عبدالغفاردانش کے مجموعہ غزل ’حسرتوں کی دنیا‘کی تقریب رسم اجرا اور محفل شعرو ادب کا انعقاد

نورپور:حسن اور کمال جب ایک جگہ جمع ہوکر الفاظ کا جامہ پہنتے ہیں تو شعر کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔شاعری اور شعور کا مادہ ایک ہی ہے ۔اسی لیے شاعر سماج کا سب سے باشعور انسان ہوتا ہے ۔ایک شاعر دو مصرعوں میں نہ صرف اپنی بات کہتا ہے ،بلکہ اس میں جذبات و احساسات کی روح شامل کرکے اپنی بات کو حیات دوام عطا کرتا ہے ۔شعری محفلیں ہماری تہذیب و ثقافت کونئی زندگی عطا کرتی ہیں ۔ان خیالات کا اظہارڈاکٹر سراج الدین ندوی چیر مین ملت اکیڈمی بجنورنے اپنے صدارتی کلمات میں کیا۔وہ عبدالغفار دانش نورپوری کے مجموعہ کلام ’حسرتوں کی دنیا ‘ کی رسم اجراء کے موقع پر منعقدہ مشاعرہ کی صدارت فرمارہے تھے ۔مشاعرے کے مہمان خصوصی ڈاکٹر احتشام تشنہ علیگ نے حسرتوں کی دنیا کی اشاعت پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ دانش نورپوری کے کلام کو پڑھنے کے بعد قاری نہ صرف اچھی اور پراثرشاعری سے محظوظ ہوتا ہے ،بلکہ اس کے سامنے شاعر کی اخلاقی اور انسانی خوبیاں بھی ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔عبدالغفار دانش ایک اچھے شاعر کے ساتھ اچھے انسان بھی ہیں ۔اس موقع پر ماہنامہ صلاح کار کے نائب مدیر دلشاد حسین اصلاحی نے دانش نورپوری کی شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دانش پوری کی شاعری اپنے فنی محاسن سے بھرپور شاعری ہے ۔انھوں نے صرف غم حالات پر آنسو نہیں بہائے ہیں بلکہ ان کا علاج بھی تجویز کیا ہے ۔معروف نقاد شیخ ارشد نگینوی نے کہا کہ ’حسرتوں کی دنیا ‘عمیق تجربات ومشاہدات پر مبنی مجموعہ کلام ہے ۔اس میں غزل اپنے جملہ فنی محاسن کے ساتھ جلوہ گر ہے ۔امید ہے کہ دانش نورپوری کے پہلے نعتیہ مجموعہ ’ نور حرا‘ کی طرح غزلوں کا یہ مجموعہ بھی اہل علم سے پذیرائی حاصل کرے گا۔ماسٹر محمد اسلم چاندپوری نے اردو تعلیم کی اہمیت و افادیت پر متوجہ کیا۔مشاعرے کی نظامت منفرد لب و لہجہ کے شاعر علی اکرم نورپوری نے کی ۔محمد دانش ندوی نے مہمانوں کا استقبال کیا ۔سمیہ صدیقی اور افضل چاندپوری نے نعتیہ کلام پیش کیا ۔سامعین سے بھرپور داد پانے والے اشعار نذر قارئین ہیں۔
آج کے دور میں درپیش مسائل کے سوا
جان لیوا ہے تری زلف بھی انگڑائی بھی
احتشام تشنہؔ علیگ
اس وقت میری زندگی سکتہ میں آگئی
میری برائی جب میرے بیٹے میں آگئی
اکرمؔ نگینوی
جس سے کوئی بات نہیں کرتا ہوں میں
صبح و شام اسی کی باتیں کرتا ہوں
تہذیب ابرارؔ
یوں بھی غم فراق میں کاٹی ہے ہم نے رات
تکیہ نہیں رہا کبھی بستر نہیں رہا
شاہد انجم ؔ نگینوی
شکوہ برلب ہیں سب ظلمت دہر پر
رکھ کے جزدان میں روشنی کی کتاب
اشرفؔ شیرکوٹی
نہیں ہے کام رکنازندگی کا
اشارہ ہے یہی چلتی گھڑی کا
افضال ؔنجیب آبادی
جس کو دیکھو وہ چلا آتا ہے ڈیرہ ڈالنے
سوچتا ہوں اپنے دل کی چار دیواری کروں
علی اکرمؔ
شمار ہوگئے مردوں میں کتنے زندہ لوگ
حیات مل گئی کتنوں کو انتقال کے بعد
دانش نورپوری
ایسے جھوٹے حبیب پر تھو ہے
یعنی اس بدنصیب پر تھو ہے
لکھنے پڑھنے سے جو بچے اردو
ایسے شاعر ادیب پر تھو ہے
خالد گوہرؔ بجنوری
یوں تو ہوتے ہیں بہت بات بنانے والے
کم ہیں دنیا میں تعلق کو نبھانے والے
گرچرن سنگھ عزیزؔ
میں نے کل اک سپنا دیکھا
ان کو گھر میں آتا دیکھا
کاظم ؔ سہنسپوری
اتنا بڑھادیا ہے سیاست نے فاصلہ
اپنے پرائے کی بھی پہچان کچھ نہیں
اسرار الحق رازؔ
اک اہل دل کے ہاتھ میں، میں نے دیا جو ہاتھ
مجھ پر وفا کے راستے آسان ہوگئے
تائبؔ روانوی
یارب مری زباں ہو محبت کی ترجماں
باتوں سے میری زخمی کسی کا جگر نہ ہو
جوہرؔ نورپوری

مشاعرہ دیر رات تک جاری رہا ۔سامعین کی بڑی تعداد موجود رہی جن میں یوسف علی قریشی، ماسٹر محمد عارف صدیقی،ذوالفقارندوی،ماسٹر شہزاد عالم ،ایڈوکیٹ شمیم علوی ،ماسٹر شاہد صدیقی،ایڈوکیٹ زاہد حسین ،ماسٹر اشونی کمار یادو،ایڈوکیٹ خبیر انصاری،مولانا مسعود جمال قاسمی ،مولانا ساجد قاسمی ،ماسٹراکرم صدیقی،ماسٹر حشم الدین ملک،انجینئر شفیق سیفی،ڈاکٹر خلیق الرحمان،ڈاکٹر تقدیس گلریز،قاری عبدالواحد،ڈاکٹر عابد حسین ،انجینئر محمد دانش،قاری محمد ارشاد صدیقی،حافظ محمد صائم ،حافظ عبداللہ صدیقی،ڈاکٹر راجیو کمار یادو،ماسٹر عبدالسمیع،حافظ نصیرالدین ،ماسٹر سرتاج عالم صدیقی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔