خواتین کی عصمت کے تحفظ کے لیے اترپردیش ویمنس کمیشن کی تجاویزخوش آئند

اگر یہی بات کسی مدرسہ یا اسلامی ملک سے کہی گئی ہوتی تو گودی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا

9897565066 عبدالغفارصد یقی

’’ریاست اتر پردیش میں ویمنس کمیشن نے خواتین کو ’’بیڈ ٹچ‘‘ سے روکنے کے لیے ایک تجویز پیش کی ہے۔ اس تجویز کے مطابق مرد ٹیلرس کو خواتین کے کپڑوں کا ناپ لینے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے اور نہ ہی مرد باربروں کو خواتین کے بال کاٹنے چاہیے۔ صدر ویمنس کمیشن ببیتا چیہتا نے کمیشن کے اجلاس میں یہ تجویز رکھی جس کی دیگر ارکان نے حمایت کی۔ 28 اکتوبر کو ویمنس کمیشن کا ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں کئی تجاویز پیش کی گئیں جن میں مرد ٹیلر کی جانب سے خواتین کا ناپ لینے اور کپڑوں کی سلوائی کی اجازت نہ دینے اور ٹیلر و باربر شاپ پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی تجویز کو منظوری دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں جم اور یوگا سنٹرس میں بھی مرد ٹریننگ نہیں دے سکیں گے۔ ابھی فی الحال یہ صرف ایک تجویز ہے لیکن بعد میں قانون بن سکتا ہے۔‘‘ یہ خبر اردو ،ہندی کے مختلف اخبارات میں شائع ہوئی ہے ۔البتہ سوشل میڈیا ،یوٹیوب چینلس اور ٹی وی چینل پر کم ہی نظر آئی ۔خواتین سے متعلق ہر موضوع پر مباحثہ کرنے والے چینلس خاموش ہیں ۔اس تجویز میں انھیں خواتین کی آزادی خطرے میں دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔نہ انھیں اس میں کسی قسم کی طالبانی بو محسوس ہورہی ہے۔کرناٹک میں حجاب کا معاملہ ہو یا دارالعلوم دیوبند میں خواتین کے داخلہ کا معاملہ، گودی میڈیا اور خواتین کی آزادی کا دم بھرنے والے آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں ۔ اس کی آڑ میںاسلام اور مسلمانوں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔مسلمان خواتین کی آزادی کی مہم چلائی جاتی ہے ۔جس کی قیادت خود ہمارے وزیر اعظم فرماتے ہیں ۔لیکن اترپردیش ویمنس کمیشن کی تجویز پر زبانیں گنگ ہیں ۔اس لیے کہ یہ تجویز جس ریاست سے آئی ہے وہاں ایک سنسکاری سرکار ہے ۔میں تہہ دل سے اس تجویز کا خیر مقدم کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس کو جلد از جلد قانونی شکل دی جائے ۔
انسان کی فطرت میں شرم و حیاء کا مادہ ودیعت کیا گیا ہے ۔اسی کے ساتھ مردو خواتین میں ایک دوسرے کے لیے کشش کا عنصر موجود ہے ۔کشش کا یہ عنصر انسان کو غیر اخلاقی حدود تک لے جاتا ہے ۔جہاں انسان حیوان بن جاتا ہے اور پھر وہی کچھ ہوتا ہے جس کے اندیشہ کے پیش نظر اترپردیش ویمنس کمیشن نے تجاویز پیش کی ہیں۔خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب کسی بنت حوا کی عصمت دری کا واقعہ نہ ہوتاہو۔اسکول ،کالج ،اسپتال ،سفر،کونسی جگہ ایسی ہے جہاں خواتین محفوظ ہیں ۔یہاں تک کہ مذہبی آشرم تک میں ان کی عزت لوٹ لی جاتی ہے ،جس کے جرم میں نہ جانے کتنے آشا رام جیل میں بند ہیں اور کتنے آزاد گھوم رہے ہیں ۔
اترپردیش ویمنس کمیشن کی مذکورہ تجویز انسانی فطرت کی رجوع کی جانب پہلا قدم ہے ۔خواتین کو صرف مرد ٹیلروں ،مرد باربروں اور مرد جم انسٹرکٹروں سے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ انھیں انسانوں کی جان بچانے والے ڈاکٹروں ،انسانیت کا درس دینے والے معلموں اور خداکی طرف بلانے والے مبلغوں سے بھی ہے ،انھیں مارکیٹ میں تاجروں ،تھانے میںپولس کانسٹیبلوں،بسوں میں کنڈکٹراور ڈرائیوروں یہاں تک کہ راہ چلتے بھکاریوں سے بھی خطرہ ہے ۔اس لیے کہ سرائے کالے خاں دہلی میں ایک لڑکی کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والوں میں ایک کباڑی ،ایک بھکاری جو پیروں سے معذور تھااور ایک آٹو ڈرائیور شامل تھا،یہ حادثہ دس یا گیارہ اکتوبر 2024کا ہے ۔ایسے میںضروری ہے کہ اترپردیش ویمنس کمیشن کی تجویز پر عمل کیا جائے اور اس کا دائرہ وسیع کیا جائے اور اختلاط مردو زن کے مواقع محدود کیے جائیں ۔خواتین کے اسکول کالج الگ قائم ہوں ،ان کے اسپتال الگ ہوں ۔
ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں خواتین کو بھی اپنا احتساب کرنا چاہئے ۔انھیں اپنی ساخت اور تخلیق پر غور کرنا چاہئے ۔اللہ نے انھیں جو حسن اور خوب صورتی عطا کی ہے سربازار اس کی نمائش نہیں کرنا چاہئے ۔اجنبی مردوں کے ساتھ دوستی کرنا ،ان کے ساتھ کلبوں میں جانااور دیر رات تک ان کے ساتھ رہنا خود دعوت گناہ دینا ہے ۔آج ہماری بیٹیاں جس لباس میں اسکول ،کالج یا آفس جارہی ہیں ،پراچین بھارت کی سبھیتا اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتی ۔مائوں کے سرپر دوپٹہ ہوتا ہے ،وہ برقعہ یا حجاب میں ہوتی ہیں اور ان کی بیٹی منداکنی اور ہیمامالینی کی صورت بنا کر گھر سے نکلتی ہے ۔
لڑکیوں کی عصمت دری یا عصمت فروشی کے لیے والدین بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں ۔ان کی جوان بیٹی ان کی آنکھوں کے سامنے سب کچھ کرتی ہے مگر ان کو نظر نہیں آتا ۔ان کے گھر میں جوان لڑکوں کی آمدو رفت ہوتی ہے ،ان کی لڑکیاں دیر رات تک دوستوں سے چیٹ کرتی ہیں،کزنس ایک دوسرے کے ساتھ غل گپاڑہ مچاتے ہیں ،لیکن وہ آنکھ بند کرکے رام نام میں مصروف رہتے ہیں ۔شیطان ان کی گھر کی عزت تار تار کررہا ہوتاہے اور ان کے ہاتھ میں لاٹھی ڈنڈے کے بجائے تسبیح کی مالا ہوتی ہے ۔
یوں تو سبھی مذاہب میں عورت کو عزت و احترام دیا گیا ہے ۔البتہ تحریف شدہ مذاہب سے درست اور صحیح معلومات اخذ کرنا بہت مشکل ہے ۔اسلام اس ذیل میں بہت مستحکم تعلیمات دیتا ہے جو ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتی ہیں،جہاں عورت کی جانب بری نیت سے دیکھنا بھی گناہ ہے۔حالانکہ کوئی بھی انسانی معاشرہ کلی طور پر اس معیار کو نہیں پہنچ سکتا جہاں کسی گناہ کا صدور ممکن ہی نہ ہو۔اس کے باوجود اکیسویں صدی کے ماڈرن زمانے میں جب مغرب نے عورت کو بنام آزادی جنس بازار بنادیا ہے اور وہ کہیں محفوظ نہیں ہے ،اسلام کا دامن رحمت اس کا محافظ ہے ۔خواتین بمقابلہ مغربی ممالک اور ان کی نقالی کرنے والوں کے مسلم ممالک میں زیادہ محفوظ ہیں ۔طالبان کو عورت کا دشمن کہنے والے ذرا افغانستان میں طالبان حکومت کے دوران عورت کے خلاف جرائم کا ریکارڈ چیک کریں انھیں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔
اترپردیش خواتین کمیشن نے جن تین پروفیشنس کا ذکر کیا ہے اگر غور کیا جائے تو ان کو استعمال کرنے والی خواتین کی تعدادملک میں شاید دو فیصد بھی نہ ہو۔عام طور پر خواتین اپنے کپڑے خود سیتی ہیں ،یا کسی خاتون سے سلواتی ہیں ،دوسری بات یہ کہ خواتین کو کپڑوں کا ناپ اس طرح شاذو نادر ہی دینا پڑتا ہے جس طرح مرد دیتے ہیں ،خواتین اپنا سلا ہوا لباس ناپ کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔یہی صورت حال جم کی ہے ۔جم کلچر حالانکہ اب دیہات تک پہنچ گیا ہے ۔اس کے باوجود صرف بڑے شہروں کی خواتین ہی جم کا رخ کرتی ہیں ۔یہ وہ خواتین ہیں جو اپنے گھر کا کام کرنا پسند نہیں کرتیں لیکن اپنی صحت بنانے کے لیے جم جانا پسند کرتی ہیں ۔اگر وہ گھر کے کام کاج کریں اور گھر میں ہی ہلکی پھلکی ورزش کریں تو جم جانے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔جہاں تک مرد باربروں کا سوال ہے تو یہ کلچر بھی میٹروپولٹین شہروں تک محدود ہے ۔اس کے علاوہ خواتین سیلون اور بیوٹی پارلر جگہ جگہ کھل گئے ہیں ۔یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ شہروں کے مقابلہ گائوں میں خواتین کی آبر و زیادہ محفوظ ہے ۔اسی طرح تعلیم یافتہ اور مال دار خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اورعصمت دری کے واقعات زیادہ رونما ہوتے ہیں ۔ان پڑھ اور غریب بیٹیاں اپنی ناموس کے ساتھ والدین کی عزت کا بھی خیال رکھتی ہیں ۔
اسلام ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کرتا ہے جہاں خوف خدا پایا جاتا ہو۔جہاں مرد وخواتین اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنا عبادت سمجھتے ہوں ۔اسی کے ساتھ اسلام مردو خواتین کو غض بصر کی تعلیم دیتا ہے۔اسلام یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ غیر محرم ایک دوسرے کے ساتھ تنہا نہ رہیں ،اسی کے پیش نظر تنہا سفر کرنے میں احتیاط برتنے کی ہدایت ہے ۔بلاوجہ گھر سے باہر نکلنے اور بازاروں اور پارکوں میں سیر سپاٹا کرنے کو بھی اسلام میں ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے ۔اسلام بلوغ کے فوراً بعدشادی کا حکم بھی عصمت کے تحفظ کی خاطر دیتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام خواتین کو صرف ان شعبوں میں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے جہاں ان کی موجودگی ضروری اور لازمی ہے ۔معاشی سرگرمیوں میں اسی حد تک ان کی شمولیت پسندیدہ ہے جس حد تک وہ خود محفوظ رہیں ،اس کے بجائے اسلام معاش کی ذمہ داری مردوں کے کاندھوں پر ڈالتا ہے ۔حصول علم کے سلسلہ میں اسلام خواتین پر کوئی پابندی نہیں لگاتا لیکن اس کے نزدیک علم سے زیادہ عورت کی عزت و ناموس بیش قیمتی ہے ۔عورت کے احترام اور عزت کی حفاظت کے مقصد کے لیے ہی اسلام جنسی جرائم پر سخت سزائوں کا اہتمام کرتا ہے ۔جس کو مغربی دنیا دہشت گردی اور انتہا پسندی سے تعبیر کرتی ہے ۔اسلام پر اعتراض کرنے والوں کو کھلے ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔ہر مرد کو یہ سوچنا چاہئے کہ جس طرح وہ کسی بہن بیٹی کی عزت پر نگاہ غلط ڈالنے کا ارادہ کررہا ہے اسی طرح کوئی دوسرا شخص اس کی اپنی بہن بیٹی کی طرف دیکھتا ہوگا ۔حکومت کو چاہئے کہ وہ خواتین کے اصل مسائل کو سمجھے ،انھیں تحفظ فراہم کرے ،ایسے تمام اداروں اور ایکٹیوٹیز پر پابندی لگائے جہاں بے حیائی و بے شرمی اور فحاشی و گناہ کا ارتکاب ممکن ہو ۔عورت کا اصل جوہر اس کی عزت و آبرو ہی ہے ،اگر وہی باقی نہیں رہی تو پھر اس کا وجود ہی بے معنی ہے ۔