گارنٹی انتخابی حکمت یا مفت کی ریوڑی
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
کسانوں کے کھیتوں میں جیسے دھان، سویابین کی فصل پک رہی ہے ۔ ویسے ہی سیاستداں ووٹوں کی فصل پکانے میں لگے ہیں ۔ ہر شہر، قصبہ، گاؤں کا انسان چپ ہے صرف نیتا بول رہے ہیں ۔ پانچ سال زندگی کی جدوجہد میں لگے جس عام آدمی کی کسی کو فکر نہیں تھی ۔ الیکشن آتے ہی سوکھے ساون میں سہولیات کا سیلاب آ گیا ۔ کوئی مفت کم قیمت میں گیس سلنڈر، پانچ کلو اناج دینے کا وعدہ کر رہا ہے ۔ کوئی موبائل، لیپ ٹاپ، اسکوٹی، آئی پیڈ، غریبوں کو پینشن، نقد بھتہ اور قرض معافی کی گارنٹی دے رہا ہے تو کوئی خود کو ہی گارنٹی بتا رہا ہے ۔ ہر سیاسی لیڈر، جماعت ووٹروں کے پیچھے دوڑ رہا ہے ۔ بڑھ چڑھ کر مفت کی ریوڑیوں کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ حکومت انتخابات کو متاثر کرنے کے لئے سرکاری عملے اور وسائل کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے لیکن انتخابی کمیشن اور عدلیہ خاموش ہے ۔
مدھیہ پردیش اور راجستھان میں گارنٹی کا کھلا کھیل چل رہا ہے ۔ وزیراعظم مودی کانگریس کی گارنٹی کو انتخابی جملہ بتاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کانگریس صرف الیکشن جیتنے کے لئے گارنٹی دے رہی ہے ۔ الیکشن جیتنے کے بعد وہ بھول جائے گی ۔ دوسری طرف بی جے پی گارنٹی کو مودی کی گارنٹی سے جوڑ رہی ہے ۔ وہ کہہ رہی ہے کہ یہ مودی کی گارنٹی ہے جو پوری کی جائے گی ۔ ادھر گارنٹی کا کھیل شروع کرنے والے کجریوال بھی عام آدمی پارٹی کی گارنٹی کو کجریوال کی گارنٹی بتا رہے ہیں ۔ وہیں راہل گاندھی نے نریندرمودی کی گارنٹی پر چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی گارنٹی کا مطلب سو فیصد جھوٹ ہے ۔ ان کے منھ سے نکلنے والا ہر لفظ جھونٹ ہے ۔ وہ کہہ رہے ہیں اس ملک میں کوئی ذات نہیں ہے ۔ یہ سچ ہے یا جھوٹ ۔ انہوں نے کہا تھا پندرہ لاکھ ہر خاندان کو ملیں گے کالا دھن آئے گا یہ سچ تھا یا جھوٹ ۔ ہر سال دو کروڑ روزگار ملیں گے، کسانوں کی آمدنی دوگنی کی جائے گی، نوٹ بندی سے غریبوں کا بھلا ہوگا، دہشت گردی پر لگام لگے گی، جی ایس ٹی سے چھوٹے کاروباریوں کو فائدہ ہوگا یہ سچ ہے یا جھوٹ؟ یوپی الیکشن کے وقت دیوالی، ہولی پر مفت سلنڈر کی گارنٹی دی گئی تھی ۔ وہ ابھی تک پوری ہو پائی کیا؟ گارنٹی پر دلچسپ سیاست ہو رہی ہے ۔ ایک کہہ رہا ہے کہ ہماری گارنٹی پر یقین کرو دوسرا کہہ رہا ہے ہماری گارنٹی پر یقین کرو ۔
پرینکا گاندھی نے گرہ لکشمی یوجنا کے تحت مدھیہ پردیش میں ہر خاتون کو 1500 روپے ماہانہ گارنٹی دی تھی ۔ پڑھو پڑھاؤ اسکیم میں آٹھویں تک کے بچوں کو 500 روپے، نویں دسویں کے بچوں کو ایک ہزار، گیارویں بارہویں کے بچوں کو 1500 روپے ماہانہ دینے کا وعدہ کیا ۔ حالانکہ شیو راج سنگھ چوہان نے لاڈلی بہنا اسکیم کا اعلان کر پہلے مہینے 1000 اور دوسرے مہینے 1250 روپے دینا شروع کر دیا ۔ لیکن اسکیم کو ڈلیور کرنے میں شیوراج چوہان پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے ۔ اشوک گہلوت نے بی پی ایل خاندانوں کو گیس سلنڈر 500 روپے میں دینا شروع کیا تو شیوراج نے 450 میں دینے کا اعلان کر دیا ۔ جبکہ تلنگانہ میں کے سی آر نے 400 روپے میں گیس سلنڈر دینے کی گارنٹی دی ہے ۔ اس سے پہلے کانگریس نے ہماچل پردیش اور کرناٹک میں بھی گارنٹی دی تھی ۔ جسے حکومت بننے کے بعد کانگریس نے پورا کیا گیا ہے ۔ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی مفت کی ریوڑیاں بانٹنے کے خلاف تھے ۔ ان کا ماننا تھا کہ مفت کی عادت ڈالنے سے عوام کاہل ہو جاتے ہیں ۔ یہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے اچھی علامت نہیں ہے ۔
راجستھان میں 2.73 کروڑ مرد اور 2.53 کروڑ خواتین ووٹر ہیں ۔ مگر ووٹ ڈالنے کے معاملہ میں خواتین بازی مار لے جاتی ہیں ۔ 2018 کے اسمبلی انتخابات میں 74.72 فیصد ووٹ پڑے تھے ۔ ان میں مردوں کا ووٹ فیصد 73.49 تھا جبکہ 74.67 فیصد خواتین نے ووٹ دیا تھا ۔ تب کانگریس اور بی جے پی کے درمیان 0.54 فیصد ووٹ کا ہی فرق تھا ۔ یعنی کانگریس کو بی جے پی سے صرف 1.79 لاکھ ووٹ ہی زیادہ ملے تھے ۔ اس لحاظ سے خواتین رائے دہندگان کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے ۔ گزشتہ تیس سال میں خواتین کی ووٹ دینے میں حصہ داری تیزی سے بڑھی ہے ۔ سال 1993 میں قریب 60 فیصد پولنگ ہوا تھا ۔ تب 68 فیصد مردوں اور صرف 52 فیصد عورتوں نے ووٹ دیا تھا ۔ لیکن اب کہانی بدل گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور بی جے پی کو خواتین ووٹر اور خواتین لیڈر یاد آ رہے ہیں ۔
کانگریس مدھیہ پردیش، راجستھان، تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں خواتین ووٹرس کو لبھانے کے لئے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پرینکا گاندھی کو آگے بڑھا رہی ہے ۔ خواتین، بچوں سے جڑے اعلانات کو پرینکا کے ذریعہ گارنٹی کی شکل میں سامنے لایا جا رہا ہے ۔ تاکہ خواتین کو پوری طرح بھروسہ میں لیا جا سکے ۔ راجستھان کے جھنجھونو کی ریلی وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے پرینکا گاندھی کو گارنٹی کارڈ کی شکل میں سامنے رکھا ۔ خاندان کی مکھیا خاتون کو دس ہزار روپے سالانہ دینے اور ایک کروڑ خاندانوں کو 500 روپے میں گیس سلنڈر فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ اس سے حکومت پر دس ہزار کروڑ روپے کا اضافی خرچ بڑھے گا ۔ راجستھان میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سخت ٹکر ہے ۔ ماہرین کے مطابق یہاں اقتدار کی چابی خواتین اور نوجوانوں کے پاس ہے ۔ پرینکا گاندھی کو کانگریس کے ذریعہ میدان میں اتارنے کی وجہ سے بی جے پی نے عرصہ سے حاشیہ پر پڑی وسندھرا راجے سندھیا کو الیکشن میں اتارا ہے ۔ لیکن ان کے کئی قریبیوں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ یونس خاں ان میں ایک بڑا نام ہے ۔ انہوں نے پارٹی بھی چھوڑ دی ہے ۔ دونوں جماعتوں میں قریب 50 لوگ ایسے ہیں جن کا ٹکٹ کٹا ہے ۔ ان میں 27 صرف بی جے پی کے ہیں ۔ مانا جا ریا ہے کہ باغی پارٹی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ بڑا سوال یہ ہے کہ پارٹیوں کو انتخابات میں گارنٹی کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے ۔ اپوزیشن پارٹی آگے کی گارنٹی دے تو بھی بات سمجھ میں آتی ہے ۔ لیکن اقتدار میں موجود پارٹی جیتنے پر گارنٹی دینے کی بات کہے تو سمجھ جانا چاہئے کہ ماجرا کیا ہے ۔ اسے انتخابی حکمت عملی کے بجائے ووٹرس کو لبھانے کے لئے لالچ یا ریوڑی دینا ہی کہا جائے گا ۔ اب یہ ووٹرس پر منحصر ہے کہ وہ لالچ کی بنیاد پر اپنے حق رائے دہندگی کا استعمال کریں گے یا ریاست کی بہتری کو دھیان میں رکھ کر ۔