پریس والا
حامد علی اختر
راجندر جب سے محلے میں آیا تھا، اس نے سب کا جینا حرام کردیا تھا ۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ سب کو میڈیا میں ہونے کی دھمکی دیتا تھا۔ جانتے نہیں ہو میں پریس رپورٹر ہوں۔ ایک منٹ میں اندر کروادوںگا۔ پولیس یہیں سے مارتے ہوئے لے جائے گی۔ بے چارے محلے والے سیدھے سادھے، بے پڑھے لکھے اپنے کام سے کام رکھنے والے، اس کی دھمکیوں سے سہم جاتے اور اس سے بچ کر رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے کیوں کہ انھیں میڈیا کی طاقت کا علم تھا وہ جانتے تھے کہ میڈیا والے رائی کا پہاڑ کیسے بناتے ہیں اور بے گناہ کو بھی کیسے گنہگار ثابت کردیتے ہیں۔
گھسیٹو کل ہی گاؤں سے آیا تھا اور اپنے ایک کرم فرما کی بدولت آج نیا رکشا خرید کر لایا تھا۔ گھسیٹو نیا رکشہ پاکر بہت خوش تھا۔ وہ خوشی کے مارے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ آج وہ اپنے آپ کو بہت بڑا دھنوان سمجھ رہا تھا۔ وہ رکشہ لے کر اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں آیا جو راجندر کے فلیٹ کے پاس خالی پلاٹ میں جھگی ڈال کر رہتا تھا۔ گھسیٹو سے رکشہ کھڑی کرنے میں ذرا سی کوتاہی ہوگئی۔ راجندر نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ابے تجھے دکھائی نہیں دیتا میرے دروازے پر ہی لگادیا۔ گھسیٹو کہنے لگا صاحب پورا دروازہ تو بچا ہوا ہے۔ ابے تجھے پتا نہیں ہے میں میڈیا کا آدمی ہوں۔ گھسیٹو بے چارہ سیدھا سادھا نوجوان اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ میڈیا کس بلا کا نام ہے۔ سنتے ہی بولا:ہم بھی اپنے رجنی کا آدمی ہوںتو کیا ہوا۔ ابے میں رپورٹر ہوں، پترکار۔ پترکار گھسیٹو ہکا بکا تھا کہ راجندر نے رعب جماتے ہوئے پوچھا: ابے پریس جانتا ہے۔ گھسیٹو کی اب سمجھ میں آیا۔ اس نے کہا : اچھا پریس والا ہے۔ راجندر نے اثبات میں سر ہلایا تو گھسیٹو چوڑا ہوگیا۔ ابے میں اتنی دیر سے تجھے میں خواہ مخواہ صاحب صاحب کررہا ہوں۔ کہاں تو پریس والا کہاں میں گاڑی والا۔ راجندر نے میڈیا کے زعم میں ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ گھسیٹو نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور شروع ہوگیا اور تب تک مارتا ہی رہا جب تک راجندر ہوش میں رہا۔ راجندر زمین پر بے ہوش پڑا تھا اور گھسیٹو اپنے رکشے پر سیٹی بجاتا ہوا جارہا تھا اور پورا محلہ اسے مشکور نگاہوں سے رخصت کررہا تھا جیسے گھسیٹو بارڈر پر دشمن کو شکست دے کر جارہا ہو۔