سیدہ تبسم منظور،ناڈکر،ممبئی

نیت کے معنی خدا کے لئے کام انجام دینے کا اردہ کرنا ہے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے ہر کام کی اہمیت اس کی نیت سے ثابت ہوتی ہے۔ انسانی عمل کا سارا دارومدار نیتوں پر منحصر ہے۔ روایت کی کتابوں میں نیت کو اصل اور اعمال کا ثمرہ کہا گیا ہے اور مسلمانوں کو پاک اور مخلصانہ نیت رکھنے کی تاکید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ خراب اور بری نیت رزق میں کمی اور بلا و مصیبت کے نازل ہونے کا سبب بنتی ہے۔ ہر نیک عمل کے پیچھے حسنِ نیت اور اخلاص کا ہونا ضروری ہے۔ نیت اور عمل میں ایک خاص تعلق ہے اور کوئی بھی عمل حسنِ نیت کے بغیر قبولیت اور درجۂ کمال کو نہیں پہنچتا۔ اگر ہم زندگی میں کسی اچھے اور نیک کام کی نیت کریں اور بعد میں کسی رکاوٹ کے باعث نہ کرپائیں تو وہ کام نہ کرنے کےباوجود بھی ہمیں اس نیک نیت کا اجر مل جائے گا۔ نیت خود ایک مطلوب عمل ہے۔ یہ دل کا عمل ہے اور دل کے عمل کا درجہ جسمانی اعضاء کے اعمال سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا صلّیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، اگر کوئی شخص کسی نیک کام کی نیت کر لے لیکن کسی مجبوری کے باعث نہ کرسکے تب بھی اس کے نامۂ اعمال میں ایک نیکی لکھی جائے گی اور اگر وہ عمل کر لے تو پھر اس عمل کے کرنے پر دس گنا اجر لکھا جاتا ہے۔‘‘(مسلم، الصحيح، 1: 117، رقم: 128)
ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:’’جو کوئی ایک نیکی لائے گا تو اس کے لیے (بطورِ اجر) اس جیسی دس نیکیاں ہیں‘‘۔( سورۃ الانعام آیت نمبر 166)یہ نیکی کا کم سے کم اجر ہے۔ ایک نیکی پر اجر کہاں تک بڑھتا ہے، حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ابن آدم کے ہر عمل میں روزے کے علاوہ نیکی کو دس سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ’’بے شک روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود دوں گا۔ “(مسلم، الصحيح، 2: 807، رقم: 1151)
نیکیوں اور درجات کے کم و بیش ہونے کی وجہ حسنِ نیت ہے۔ نیت عمل کے پیچھے ٹمٹاتے ہوئے چراغ کی مانند ہے۔ نیت کا یہ چراغ جس قدر روشنی دے گا، وہ عمل اسی قدر روشنی پا کر جگمگائے گا اور اجر و ثواب پائے گا۔ کسی شخص کی نیت ٹمٹماتے ہوئے چراغ جیسی ہے، کسی کی لائٹ جیسی،کسی کی چراغ جیسی کسی کی چاند جیسی اور کسی کی نیت سورج جیسی ہے۔ جتنی روشنی اور نور جس کی نیت میں ہے، اسی قدر اس کے عمل کا ثواب بڑھتا جاتا ہے۔ نیت کے اندر موجود سچ اور خلوص اس نیت کے نور، قوت، برکت، قبولیت اور درجے کو بڑھانے کا سبب ہے۔ جیسے جیسے نیت کی قوت بڑھتی چلی جاتی ہے ویسے ویسے عمل کا درجہ اور اجر و ثواب بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر عمل میں دکھاوا پایا جائے تو وہ محض ایک عمل بن جاتا۔ اس کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے، ’’اور جو شخص دنیا کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں اور جو آخرت کا انعام چاہتا ہے ہم اسے اس میں سے دے دیتے ہیں۔‘‘(سورۃ آل عمران آیت نمبر 145)
حدیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ،’’بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘ ( 1 بخاري، الصحيح، 1: 3، رقم: 1مسلم، الصحيح، 3: 1515، رقم: 1907) نیت ایک ایسی جادوئی عمل ہےجوہماری اِس عارضی زندگی کوابدی زندگی میں تبدیل کر سکتی ہے اورعذاب اور بدبختی کی زندگی میں بھی بدل سکتی ہے۔ جولوگ اس کا درست استعمال کریں گے ان کی زندگی کاکوئی پہلو بھی تاریک نہ رہے گا، بلکہ ان کی ساری زندگی روشن ہوگی اور وہ ہمیشہ اطمینان بخش زندگی پائیں گے۔ کیونکہ جب روزانہ فرائض اخلاص کے ساتھ ادا کیے جائیں توان پرملنے والااجر وثواب صرف ان کی ادائیگی کے اوقات تک محدودنہیں رہتا،بلکہ زندگی کے تمام لمحات کااحاطہ کرکے ان پراپنے اثرات مرتب کرتا ہے۔
مومن بندے کے عارضی زندگی میں ابدی سعادت کو پانے اورکافرکے نصیب میں ہمیشہ کی بدبختی اورندامت کے لکھے جانے میں یہی راز مضمر ہے۔ ورنہ ظاہری انصاف کاتقاضا تویہ تھاکہ انسان کو اس کی عبادت اورنیکی کے مطابق جزا اورگمراہی کی سزادی جاتی۔ یعنی نیک آدمی اتنے ہی سال جنت میں رہتا،جتنے سال اس نے دنیامیں نیکی کے ساتھ گزارے اور گناہ گار اتنے ہی سال جہنم میں جلتا جتنے سال اس نے دنیامیں گناہوں میں گزارے ۔حالانکہ نیک یا بد انسان کی خلود تو وہ آخری نقطہ ہے جس سے پار کا انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابدی سعادت و بدبختی انسان کی نیت میں مضمر ہوتی ہے۔جس طرح ابدی ایمان اور استقامت کاعزم ابدی سعادت کاذریعہ ہے، اسی طرح ابدی کفراورانحراف کاعزم ابدی بدبختی کا وسیلہ ہے۔
زندگی کے آخری لمحات میں بندگی کے احساس سے سرشار انسان ساری زندگی خواہ وہ ایک ہزارسال ہی کیوں نہ ہو۔اسی طریقے پرگزارنے کے لیے پُرعزم ہوتاہے، اس لیے اس کے ساتھ اسی عزم اورنیت کے مطابق معاملہ کیاجاتاہے اوراس کی نیت کو حقیقی عمل کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے اسی لیے کہاگیاہے، ’’مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بار ے میں اصل اعتبارانسان کی عارضی زندگی کا نہیں،بلکہ مستقبل کے بارے میں اس کی نیت کاہے۔اس نیت کی تجلیات اورابدی سعادت پرایمان رکھنے کی بدولت مومن ابدی جنت کا اور کافرابدی جہنم کامستحق ٹھہرتا ہے۔ نیک نیت ہی مومن کی نشانی ہے۔ اور سارا دارومدار نیتوں پر منحصر ہے۔

ایڈیٹر، گوشۂ خواتین و اطفال ،اسٹار نیوز ٹو ڈے