دنیا آزمائش کا گھر ہے!!!
سیدہ تبسم منظور ناڈکر، ممبئی
اللہ تعالی نے ہمیں دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا۔ اس دنیا میں ایک مدت تک رہ کر کچھ تکلیفیں، کچھ مصیبتیں، کچھ درد و غم، کچھ آزمائشوں سے گزر کر ہمیں اپنے رب کے پاس واپس لوٹنا ہے۔ آزمائش کیا ہے؟؟
آزمائش کا مطلب امتحان ہے جو کہ صرف مصیبت یا تکلیف کی صورت میں ہی نہیں ہوتا بلکہ امتحان انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہوتا ہے۔ زندگی کا ہر پہلو امتحانات سے بھرا ہوا ہے۔ زندہ رہیں، بیمار ہوں، صحت یاب ہوں، خوشی ملے، غم ملے ،دولت ملے، تنگی آئے، اچھا پڑوسی ملنا، یہاں تک کہ اولاد بھی آزمائش ہے۔اللہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔ اللہ تعالی ہمیں امتحان میں ڈال کر پرکھتا ہے ۔ وہ پرکھتا ہے کہ یہ کامیاب ہو کر اپنا نامۂ اعمال سیدھے ہاتھ میں لینے والوں میں شامل ہوتا ہے یا بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال پانے والوں میں شامل ہوتا ہے۔ رب کی اطاعت کرتا ہے یا شیطان کی پیروی کرتا ہے۔
ہر بشر کو زندگی میں کسی نہ کسی طرح آزمائشی دور سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ آزمائش و مصیبت کبھی انفرادی ہوتی ہے تو کبھی اجتماعی ہوتی ہے کہ جس میں پوری قوم کو آزمایا جاتا ہے۔ جس طرح کرونائی دور ایک آزمائش تھی۔
اس دنیا میں ہر انسان کی آزمائش اس کی برداشت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس دنیا کی دیگر قوموں کے مقابلے میں بلند مقام عطا کیا ہے۔ دین کا یہ راستہ بہت آسان بھی ہے اور آزمائشوں سے پُر بھی جس پر ثابت قدمی کا انعام جنت ہے۔ چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں کھرا اترنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جب کوئی بڑی مصیبت یا آزمائش آجاتی ہے تو اصل امتحان اسی وقت ہوتا ہے۔ آزمائش کے معاملہ میں ایک مومن کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آزمائش کی تمنا نہیں کرتا کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے عافیت طلبی کی دعا سکھائی ہے لیکن جب مومن کا سامنا آزمائش سے ہو جاتا ہے تو پھر وہ صبر اور شکر سے اس آزمائش میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیوں آزماتا ہے، اللہ رب العالمین کی کچھ حکمتیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی آزمائش کا ایک سبب تو یہ بتایا ہے کہ سچے اور جھوٹے، مضبوط اور کمزور ایمان والوں میں فرق کیا جائے۔ مصیبت و مشکلات میں ثابت قدمی کا مظاہرہ وہی کر سکتے ہیں جو سچے مومن ہوں۔ وہی لوگ راہ حق پر ڈٹتے اور مضبوطی سے کھڑے رہتے ہیں جن کا ایمان پختہ اور مضبوط ہوتا ہے ورنہ کمزور ایمان والے یا منافق تو راہِ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔
حقیقی ایمان سے سیدھا سچا راستہ حاصل ہوتا ہے اور آزمائش میں ثابت قدم اور صراط مستقیم پر چلنے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔آزمائش کا اس وقت علم ہوتا ہے جب حالات سخت ہوں اور مصیبتوں میں انسان گھر جائے ۔پھر اس وقت کیا انسان صبر و شکر سے کام لیتا ہے یا گھبراہٹ رونا پیٹنا شروع کرتا ہے، اللہ کی ناشکری کرتا ہے۔ اسی طرح خوشحالی میں بھی آزمائش ہوتی ہے کہ انسان نعمتوں کے ملنے پر شکر کرتا ہے یا نا شکری پر اتر آتا ہے۔ کبھی کبھی آزمائش کو صرف مصیبت کی صورت میں سمجھا جاتا ہے۔ مصیبت میں جو شخص صبر کرے گا وہ ثواب پائے گا اور جو گھبرائے گا اور صبر سے کام نہ لیتے ہوئے نا شکری کرے گا وہ گناہ اور سزا کا مستحق ہوگا۔
اللہ تعالی اپنے بندوں کو آزمانے کے لئے مشکل اور فتنہ میں ڈالتا ہے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ مومن کون اور کافر کون ہے اور جھوٹے اور سچے کے درمیان تمیز ہوسکے جیسے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
’’کیا لوگوں نے یہ گمان کررکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیںگے؟ ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب آزمایا تھا ۔یقیناً اللہ تعالی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی جو معلوم کرلے گا جو کہ جھوٹے ہیں۔‘‘ (سورہ العنکبوت آیت نمبر 1-2)
”جو لوگ ایمان لائے اللہ انہیں بھی ظاہر کر کے رہےگا اور منافقوں کو بھی ظاہر کر کے رہےگا۔‘‘
( سورہ العنکبوت آیت نمبر 11)
کامیابی اور نجات اس وقت تک مکمل نہیں ہوگی جب تک کہ امتحان نہ ہوجائے۔
’’جس حال پر تم ہو اسی پر اللہ تعالی ایمان والوں کو نہ چھوڑ دے گا جب تک کہ پاک اور ناپاک کو الگ نہ کردے اور نہ ہی اللہ تعالی ایسا ہے کہ تمہیں غیب سے آگاہ کردے گا۔‘‘(آل عمران آیت نمبر 179)
وہ آزمائش جس میں اللہ تعالی اپنے بندوں کو مبتلا کرتا ہے تاکہ مومن اور کافر کے درمیان تمیز ہوسکے اس کا ذکر اس ایت میں کیا ہے۔
’’اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سےاور ان پر صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔‘‘
’’ جنہیں کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘
’’ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘( سورہ البقرۃ ایت نمبر 155سے157)
اللہ تعالی بندوں کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے اور صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور انہیں جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی اپنے بندوں کو جہاد کے ساتھ بھی آزماتا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے۔
’’کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ ابھی تک اللہ تعالی نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں۔” (سورہ آل عمرآن آیت نمبر 142)
اور اسی طرح مال و اولاد بھی فتنہ ہیں۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کو اس آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ یہ معلوم کرلے کہ کون شکر کرتا اور کون ناشکری کرتے ہوئے ان میں مشغول رہتا ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے۔
’’اور تم اس بات کو جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں ایک امتحان کی چیز ہیں اور اس بات کو بھی جان لو کہ اللہ تعالی کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔‘‘(سورہ الانفال آیت نمبر 28)
اللہ تعالی بعض اوقات مشکلات اور بعض اوقات نعمتوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالتا ہے تا کہ یہ پتہ چل سکے کہ کون شکر گزار اور کون ناشکری کرتا ہے اور کون اطاعت کرتا ہے اور کون نافرمانی کرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے۔
’’ ہر جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں۔ اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤگے۔‘‘( سورہ الانبیاء ایت نمبر 35)
اور پھر یہ آزمائش بھی ایمان کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء کی پھر اسے کم درجے کی پھر اس سے کم درجے والے کی ہوتی ہے۔
اللہ تعالی اپنے بندوں کو کئی قسم کی آزمائش میں ڈالتا ہے۔ بعض اوقات تو انہیں مصیبت ،رنج و غم اور فتنے میں ڈال کر امتحان لیتا ہے تا کہ مومن اور کافر اور شکر گزار اور ناشکرے کا پتہ چل سکے۔ اور بعض اوقات جب بندے نافرمانی کرتے ہیں تو وہ اپنے بندوں کو مصیبت و پریشانی میں مبتلا کر کے انہیں بتاتا ہے تا کہ وہ اس نافرمانی سے باز آ جائیں۔
اللہ تعالی فرماتا ہے، ’’ تمہیں جو کچھ بھی مصیبتیں آتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے۔ اور وہ تو بہت سی باتوں کو درگزر فرما دیتا ہے۔‘‘( سورہ الشوری آیت نمبر 30)
اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت زیادہ رحم کرنے والاہے۔ اور اپنے بندوں کو بار بار آزمائش دیتا ہے تا کہ وہ واپس لوٹ آئیں اور گناہوں سے توبہ کر کے اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں کو ترک کر دیں تا کہ اللہ تعالی انہیں بخش دے ۔
اللہ تعالی ایک آیت میں فرماتا ہے۔ ’’اور کیا ان کو نہیں دکھائی دیتا کہ یہ لوگ ہر سال ایک بار یا دو بار کسی نہ کسی آفت میں پھنسے رہتے ہیں پھر بھی نہ توبہ کرتے اور نہ ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ التوبہ آیت نمبر 126)
اللہ تعالی کی رحمت ہے کہ وہ گناہوں کی سزا دنیا میں ہی دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ لوگ اپنے نفس کو پاک کر لیں اور موت سے پہلے پہلے اللہ کی طرف رجوع کر لیں تاکہ جہنم کی آگ میں نہ جلنا پڑے۔ ایک جگہ قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے۔
’’ یقینا ہم انہیں قریب کے چھوٹے سے بعض عذاب اس سے بڑے عذاب کے سوا چکھائیں گے تا کہ وہ لوٹ آئیں۔‘‘(سورہ سجدہ آیت نمبر 21)
اللہ تعالی فرماتا ہے،’’اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کا دوسرے پر رتبہ بڑھایا تا کہ تم کو آزمائے ان چیزوں کے ذریعے جو تم کو عطا کی ہیں بیشک رب جلد سزا دینے والا اور بیشک وہی مغفرت والااور مہربانی کرنے والاہے۔‘‘(سورہ الأنعام آیت نمبر 165)
ان تمام آیات میں اس بات کا ذکر ہے کہ آزمائش ہی انسان کی تخلیق کا راز ہے اور اس آزمائش میں بندگی بھی شامل ہے۔ اگر کوئی شخص بندگی اپنے وسیع مفہوم کی صورت میں بجا لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہی کامیاب و کامران ہوگا۔
بندوں کو مصیبت و پریشانی میں اس لئے مبتلا کرتا ہے کہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی برائیاں ختم کرے۔ گناہوں کو بخش دے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔
’’کسی بھی مسلمان کو کوئی تکلیف، مصیبت، بیماری، غم اور پریشانی یہاں تک کہ اگر کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اس کی بناء پر اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔‘‘( صحیح بخاری حدیث نمبر 5641 صحیح مسلم )
مصیبت غم و پریشانی، آزمائش میں اللہ کی حکمت فکر و عمل میں پختگی پیدا کرنا ہے۔ ایک انسان مسلمان ہے ،ایمان کا اقرار بھی کرتا ہے مگر تربیت اور دینی معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اس کے خیالات احساسات جذبات اسلامی رنگ ڈھنگ میں نہیں ہوتے۔جب وہ آزمائش سے اپنے ایمان کو کامل رکھتے ہوئے گزرتا ہے تو اس کے عمل میں پارسائی اور پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ آزمائش کے بغیر تانبا کبھی بھی کندن نہیں بنتا۔ سونا جب آگ میں جلتا ہے تب ہی تو اس کا خوبصورت زیور بنتا ہے۔اس طرح اللہ رب العزت ہمیں آزمائش میں ڈال کر ہمیں نکھارتا ہے تاکہ ہم اس کے پاس سرخرو ہوکر لوٹیں۔