سوتن
حامد علی اختر
شادی کے معنی چچا چھکن نے کچھ اسی طرح بتائے تھے کہ لفظ شادی وہ واحد لفظ ہے جو بہروں کو بھی سنائی دیتا ہے۔ لفظ شادی سن کر کنوارے تو کنوارے شادی شدہ لوگ بھی ذرا سی دیر کے لیے ترنگ میں آجاتے ہیں۔مگر کہاں چچا چھکن اور کہاں ہم۔ اگر یاداشت اتنی اچھی ہوتی تو پھر ہم بھی چچا چھکن کی صف میں ہوتے۔ چچا چھکن بتارہے تھے کہ لفظ شادی کراماتی لفظوں میں شمار ہوتا ہے۔ شادی لفظ کی کرامتیں جگ ظاہر نہ بھی ہوں تو بھی اس کی کرامتوں کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ حال ہی میں ایک عمر دراز شخص جو کسی حکیم اور ڈاکٹر کی دوا سے ٹھیک نہیں ہوسکا تھا،گھر کے افراد تقریباً نا امید ہوچکے تھے اور انھیں نہیں لگتا تھا کہ وہ زندگی میں دوبارہ چل پھر سکیں گے، مگر یہ لفظ شادی ہی کی کرامت ہے کہ چچا چھکن نے ان سے جاکر تنہائی میںبتایا کہ بھائی چند روز میں لڑکی والے تمھیں دیکھنے آنے والے ہیں اور امید ہے جلد ہی تمھاری شادی ہوجائے گی۔ بس پھر کیا تھا، پوتے پوتیوں نے خود دادا جی کو بغیر کسی سہارے کے چلتا دیکھا۔ چچا چھکن ماہر شادیات ہیں،اس لیے ان کے بعض احباب لاکھ پریشانی کے باوجود بھی چچا چھکن کے سامنے سیدھا چلتے ہیں اور اپنے آپ کو جوانوں کی فہرست میں شمار کراتے رہتے ہیں، کیوں کہ ان سب کو امید رہتی ہے کہ نہ جانے کب چچا چھکن مہربان ہوجائیں۔ چچا چھکن شادیاں تو کراتے ہیں مگر سب کو بتاتے بھی رہتے ہیں کہ یہ وہ لڈو ہے جوکھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔
چچا چھکن کو نہ جانے کتنے واقعات، لطائف خود اپنے تجربات کی بدولت یاد ہیں۔ ایک لطیفہ وہ اکثر اپنے احباب کے درمیان سناتے رہتے ہیں کہ ایک صاحب کی چار بیویاں تھیں اور دوسرے کی ایک۔ تمام زندگی ایک بیوی والے صاحب چار بیوی والے سے حسد اور جلن رکھتے رہے اور اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دیتے رہے کہ قیامت کے دن تو میرا ہی پلڑا بھاری رہے گا اور یہ ہر حال میں جہنم میں جائے گا، مگر فیصلہ امید کے برعکس ہوا۔ یا اللہ! یہ کیسا انصاف ہے؟ اسے تو جہنم ملنی چاہیے، جواب ملا یہ تو زندگی بھر عذاب میں رہا ،اسے دوبارہ عذاب کی ضرورت نہیں ہے۔ چچا چھکن کا مسلک توایک ہی شادی پر اکتفا کرنے والوں کا ہے۔ کیوں کہ چچا چھکن کو معلوم ہے کہ بیویوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس لیے جب مساوات قائم نہیں کرسکتا تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ چچا چھکن عورتوں کی فطرت کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اگر مرد ہر طرح سے مساوات قائم کربھی لے تو عورت پھربھی کچھ نہ کچھ نقص نکال کر مرد کی محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔ چچا اپنے دوست کا قصہ سناتے ہیں کہ مرزا صاحب کی دوبیویاں تھیں اور مرزا صاحب نے ہر معاملہ میں دونوں کو برابر کا شریک رکھا۔ مثلاً کپڑے لا رہے ہیں توایک قیمت، ایک رنگ کے، کھانا پینا، رہن سہن ہر ایک میں مساوات قائم کی۔ اتفاق یہ ہوا کہ دونوں کا انتقال ایک ساتھ ہوگیا، مرزا صاحب نے تمام انتظامات ایسے کراوائے کہ ایک جیسا کفن، ایک جیسی چارپائی، ایک ہی وقت میں غسل، ایک ہی وقت نماز، ایک وقت میںتدفین۔ مگر ایک جگہ گاڑی پھنس گئی،مرزا صاحب کے مکان کا دروازہ ایک ہی تھا،چنانچہ مرزا صاحب نے آناً فاناً میں ایک دروازہ اور بنوایا تاکہ مساوات قائم رہے۔ دروازہ بن کر تیار ہوگیا۔ ایک ہی وقت میں دونوں جنازے گھر سے باہر نکلے اور تمام مراحل سے گزر کر مرزا جی نے چین کی سانس لی کہ اب کسی بھی بیوی کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ مگر رات کو مرزا جی کے خواب میں ایک بیوی آئی اور کہنے لگی ، میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ تمھیں مجھ سے محبت نہیں ہے۔ آخری وقت میں تم میری سوتن ہی کے ہوکے رہ گئے، اسے نئے دروازے سے نکالا اور میرے جنازے کو پرانے سے۔