بٹو گے تو کٹو گے سے ایک ہیں تو سیف ہیں تک

سماجی انصاف اور برابری کا لفظ بی جے پی، آر ایس ایس کی ڈکشنری میں نہیں ہے ۔ وی پی سنگھ کے منڈل کے مقابلہ بی جے پی، آر ایس ایس نے کمنڈل کھڑا کیا تھا ۔ جس کے نتیجہ میں ایک طرف ملک کی سیاست میں مذہب کو جگہ ملی وہیں دوسری طرف ذات پر مبنی سیاست کی ابتداء ہوئی ۔ لالو پرساد یادو، ملائم سنگھ، نتیش کمار، مایاوتی، رام ولاس پاسوان وغیرہ اسی کی پیداوار ہیں ۔ پارلیمانی انتخاب 2024 میں راہل گاندھی اور انڈیا اتحاد نے ذات پر مبنی مردم اور آبادی کے تناسب میں حصہ داری کا سوال اٹھایا تو بی جے پی کا ووٹر چھٹک گیا اور وہ اکثریت سے دور رہ گئی ۔ حالانکہ اس نے پارٹیوں کو توڑ کر، سماج کو بانٹ کر اور نفرت کا سہارا لے کر الیکشن جیتنے کی کوشش کی تھی ۔ پھر بھی حکومت بنانے کے لئے بی جے پی کو چندر بابو نائیڈو اور نتیش کمار کی مدد لینی پڑی ۔ سماجی انصاف اور برابری کے مدے پر بی جے پی کو اپنی کرسی ہلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ آر ایس ایس کی فیکٹری میں بنا "بٹو گے تو کٹو گے” کا نعرہ اسی کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس میں راہل گاندھی اور انڈیا اتحاد کے سماجی انصاف کا جواب دینے کے ساتھ ملک کی تکثیریت کا انکار اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن کا پیغام ہے ۔

ہریانہ الیکشن میں اس نعرہ کا استعمال ہوا لیکن انتخابی کمیشن نے کوئی نوٹس نہیں لیا ۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی اس پر کوئی خاص اعتراض نہیں ہوا ۔ مگر اس کے بعد "بٹوگے تو کٹوگے” کے صحیح غلط ہونے پر بحث شروع ہو گئی ۔ آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاترے ہوسبولے

نے اپنے بیان میں اس نعرے کی حمایت کی ۔ این ڈی اے کے اتحادی چراغ پاسوان اور ایکناتھ شندے کی شیو سینا کے سنجے نروپم نے بھی اسے صحیح ٹھہرایا ۔ جبکہ اکھلیش یادو نے یوپی کے ضمنی انتخاب میں "بٹوگے تو کٹو گے” کے مقابلہ "نہ بٹیں گے نہ کٹیں گے” کا نعرہ دیا ۔ این ڈی اے کے ساتھی اجیت پوار نے بٹنے، کٹنے کے نعرے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ باہر کے لوگ یہاں آکر اس طرح کی باتیں کر جاتے ہیں ۔ یوپی، جھارکھنڈ میں اس طرح کے نعرے چلتے ہوں گے ۔ مہاراشٹر چھتر پتی شیوا جی، جیوتی با پھولے، ونووا بھاوے اور امبیڈکر کی سر زمین ہے ۔ یہاں یہ نعرے نہیں چلیں گے ۔ انہوں نے اس سیاست کو مہاراشٹر میں ناکام کر دیا ۔ ایسے نعروں سے نہ صرف اجیت پوار فاصلہ بنائے رکھنا چاہتے ہیں بلکہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ نریندر مودی کو ان کے علاقے میں انتخابی تشہیر کے لئے آنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جے ڈی یو اور آر ایل ڈی کے جینت چودھری نے بھی اس پر اعتراض کیا ہے ۔ ادھو کی شیو سینا، شرد پوار کی این سی پی، کانگریس اور انڈیا اتحاد کے لیڈر پہلے سے اس پر تنقید کر رہے ہیں ۔
‘بٹوگے تو کٹو گے’ کے خلاف ناراضگی اور اس کی وجہ سے این ڈی اے میں پھوٹ کے امکان کو محسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے اس کی جگہ نیا نعرہ ‘ایک ہیں تو سیف ہیں’ پیش کر دیا ۔ جسے یوگی ادتیہ ناتھ کے نعرے کی بدلی ہوئی شکل کہا جا سکتا ہے ۔ بی جے پی اس نعرے میں نہ صرف بھروسہ کرتی ہے بلکہ اس اصول پر چلنے کی کوشش بھی کرتی ہے ۔ یہ الگ بات کہ مہاراشٹر میں اس نعرے کی اجیت پوار نے ہوا نکال دی ۔ نریندر مودی نے بھلے ہی نعرے کے الفاظ بدل دیئے لیکن اس کا تاثر وہی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس نعرے کی بدولت بی جے پی کو دونوں ریاستوں کے اسمبلی اور ضمنی انتخابات میں کتنا فائدہ ملتا ہے ۔ اس میں یوگی کی اپنی ریاست یوپی بھی شامل ہے ۔ نریندر مودی نے گڑھوا جھارکھنڈ کی ریلی میں کہا کہ انڈیا اتحاد والے بنگلہ دیشی در اندازوں کو بچا رہے ہیں ۔ وہ روٹی چھین رہے ہیں، ماٹی پر قبضہ کر رہے ہیں ۔ وہ تمہاری بیٹیاں لے جائیں گے ۔ آپ کو یاد ہوگا اسی طرح کا بیان انہوں نے راجستھان میں بھی دیا تھا ۔ اس پر پورے ملک نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن اس وقت بھی خاموش تھا اور اب بھی نام لینے تک سے بچ رہا ہے ۔ جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے اس پر سخت اعتراض کرتے ہوئے اسے آدی واسیوں کی بے عزتی بتایا ہے ۔
نریندر مودی یہیں نہیں رکے انہوں نے کانگریس پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی ہے ۔ پہلے وہ مذہب کے نام پر بانٹتی تھی ۔ کانگریس صدر ملیکارجن کھرگے نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بانٹنے کا کام بی جے پی، آر ایس ایس کرتی ہے ۔ انہوں نے پہلے نسل پرستی (ورن) کی بنیاد پر برہمن، چھتریہ، ویش اور شودھر میں بانٹا ۔ چھوا چھوت، نفرت پیدا کی ۔ اب پسماندہ ذاتوں، دلتوں اور آدی واسیوں کا استحصال کر رہے ہیں ۔ کانگریس برابری اور سماجی انصاف کی بات کر رہی ہے ۔ راہل گاندھی نے "ایک ہیں تو سیف ہیں” کے جواب میں ایکس پر پوسٹر جاری کیا ہے جس میں مودی کے ایک طرف امت شاہ اور مادھوی بچ ہیں اور دوسری طرف اڈانی اور اجیت ڈو بھال ۔ لگتا ہے اس نعرے سے خود بی جے پی کے لئے مشکل پیدا ہوگی ۔ اجیت پوار، آر ایل ڈی، جے ڈی یو کی طرح تیلگو دیشم پارٹی بھی اس کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی ۔ پارٹی کے سربراہ چندر بابو نائیڈو کا رد عمل آنا ابھی باقی ہے ۔ جنہیں مسلمانوں کا خیرخواہ سمجھا جاتا ہے ۔ این ڈی اے کے باقی ساتھیوں کو بھی اپنے رائے دہندگان کو دیکھنا ہے ۔ جن کی وجہ سے سیاست میں انکا وجود ہے ۔
کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے کے علاوہ راجستھان کے سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے اس نعرے کو ‘بدقسمتی’ قرار دیا ہے ۔ ابھی تو صرف اختلافات کے ابتدائی آثار نظر آرہے ہیں لیکن اگر بی جے پی اس نعرے کو آگے بڑھاتی ہے تو اسے اور این ڈی اے کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا ۔  بہار میں جے ڈی یو کی حریف راشٹریہ جنتا دل اس کے خلاف میدان میں آ گئی ہے ۔ انہوں نے کئی جگہوں پر پوسٹر لگائے ہیں جس میں لکھا ہے ۔ ‘نہ کٹے گا، نہ بٹے گا، تیجسوی یادو کے ساتھ رہے گا’۔ سوال یہ ہے کہ کسے بنٹنے سے روکا جا رہا ہے اور انہیں کس سے خطرہ ہے ۔ اب عام آدمی سمجھنے لگا ہے کہ بی جے پی کے پاس مہنگائی، غربت، بے روزگاری کو دور کرنے، معیشت کو گرنے سے روکنے، صحت وتعلیم کا بہتر انتظام کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ سماجی انصاف اور برابری کی کوئی پالیسی نہیں ہے ۔ اس لئے نفرت، ڈر، فرضی مدے کھڑے کر، نیا شگوفہ چھوڑ یا جھوٹ پھیلا کر الیکشن جیتنا چاہتی ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ جھارکھنڈ، مہاراشٹر ریاستوں اور ضمنی انتخابات میں ووٹ کے حق کا استعمال کرنے والے رائے دیندگان کیا اس بات کو سمجھیں گے ۔