں نے اپنی منزل مراد پالی تھی ۔خدمت خلق کے کاموں کو الگ الگ انداز سے پیش کیا گیا تھا ۔
اجتماع میں مقررین کے موضوعات جدید چیلینجز سے ہم آہنگ تھے ۔مقررین بھی الحمد للہ پوری تیاری سے آئے تھے ۔انھوں نے موضوع کا حق ادا کیا تھا اور شرکاء کی آمد کو کامیاب بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی ۔چونکہ یہ ارکان کا اجتماع تھا ۔اس لیے مین آڈیٹوریم میں صرف ارکان ہی داخل ہوسکتے تھے ۔خواتین ارکان کے ساتھ بعض ایسے محرم آئے تھے جو رکن نہیں تھے یا بزرگ و معذور ارکان کے ساتھ معاونین آئے ہوئے تھے ۔ ان کے بھی متوازی پروگرام رکھے گئے تھے ۔یہ بھی اس اجتماع کی خصوصیت تھی ورنہ ماضی میں محرم حضرات اپنا وقت سیر و تفریح میں گزار دیتے تھے ۔مجھے بھی غیر ارکان کی مجلس سے خطاب کا موقع ملا ۔خواتین ،جی آئی او،اور ایس او سے وابستہ افراد نیز جماعت کے مختلف شعبہ جات کی بھی متوازی نشستیں حسب معمول ہوئیں ۔
پہلے دن کی شب میں ادارہ ادب اسلامی ہند کی جانب سے مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا تھا ۔جس میںبیس شعرائے کرام نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ۔میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ادارہ ادب اسلامی کے صدر و سیکریٹریز اور شعرائے کرام اپنی مخصوص نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔سامعین کی ایک بڑی تعداد کے لیے بھی کرسیاں تھیں ،لیکن کچھ سامعین کرسیاں موجود نہ ہونے کے سبب فرش پر بیٹھ کر ہی لطف اندوز ہورہے تھے ۔ زمین پر بیٹھنے والوں میں محترم امیر جماعت اسلامی ہند انجینئر سید سعادت اللہ حسینی بھی تھے جو مکمل یکسوئی کے ساتھ مشاعرے کی کارروائی دیکھ رہے تھے ۔آج اس بات کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ایک آل انڈیا جماعت کا امیر اپنے رفقاء کے درمیان زمین پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کے مامورین کرسیوں پر براجمان ہیں ۔دوسری دینی تحریکوں میں تو حضرت والا کے لیے اسٹیج پر مخصوص قسم کی کرسی ڈالی جاتی ہے ۔البتہ اس طرح کے مناظر اوراق سیرت اور صحابہ کرام کی زندگیوں میں ضرور ملتے ہیں۔امیر جماعت کو زمین پر بیٹھا دیکھ کر میری زبان سے بیساختہ نکلا:’’اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا‘‘اوریہ منظر دیکھ کرمیری آنکھیں نم ہوگئیں ۔
امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی صرف ایک جماعت کے امیر ہی نہیں ہیں ،بلکہ وہ ایک مفکر ،ولولہ انگیز مقرر،ایک صاحب طرز انشاپرداز اور عظیم دانشور ہیں ۔ان کے خطابات بھی بہت پر اثر تھے ،خاص طور پر ان کا اختتامی خطاب دلوں کو جھنجھوڑدینے والا تھا ،اس میں انھوں نے نہ صرف ہمیں ہماری ذمہ داریاں یاد دلائیں ،بلکہ مستقبل میں سرگرم رہنے کے لیے مہمیز بھی کیا۔وابستگان کے لیے بھی ایک عمومی پروگرام تھا اس میں بھی امیر جماعت کا خطاب ولولہ انگیز ،حیات آفریں اور دلوں کو گرمانے والا تھا ۔محترم امیر کی دعا پر ہی یہ اجتماع اختتام کو پہنچا ۔دعا کیا تھی ،مضطرب دل کی مناجات تھی جو براہ راست دربار الٰہی میں پیش کی جارہی تھی ۔کون سی آنکھ تھی جو ان کی دعا پر نم نہیں تھی ۔کون سا دل تھا جو اس دعا پر سردھڑ کی بازی لگانے کے لیے گدگدانہیں رہا تھا اور کون سی زبان تھی جس پر آمین اور ثم آمین کی صدا نہیں تھی ۔
وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا ۔تین دن کب گزر گئے معلوم ہی نہیں ہوا ۔اجتماع اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔میں نے پوری کوشش کی کہ ہر لمحہ کا صحیح استعمال کروں ۔میں نے وقفوں میں بھی آرام نہیں کیا ۔بلکہ مختلف حلقہ جات کی قیام گاہوں میں جاکر اپنے شناسارفقاء سے ملاقاتیں کیں ۔بعض نئے احباب سے بھی تعارف حاصل کیا ۔ملت پبلی کیشن بجنور کا بھی ایک اسٹال عزیزی محمد ذوالفقار ندوی اور قاری گوہر صاحب نے لگایا تھا ۔کچھ وقت وہاں بھی بیٹھا ۔اسٹال پر آنے والے رفقاء سے ملاقاتیں کیں ،کتنے ہی احباب نے مجھ سے اس طرح مصافحہ کیا جیسے کہ وہ مجھے مدت سے جانتے ہوں ۔حالانکہ میں ان کو نہیں پہچان رہا تھا ۔معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض لوگ وہ تھے جو ماہنامہ اچھا ساتھی کی نسبت سے مجھے جانتے ہیں ،ان میں کچھ میرے قدیم شاگرد بھی تھے ،ایک طویل مدت بعد اور تحریکی کارواں میں شامل ان کو دیکھ کر ایسی خوشی ہوئی جو اس باپ کو حاصل ہوتی ہے جس کا کھویا ہوا بیٹا مل جاتا ہے ۔بعض افراد وہ تھے جو میری تحریر کردہ درسیات سے مستفید ہوئے ہیں ،کچھ وہ تھے جنھوں نے میری غیر درسی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور ایک تعداد وہ بھی تھی جو اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین سے فیض یاب ہوئی ہے ۔یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے مجھے قلم و تحریر کی نعمت عطا فرمائی اور میں نے اپنی صلاحیتوں کو اس کے کلمہ کی سربلندی کے لیے وقف کردیا ۔اللہ تعالیٰ میری ان حقیر کوششوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
اجتماع ختم ہوگیا ہے ۔کارواں واپس ہونے لگے ہیں ۔وادی ہدیٰ کی یہ بستی جسے تحریک کے جیالوں نے کئی ماہ کی محنت شاقہ سے بسایا تھا اب اپنے ہدف کو حاصل کرچکی ہے ۔تحریک کا ہر سپاہی اپنے ظرف کے مطابق عزم و حوصلہ کے ذخائر لے کر’’پھر ملیں گے اگر خدالایا ‘‘کے وعدوں اور نم آنکھوں سے رخصت ہورہا ہے ۔ہم نے بھی اپنا رخت سفر سمیٹ لیا ہے ۔
ہم نے نماز فجر ادا کی اور اسٹیشن کی جانب روانہ ہوئے ۔ٹرین میں بیٹھ گئے۔ زوردار سیٹی بجی اور ٹرین نے دہلی کی جانب اپنا سفر شروع کردیا ہے ۔جاتے وقت دوران سفر رفقاء تحریک ماضی کے اجتماعات کے تذکروں میں مصروف تھے اور واپسی کے سفرمیں موجودہ اجتماع کی خوبیوں پر روشنی ڈال رہے تھے ۔ہر شخص انتظامات سے مطمئن تھا ۔اس بات پر اللہ کا شکر ادا کررہا تھا کہ پورا اجتماع امن و سکون کے ساتھ گزرگیا ۔کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا ۔یوں تو انسانی کاموں میں بہت سی فروگزاشتیں رہ ہی جاتی ہیں ۔جنھیں ہمیں بھی نظر انداز کرنا چاہئے اور اللہ بھی معاف کرنے والا ہے ۔اللہ تعالیٰ منتظمین کو اجر عظیم عطا فرمائے اور شرکاء اجتماع کوحوصلہ و ہمت بخشے۔آمین