قلم کی رعنائیاں

قلم کی رعنائیاں

 

 

تنویر آفاقی

قلم اگرچہ روایتی شکل میں اب شاید کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں، لیکن اس کی رعنائیاں اور شوخیاں برقرار ہیں۔ وہ جس شکل میں بھی ہے لفظوں کے پھول اگانے اور فکر و خیال کی خوشبو بکھیرنے سے عاجز نہیں ہوا ہے۔ شورٹس اور ریلز کے دور میں قلم کی بات کرنا اگرچہ کسی جہاد سے کم نہیں، تاہم اس کی کاٹ آج بھی شمشیر کی کاٹ سے کم نہیں، بشرطے کہ وہ صحیح ہاتھوں میں ہو۔
کچھ لوگ لکھتے ہیں، لیکن شاید ان کے نزدیک دوسروں کو اپنی تحریریں پڑھوانا نہیں ہوتا۔ قلم کاروں کی ایک قسم شاید ایسی بھی ہے جو اپنے ذہن میں موجود ہر کچے پکے خیال کو ایک ہی تحریر میں انڈیل کر قاری کے سامنے پروس دینا چاہتے ہیں۔ قلم کے استعمال کے سلسلے میں ان کی یہ غیر حکیمانہ پالیسی تحریر کو طویل تو کر ہی دیتی ہے قاری کو بھی بے زار اور بدکا دیتی ہے۔

’’قلم کی رعنائیاں‘ ماہنامہ صلاح کار (جو گزشتہ بارہ برسوں سے بلا ناغہ محض ایک شخص کے دم پر پابندی سے شائع ہوتا آر ہاہے) کے ایڈیٹر حامد علی اختر کی طنزیہ ومزاحیہ تحریروں کا مجموعہ ہے۔ حامد علی اختر ایک منجھے ہوئے سیاست داں تو ہیں ہی، زمانہ طالب علمی میں انھوں نے طلبائی سیاست میں بڑے معرکے(طلبہ یونین کے صدر) سر کیے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک اچھے شاعر، ایک پختہ ادیب شاعر اور تجربہ کار قلم کار بھی ہیں۔ ’قلم کی رعانائیاں‘ کے جسم وجثے اور اس کے اندر موجود مضامین کے قد و کاٹھ سے اندازہ ہوا کہ وہ نفسیات کے بھی ماہر ہیں اور بالخصوص قاری کی نفسیات کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کا یہ مجموعہ محض 136 صفحات پر مشتمل ہے۔ یعنی اگر قاری چاہے تو ایک یا زیادہ سے زیادہ دو تین نشستوں میں بہ آسانی پوری کتاب کو ختم کرلے۔ کتاب کے اندر عرض مصنف کے بشمول 58 مضامین شامل ہیں۔ مضامین کے حجم میں قدرے یکسانی کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے انھوں نے کوئی سانچہ متعین کر رکھا ہے اور اس سانچے کے اندر جتنے الفاظ آ سکتے ہیں، اسی میں مضمون کو مکمل کر دیتے ہیں۔ چنانچہ کتاب کا ہر مضمون (ایک آدھ کو چھوڑ کر) صرف دو یا ڈیڑھ صفحات پر مشتمل ہے۔ ایک صفحے سے شروع ہو کر دوسرے صفحے پر ختم ہو جاتا ہے۔ بات اتنی مختصر کہ چائے کی پیالی ختم ہونے سے پہلے ایک نہیں، کئی مضمون مکمل ہو جائیں۔کسی کتاب کی یہ خوبی قاری کو نفسیاتی طور پر اپنے قریب لانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سابق سہ روزہ دعوت کا ایک کالم ’خبر ونظر‘ ہوا کرتا تھا۔ دیگر مضامین کے مقابلے میں اس کالم کی ریڈرشپ اس لیے زیادہ ہوتی تھی کہ مختصر ، لیکن معلومات اور حالات پر بھرپور تجزیہ اس کے اندر موجود ہوتاتھا۔ خبر ونظر کے کالم نگار نے صفحات کا ایک سانچہ متعین کیا ہوا تھا۔ اس لیے وہ کالم اپنے متعینہ حجم سے نہ کبھی طویل ہوتا تھا نہ مختصر۔ یہی کاری گری حامد علی اختر صاحب کے زیر نظر بیش تر مضامین میں نظر آتی ہے۔البتہ زبان کو سادہ رکھنے کی دُھن میں کہیں کہیں انگریزی الفاظ، مثلاً میتھ( ریاضی، یا حساب) سبجیکٹ (مضمون) وغیرہ کا استعمال کثرت سے ہو گیا ہے۔ اردو زبان کے لیے یہ روش مناسب نہیں، جب کہ انگریزی الفاظ کا بہتر اور فصیح متبادل اردو زبان میں موجود ہے۔

کتاب کے ٹائٹل کے ساتھ اگر چہ قوسین میں ’طنز ومزاح‘ لکھا گیا ہے، تاہم اس میں زیادہ تر مضامین طنزیہ اور عبرت خیز ہیں۔ ہر مضمون اپنے اندر ایک سبق رکھتا ہے۔ کہیں کہیں مصنف نے غور وفکر کے لیے قارئین کے سامنے نیا خیال بھی پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر ’’مال کا مصرف‘‘ مضمون (ص: 110 ، 111) میں یہ خیال پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ ضروری نہیں عقیقہ بکرے یا بکری کی قربانی کی شکل میں ہی کیا جائے، کسی انتہائی ضرورت مند کی حاجت روائی کرکے بھی عقیقے کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے جواز یا عدم جواز کا فیصلہ قاری خود کریں گے اور مصنف کو اس سے باخبر بھی کریں گے۔ کتاب کی زبان انتہائی سادہ و پرکار ہے اور کتاب کی افادیت بچوں اور بزرگوں، دونوں کے لیے یکساں ہے۔ اس لیے کسی ایک طبقۂ عمر کے لیے مخصوص نہیں سمجھنا چاہیے۔مصنف نے اپنے استاد ڈاکٹر سراج الدین ندوی کے نام انتساب کرکے کم ہوتی روایت کو قائم رکھا ہے
کتاب حاصل کرنے کے لیے ذیل کے نمبروں پر رابطہ کیا جا سکتا ہے:
9810218638 (حامد علی اختر، ایڈیٹر ماہنامہ صلاح کار)

8750380917(دلشاد حسین اصلاحی، معاون ایڈیٹر ماہنامہ صلاح کار)

نام کتاب: قلم کی رعنائیاں
مصنف: حامد علی اختر
سن طباعت: نومبر 2024
صفحات:136, قیمت : 175روپے
ناشر ،: صلاح کار پبلشر،E-54ابوالفضل انکلیو ، جامعہ نگر ،اوکھلا ، نءی دہلی 25
مبصر: تنویر آفاقی