عبدالغفارصدیقی
نبی اکر م ﷺ کو رحمۃ للعالمین کا لقب کسی انجمن یا کسی حکومت کی جانب سے نہیں دیا گیا ہے بلکہ جس ذات نے عطا فرمایا ہے وہ سینوں میں دفن راز تک سے واقف ہے،بلکہ انسان کیا سوچنے والا ہے اور کائنات میں کب کیا ہونے والا ہے؟ سب اس کے علم میں ہے۔وہ علیم اور خبیر ہے۔ رحمۃ للعالمین کی حیات اور تعلیمات کا مطالعہ قاری کے اندر انسان کی عظمت اور بلندی پیدا کرتا ہے۔آپ ؐ کے سایہ ئ رحمت میں تمام کائنات نے پناہ حاصل کی۔انسانوں کے تمام طبقات کو آپ نے عزت و شرف بخشا،حیوانات آپ ؐ کے رحم و کرم سے مستفید ہوئے،جمادات و نباتات آپ ؐ کی شفقت و لطافت سے سیراب ہوئے۔آپؐ نے جس طرف نظر ڈالی اس طرف رحم و کرم کے بادل چھاگئے۔مگر افسوس اسی رحمۃ للعالمین کو لوگ نعوذ باللہ ’دہشت گرد‘کہتے ہیں۔کہنے والے دراصل اس ذات رحمت سے واقف ہی نہیں ہیں۔وہ واقف بھی کیسے ہوسکتے تھے؟انھوں نے اس پاک ذات کو دیکھا نہیں،اور اس ذات پر ایمان کا دعویٰ کرنے والوں نے انھیں واقف نہیں کرایا۔بلکہ گزشتہ کئی صدیوں سے خود مسلمان اس کو بھول گئے۔کاش ہم اس نبی رحمت ؐ کی تعلیمات پر عمل کرتے اور دنیا کو واقف کراتے۔انسانوں کے تمام طبقات کی طرح معذورین پر بھی آپ ؐ کے بے شمار احسانات ہیں۔بصارت سے محروم نابینا،سماعت سے محروم بہرا،پاؤں اور ہاتھ سے محروم جنھیں ہم اپاہج اور محتاج کہتے ہیں، اردو زبان میں ان سب کے لیے معذورین کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔آج کی مہذب دنیا میں جب کہ ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے تحریکات چلائی جارہی ہیں ان کو عزت و احترام کا مقام حاصل نہیں ہوسکا ہے اور نہ ان کی گزر بسر کا کوئی مستقل نظم ہی ہے۔ذرا سوچئے آج سے پندرہ سو سال پہلے جہاں اچھے بھلے،طاقت ور انسانوں کو غلام بنایا جاتا تھا،جہاں لڑکیوں کو زندہ در گور کردیا جاتا تھا،جہاں رزق کے خوف سے بچوں کو قتل کردیا جاتا تھا،وہاں معذورین کی کیا حیثیت ہوگی۔بعد کے ادوار میں بھی ایسے لوگ پیدا ہوئے جن کے نزدیک معذور افراد کو جینے کا کوئی حق نہ تھا ان کے نزدیک ان کے مسائل کا حل یہی تھا کہ ان کو قتل کردیا جائے۔نبی رحمت ؐ نے اسلام کی تکریم انسانیت کی تعلیم کی روشنی میں انسان کو معزز بنانے کے جملہ اقدامات فرمائے۔جب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمادیا ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا(التین 4-)اوراور ہم نے اولاد آدم کو مکرم و محترم بنایا۔(بنی اسرائیل 70-)تو ہر انسان چاہے وہ جیسا بھی ہو،بالکل اپاہج اور معذور ہو،مجنون اور پاگل ہو،وہ قابل احترام قرار پایا۔اسی کے ساتھ مزید تعلیم دی گئی۔: ”ایک دوسرے کے ساتھ تمسخر نہ کرو“۔تمسخر میں تحقیر کا عنصر پایا جاتا ہے۔”نام نہ بگاڑو اور برے القاب سے نہ پکارو۔“بلکہ تنبیہ کی گئی کہ ایمان لانے کے بعد ایسا کرنا ’فسق‘ ہے۔(الحجرات)یعنی دائرہ اسلام سے باہر ہوجانا ہے۔نبی اکرم ؐ فرماتے ہیں۔”ایک مسلما ن دوسرے مسلمان کا بھائی ہے،نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ ہی اسے رسواکرتا ہے اور نہ ہی اسے حقارت سے دیکھتا ہے۔ کسی مسلمان کے برا ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت سے دیکھے۔“(مسلم)تکریم انسانیت کی اس تعلیم میں عزت و احترام بھی شامل ہے اور یکسانیت و مساوات بھی۔دورِ جاہلیت میں عرب خریدے اور بیچے جانے والے مرد و زن کو ’عبدی‘ (میرا بندہ) اور’امتی‘ (میری بندی) کہا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے انسانیت کی اس توہین کو گوارا نہیں فرمایااورزبان مبارک سے اعلان ہوا:”تم میں سے کوئی شخص کسی کو میرا بندہ اور میری بندی نہ کہے۔ تم سب اللہ کے بندے ہو اور تمھاری عورتیں اللہ کی بندیاں ہیں۔ البتہ میرا لڑکا یا میری لڑکی کہہ سکتے ہو“۔(مسلم)اللہ کے رسول ؐ لوگوں کی عزت نفس کا بہت خیال رکھتے تھے۔آپ ؐ کو تمام عمر عبداللہ ابن ام مکتوم ؓ کو نظر انداز کردینے کا ملال رہا،جس پر اللہ نے سورہ عبس میں آپ ؐ کو توجہ دلائی تھی۔آپ ؐ سب کی بات توجہ سے سنتے تھے۔ایک بارمسجد نبویؐ میں آں حضورؐ صحابہ کرام کے پاس بیٹھے کچھ اہم موضوعات پر گفتگو فرما رہے تھے کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑھیا مجمع کے آخر میں کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ آپؐ اُس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اُس نے عرض کیا کہ حضورؐ میں کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں مگر سب کے سامنے نہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ عورت پاگل ہے اور ایسے ہی آپؐ کا وقت ضائع کرے گی۔ آپؐ کا چہرہئ اقدس متغیر ہوا فرمایا کہ: ”پاگل ہے تو کیا انسان نہیں۔ کیا اِس کی خواہشات اور تمنائیں نہیں ہیں۔ یہ کچھ کہنے آئی ہے“۔ لہٰذا آپؐ مسجد نبوی سے نکل کر اُس کے ساتھ چل پڑے۔ آپؐ نے اُس سے اُس کی ضرورت پوچھی اور ساتھ ہی فرمایا کہ تیری ہر بات تسلیم کی جائے گی۔ بڑھیا آگے آگے چلتی رہی اور سرکار دو عالمؐ اُس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ مدینے کی ایک گلی کی نکڑ پر بڑھیا نے آپؐ سے کہا کہ آپ زمین پر تشریف رکھیں۔ آپؐ بیٹھ گئے۔ بڑھیا نے اپنی پوری داستان سنائی اور رحمتِ دوعالمؐ نے اُس کی ساری ضروریات پوری کر دیں۔ اسلام نے معذورین کو نظر انداز کرنے،ان کی توہین کرنے کی ممانعت فرمانے اور انھیں عزت و احترام عطا کرنے کے ساتھ،ان کی مالی ضروریات کا ذمہ اہل اسلا م اور اسلامی حکومت کو قرار دیا۔فرمایا گیا:فی اموالہم حق للسائل و المحروم۔”ان کے اموال میں سائل اور محروم کا حق ہے۔“ (الذاریات)یعنی ہر شخص کے مال میں معذورین کا حق ہے۔اس طرح انھیں کسب معاش کی الجھنوں سے آزاد کردیا گیا۔فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ:”خاندان کے کچھ مفلس رشتہ دار، اپاہج ولاچار ہوں یامعذور ومفلوج ہوں یا مجنون واندھے پن کا شکاہوں، دست وپا بریدہ یا شل زدہ ہوں تو ان کا نفقہ معہود ترتیبِ فقہی کے اعتبار سے خاندان کے دیگر صحیح الاعضاء متمول رشتہ داروں پر واجب ہوتا ہے“ (بدائع الصنائع)علامہ شبلی ”الفاروق“ میں لکھتے ہیں: (حضرت عمرؓ کے زمانے میں) عام حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک کے جس قدر اپاہج، ازکاررفتہ، مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کردی جائیں، لاکھوں سے متجاوز آدمی فوجی دفتر میں داخل تھے جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی، بلاتخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزینے مقرر کردیے جائیں (الفاروق) سید قطب شہید مرحوم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:”حضرت عمرؓنے ایک بوڑھے نابینا کو ایک دروازے پر بھیک مانگتے دیکھا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ یہودی ہے، آپؓ نے اس سے پوچھا: تمھیں کس چیز نے اس حالت تک پہنچایا؟ اس نے جواب دیا: جزیہ، ضرورت اور بڑھاپا، عمرؓاس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اتنا کچھ دیا جو اس وقت کی ضروریات کے لیے کافی تھا، پھر آپؓنے بیت المال کے خزانچی کو کہلا بھیجا کہ اس شخص اور اس جیسے دوسرے اشخاص کی طرف توجہ کرو، خدا کی قسم یہ انصاف کی بات نہیں کہ ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں اور بڑھاپے میں اسے دُھتکار دیں ···· آپؓ نے اس فرد اور اس جیسے دوسرے افراد کو جزیہ سے بری قرار دے دیا، جب آپؓ نے دِمَشق کا سفر کیا تو ایک ایسی بستی سے گذرے جہاں کچھ جُذام کے مریض عیسائی بستے تھے، آپؓ نے حکم دیا کہ ان کو زکوٰۃ کی مد سے امداد دی جائے اور ان کے لیے راشن جاری کیے جائیں (العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام اردو:378)ایک بار حضرت عمرؓ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ آپؓ نے دیکھا ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اے بندہئ خدا! دائیں ہاتھ سے کھا۔ اُس نے جواب دیا کہ ”وہ مشغول ہے“۔ آپؓ آگے بڑھ گئے جب دوبارہ گزرے تو پھر وہی فرمایا اور اُس شخص نے پھر وہی جواب دیا۔ جب تیسری بار آپؓ نے اُس کو ٹوکا تو اُس نے جواب دیا کہ ”موتہ کی لڑائی میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔“ یہ سن کر آپؓ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگے کہ: تمھارے کپڑے کون دھوتا ہے اور تمھاری دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہیں؟ تفصیلات معلوم ہونے پر آپؓ نے اس کے لیے ایک ملازم لگوا دیا۔ اسے ایک سواری دلوائی اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی دِلوائیں۔ (کتاب الآثار از یوسف) حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کے زمانے میں حضرت عمرؓ مدینہ کی ایک اندھی عورت کی خبرگیری کیا کرتے تھے، پھر ایسا ہونے لگا کہ جب بھی آپ پہنچتے یہ دیکھتے ہیں کہ ابوبکر ؓ آکر اس کے کام کر جاتے ہیں (اسلام میں عدلِ اجتماعی: قطب شہید)تجارت میں نابینا افراد دھوکا نہ کھاجائیں آپ ؐ نے اس کے لیے بھی اقدامات فرمائے۔ ایک صحابیؓ جن کی بینائی میں نقص تھا اور کچھ ذہن بھی متاثر تھا وہ خریدوفروخت میں اکثر دھوکا کھاجاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اور ان جیسے افراد کی خاطر، خریدوفروخت میں خیارِ شرط مشروع فرمایا، جس کی رو سے بیچنے والے یاخریدنے والے کو بیع کی قطعیت کے لیے تین دن کی مہلت مل جاتی ہے (تکمہ فتح الملھم)معذورین کے لیے فرض عبادات میں بھی رعایت رکھی گئی۔اگر وہ نماز پڑھنے مسجد میں نہ آسکتے ہوں تو گھر پر پڑھ لیں،یا اسلامی حکومت انھیں کوئی سرکاری خادم فراہم کرے، حج اور جہاد جیسا فریضہ ان پر سے ساقط کردیا گیا اور انھیں ان فرائض کو ادا کیے بغیر ہی اجر سے نوازدیا گیا۔ ارشادِ باری ہے: اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے (سورہ فتح: 17)سعید بن یربوعؓ ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں، حضرت عمرؓ نے ان سے کہا کہ آپ جمعہ میں کیوں نہیں آتے انھوں نے کہا: میرے پاس آدمی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے، حضرت عمرؓ نے ایک آدمی مقرر کردیا جو اُن کے ساتھ رہتا تھا (الفاروق)غزوہ تبوک کے موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارے پیچھے مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر بھی چلتے ہو تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں، صحابہئ کرامؓنے پوچھا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ وہ مدینہ میں بیٹھے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حَبَسَھُمُ الْعُذْرُ: عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے (بخاری،کتاب الجہاد)اسلام سے پہلے دوران جنگ دشمن کی تلوار سے معذورین تک محفوظ نہ تھے۔ اسلام نے محاربین کو دوطبقوں میں تقسیم کردیا، ایک اہلِ قتال دوسرے غیر اہلِ قتال۔اہل قتال وہ ہیں جو عملاً جنگ میں حصہ لیتے ہیں یا حصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں۔ غیراہلِ قتال وہ ہیں جو عقلاً وعرفاً جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے، یا عموماً نہیں لیا کرتے، مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی، اندھے، مقطوع الاعضاء، مجنون، سیاح، خانقاہ نشین زاہد، معبدوں اور مندروں کے پجاری اور ایسے ہی دوسرے بے ضرر لوگ، اسلام نے غیر اہل قتال کے لوگوں کو قتل کرنے سے منع کردیا ہے۔کیا سیرت کے عظیم الشان جلسے منعقد کرنے والوں،ڈھول تاشوں اور ڈیجے کے ساتھ جلوس نکالنے والوں کی زندگی میں بھی کوئی واقعہ اس قسم کا پایا جاتا ہے؟
9897565066