سنبھل کو جلانے کی منشاء و مقصد
ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
متعلقہ مضامین
یوپی کے سنبھل کی شاہی جامع مسجد پر اچانک مندر ہونے کا دعویٰ ٹھونکے جانے سے یہ افسوسناک واقع پیش آیا ۔ غالب رائے یہ ہے کہ سنبھل کا ہنگامہ جان بوجھ کر حکومت، انتظامیہ اور عدلیہ کی ملی بھگت سے ہوا ہے ۔ مہنت رشی راج گری کی مسجد کے مندر ہونے کی درخواست پر ضلع جج ادتیہ سنگھ نے آناً فاناً میں سروے کا حکم دے دیا ۔ مہنت نے یہ درخواست ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین اور آٹھ افراد کے ساتھ عدالت میں داخل کی تھی ۔ ضلع جج نے مسلمانوں کو اپنا موقف رکھنے کا موقع تک نہیں دیا ۔ اسی دن 19 نومبر کو سروے کمشنر رمیش راگھو کے ساتھ سروے ٹیم نے مسجد جا کر سروے کیا ۔ مسجد کے ذمہ داران نے سروے ٹیم کے ساتھ پورا تعاون کیا، کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا ۔ امن و امان کے ساتھ سروے کا مکمل ہونے سے شاید فرقہ پرستوں کی منشاء پوری نہیں ہوئی تھی ۔ اسی لئے دوسرا سروے عدالت کی مرضی سے نہیں بلکہ مجسٹریٹ کے حکم پر ہوا ۔ سروے ٹیم صبح 6.30 پولس کی حفاظت میں جئے شری رام کے نعرے لگانے والے ایک گروپ کے ساتھ دوبارہ سروے کے لیے مسجد پہنچی ۔ یہ نعرے لگانے والے کہاں سے آئے، کیا پولس کو اس کی جانچ نہیں کرنی چاہئے ۔ سروے کے حق میں اور مخالفت کرنے والے ہجوم اور پولیس کے درمیان جھڑپ شروع ہو گئی ۔ پھر وہی ہوا جو یوگی کے دور میں ہر بار ہوتا ہے ۔ پولس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ جیسی چھیڑ دی ۔
مسجد کمیٹی کے صدر طفر علی کا کہنا ہے کہ اس غیر قانونی فعل کے لئے سنبھل کی ایس ڈی ایم وندنا مشرا اور پولس سرکل افسر انوج کمار قصوروار ہیں ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایس ڈی ایم نے زبردستی وضوخانہ کا پانی نکلوایا، جبکہ ضلع مجسٹریٹ اور پولس سپرنٹنڈنٹ ڈنڈے سے پانی کی گہرائی ناپنے پر راضی ہو گئے تھے ۔ ایس ڈی ایم کی ضد پر حوض کا پانی نکالنے سے باہر جمع لوگوں کو غلط فہمی ہو گئی کہ ثبوت جٹانے کے لئے مسجد میں کھدائی کی جا رہی ہے ۔ اس کی وجہ سے لوگ مسجد میں جانے کی ضد کرنے لگے ۔ اس پر پولس سکل افسر انوج کمار نے وہاں جمع لوگوں کو گالیاں دیں اور لاٹھی چارج کروا دیا ۔ اس سے افرا تفری مچ گئی ۔ پہلے پتھر کس نے چلایا اور گاڑیوں کو آگ کس نے لگائی ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے ۔ ویسے پولس نے بھیڑ پر پتھر چلانے کا الزام لگایا ہے ۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں پولس پتھر پھینکتے اور سیدھے گولی چلاتے دکھائی دے رہی ہے ۔ اس تشدد میں پانچ لوگوں کے مرنے کی خبر ہے ۔ چار کے مرنے کی پولس نے تصدیق کی ہے ۔ یہ موتیں گولی لگنے سے ہوئی ہیں، پولس کا بیان ہے کہ پولس نے گولی نہیں چلائی ۔ یہ لوگ تمنچے کی گولی سے ہلاک ہوئے ہیں ۔ جبکہ ظفر علی صاحب نے خود پولس کو گولی چلاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایس پی اور ڈی ایم کو گولی چلانے کے بارے میں کہتے ہوئے سنا تھا ۔ تبھی اعلان کیا تھا کہ اب گولی چلنے والی ہے آپ لوگ اپنے گھروں کو چلے جائیں ۔ لیکن کچھ لوگ پھر بھی وہاں موجود رہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ موتیں پولس کی گولی سے نہیں ہوئی ہیں تو پھر کس نے انکو گولی ماری ۔ ویڈیو میں جو پولس کی وردی میں گولیاں چلا رہے ہیں وہ کون تھے ۔ کیا پولس کی وردی والے غیر قانونی ہتھیار استعمال کر رہے تھے اس کی سی بی آئی جانچ ہونی چاہئے ۔
سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ سنبھل واقع کے ذریعہ بی جے پی ریاست کی نو اسمبلی سیٹوں پر ہوئے ضمنی انتخابات میں ہوئی کھلی دھاندلی پر اٹھ رہے سوالوں سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے ۔ 23 نومبر کو آئے ضمنی انتخابات کے نتائج میں بی جے پی نے سماجوادی سے تین سیٹیں چھین لی ہیں ۔ ان میں مراد آباد کی کندرکی سیٹ بھی شامل ہے جہاں تقریباً 65 فیصد مسلم ووٹر ہیں ۔ سماجوادی پارٹی نے 20 نومبر کو ووٹنگ کے دن کندرکی کے علاوہ، کم از کم تین انتخابی حلقوں میں بڑے پیمانے پر گڑ بڑی کے الزامات لگائے تھے ۔ امبیڈکر نگر میں کٹہری، کانپور میں سیسامؤو، مظفر نگر میں میراپور میں مسلم ووٹروں کو پولیس کے ذریعہ روکنے، ڈرانے اور لاٹھی چارج کرنے کے بھی الزامات لگائے تھے ۔جس کی وجہ سے اپوزیشن کی شکایات کو اکثر نظر انداز کرنے والے الیکشن کمیشن کو بھی مختلف حلقوں میں نصف درجن کے قریب پولیس افسران کی معطلی کے احکامات جاری کرنے پڑے ۔ اس سے پہلے کہ اپوزیشن انتخابی دھاندلی کی ان شکایات کو زور سے اٹھا پاتی، اگلی صبح سنبھل میں ہنگامہ پھوٹ پڑا، جس میں پانچ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پولیس والوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ۔ جن کی صحیح تعداد ابھی تک سامنے نہیں آسکی ہے ۔
سنبھل کے سانحہ کے لئے راہل گاندھی نے یوپی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ اکھلیش یادو نے اسے سرکار کی سازش کے تحت جان بوجھ کر کرایا گیا فساد بتایا ہے ۔ ممبر پارلیمنٹ عمران مسعود نے کہا کہ سنبھل میں آئین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں ۔ عآپ کے راجیہ سبھا ممبر سنجے سنگھ نے کہا کہ تشدد، فساد، خوف اور نفرت کا بازار گرم کرکے یوپی حکومت ریاست کو برباد کرنا چاہتی ہے ۔ چندر شیکھر آزاد اور مایا وتی نے بھی اسے حکومت کی سہ پر ہوا واقعہ قرار دیا ۔ اپوزیشن ممبران نے اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بحث کے لئے لوک سبھا اسپیکر سے ملاقات کی ہے ۔ پھر بھی اس بات کی امید کم ہے کہ پارلیمنٹ میں سنبھل سانحہ پر بحث ہو ۔
سنبھل میں جس طرح سے فساد بھڑکایا گیا، اس میں عدلیہ، حکومت اور انتظامیہ کی ملی بھگت دکھائی دیتی ہے ۔ پولس نے اس معاملہ میں سات ایف آئی آر درج کی ہیں ۔ ان میں سنبھل کے ممبر پارلیمنٹ ضیا الرحمنٰ برق، ممبر اسمبلی نواب اقبال کے بیٹے پر فساد بھڑکانے کی دفعات کے تحت مقدمہ لکھا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ 2500 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔ اب پتھر ہاتھ میں لئے 100 لوگوں پر مشتمل پوسٹر جاری ہوا ہے ۔ بدقسمتی سے ایک بھی ایف آئی آر ان کے خلاف نہیں لکھی گئی جنہوں نے وہاں فساد کے حالات پیدا کئے ۔ جے شری رام کے نعرے لگائے اور ماحول کو خراب کیا ۔ بیس کے قریب لوگوں کی گرفتاری ہو چکی ہے، پولس جسے چاہے گی اسے اس معاملہ میں ملزم بنائے گی لیکن فرقہ وارانہ بیان بازی کرنے والے بی جے پی والوں کی طرف وہ کوئی توجہ نہیں دے گی ۔ کیونکہ اسے ان مظالم اور زیادتیوں کے لئے موجودہ حکومت کی مکمل منظوری حاصل ہے، حکومت کی طرف سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اس لئے نہ صرف ان کو روکنے کا کوئی راستہ نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی کسی طرح کی سماعت کی امید بھی تیزی سے ختم ہو رہی ہے ۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس مایوسی نے ہی سنبھل فساد کی آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا ہے ۔ یہ نا امیدی اس وجہ سے اور بھی بڑھ رہی ہے کہ بڑے پیمانے پر عدالتیں مسئلہ کو حل کرنے کا ذریعہ بننے کے بجائے مسئلے کو بھڑکانے کا ہتھیار بن رہی ہیں ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ نام نہاد سروے کے عدالتی حکم کے ذریعے غیر ضروری فرقہ وارانہ فساد اور کشیدگی پیدا کرنے کا نمونہ کاشی کی گیانواپی مسجد اور متھرا کی عیدگاہ مسجد کے معاملے میں، سروے سے تنازعات کھڑے کرنے کی شکل میں دیکھنے کو ملا ہے ۔ اب اجمیر کی درگاہ میں بھی شیو مندر ہونے کی درخواست عدالت میں داخل ہو چکی ہے ۔ حیرت نہیں ہونی چاہئے اگر مستقبل میں نچلی عدالتوں کے سہارے دیگر مسلم مذہبی مقامات پر اسی طرح کے تنازعات کھڑے کئے جائیں ۔
سینئر ایڈوکیٹ راجیو رام چندرن کا کہنا ہے کہ قدیم مساجد اور مذہبی مقامات میں مندر تلاش کرنے کی فرقہ پرست عناصر کی مہم کے لئے سپریم کورٹ ذمہ دار ہے ۔ ڈی وائی چندر چوڑ نے بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد میں سروے کی اجازت دے کر اس شر انگیز مہم کا دروازہ کھولا ہے ۔ سابق سی جی آئی چندرچوڑ کی قیادت والی بنچ نے تکنیکی دلیل پر سروے کو منظوری دے دی تھی کہ سروے کا مطالبہ صرف یہ جاننے کے لئے تھا کہ کیا وہاں کوئی مندر موجود ہے؟ اور یہ مطالبہ کسی مذہبی مقام کی نوعیت کو تبدیل کرنے کے مطالبے سے مختلف ہے، جس پر 1991 کے قانون کے تحت پابندی ہے ۔ اس کے بعد سے نچلی عدالت کے ذریعہ 1991 کے قانون کی بنیاد پر خارج کر دیا گیا متھرا کی عیدگاہ مسجد تنازعہ کو دوبارہ زندہ کیا جا چکا ہے ۔ آج سنبھل اسی آگ میں جل رہا ہے ۔
عام انتخابات میں آر ایس ایس اور بی جے پی کو ملے مینڈیٹ کو دیکھتے ہوئے کئی لوگوں کو فرقہ وارانہ شدت میں کمی آنے کی امید تھی ۔ لیکن جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے ۔ عام انتخابات کے فوراً بعد بی جے پی اپنے معمول کے فرقہ وارانہ پروپیگنڈے میں لگ گئی کہ مسلمانوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے ۔ کئی بی جے پی لیڈران نے مسلمانوں کو اس کی سزا دینے، حکومت کی طرف سے ان کے کام نہ کرنے وغیرہ کا اعلان کیا ۔ ہریانہ الیکشن میں اس نے اپنے نفرتی ایجنڈے پر بڑھ چڑھ کر عمل کیا ۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے ‘بٹو گے تو کٹو گے’ کا نعرہ دیا ۔ آسام کے ہمنتا بسوا سرما نے اس میں اور نفرتی چھونک لگایا ۔ مہاراشٹر کے حالیہ اسمبلی انتخابات میں بہت ہی جارحانہ طریقہ سے نام نہاد "ووٹ جہاد” کے خلاف احتجاج کے نام پر دیویندر فڈنویس کی زیرقیادت شدید تقسیم کرنے والی مہم دیکھنے کو ملی ۔ آدتیہ ناتھ کے ’’بٹو گے تو کٹو گے‘‘ اور وزیر اعظم کے ’’ایک رہو گے تو سیف رہو گے‘‘ کے نعروں میں مسلم مخالف نفرت میں جو کمی تھی اس کی بھرپائی "ووٹ جہاد” کے نعرے سے کی جا رہی تھی ۔ ’’ووٹ جہاد‘‘ کی اصطلاح سے ہی واضح تھا کہ کس کے خلاف ’’ایک‘‘ ہونا ہے ۔ مہاراشٹر میں زبردست لیکن مشکوک جیت کے جشن کے موقع پر بی جے پی ہیڈکوارٹر دہلی میں وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں اشارہ دیا کہ فرقہ وارانہ مہم کو کم نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ اس مہم کا نیا ہتھیار وقف ترمیمی بل کی شکل سامنے آئے گا ۔ کیونکہ انہوں نے اسے آئین کے ہی خلاف قرار دے دیا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ بہرائچ کے بعد سنبھل اور اب اجمیر، اس سے قبل اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں مسلم مخالف مہمات پر وزیر اعظم کی حیرت انگیز خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ بھلے ہی ان کی حکومت کمزور ہو یا مکمل اکثریت کی مگر ہندوتوا کی فرقہ وارانہ مہم پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ وہ اور تیز سے تیز تر ہوتی جائے گی ۔ اس کا سد باب اسی وقت ہو سکتا ہے جب عوام اس کے خلاف کھڑے ہوں اور ان کے ہاتھوں سے اقتدار چھین لیں ۔ ورنہ یہ بیوقوف جنتا پارٹی لوگوں کو بیوقوف بناتی ہی رہے گی ۔ کیونکہ یہ مہنگائی کم نہیں کر سکتی، روزگار دے نہیں سکتی، صحت، حفاظت اور تعلیم کا کوئی منصوبہ نہیں، برابری اور حصی داری اس کی ڈکشنری میں نہیں کیونکہ آئین میں عوام کو دیئے گئے حقوق میں اس کا یقین نہیں ہے ۔ ملک کو منی بنا دینے کی سوچ اور آئین کو کوڑے دان سمجھنے والے لوگ ملک کو تباہ کر دیں گے ۔ اسے جلنے سے بچانے اور آزادی کو باقی رکھنے کے لئے عوام کو متحد ہونا ہی ہوگا ۔ ورنہ آج سنبھل ہے کل کوئی اور علاقہ اس نفرت کی آگ کے حوالے ہوگا ۔