ہر مسجدکی تہہ میں بھگوان کیا کریں مسلمان؟
مذمتی بیانات اورقراردادوں سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے
عبدالغفارصدیقی
9897565066
ایک کے بعد ایک مسجد اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کے نیچے کسی نہ کسی مندر کے ہونے کی بات کہہ کر مختلف عدالتوں میں درخواستیں دی جارہی ہیں اور عدالتیں ان درخواستوں کو نہ صرف سماعت کے لیے منظور کررہی ہیںبلکہ فی الفور ایکشن بھی لے رہی ہیں ،ایسا لگتا ہے کہ عدالتوں کے نزدیک ملک اور سماج کا سب سے اہم ایشو یہی ہے ۔پہلے سنبھل اور اس کے بعد اجمیر کے معاملہ میں عدالتوں نے جو رویہ اپنایا ہے، اس سے بھارت کی عدلیہ کی شفافیت پر سوالات پیدا ہونا لازمی ہیں ۔یو ں تو بھارتی مسلمانوں کو عدالتوں سے کم ہی انصاف ملا ہے ۔جس کی ایک بڑی مثال خود بابری مسجد کا فیصلہ ہے ۔اس کے باوجود بھارتی مسلمان اور ان کے رہنما جس قدر عدالتی کاررائیوں پر یقین رکھتے ہیں اور عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں کوئی اور کرتا نظر نہیں آتا ۔بہر حال یہ تو ہونا ہی تھا ۔ابھی تو ابتداء ہے ۔’’آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ ‘‘اورہوگا بھی کیا ؟’’وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا‘‘
مسلمان اکٹھے ہوں کر احتجاج کریں تو ان پر گولیاں چلادی جائیں ۔وہ عدالت جائیں تو تاریخیں لگادی جائیں ،وہ کسی سیاسی پارٹی سے فریاد کریں تو انھیں یہ کہہ کر ذلیل کردیا جائے کہ ’’ تم لوگ ہماری پارٹی کو کھل کر ووٹ نہیں کرتے ‘‘۔اپنی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب دیکھیں تو وہ ظالموں کی مدح سرائی میں رطب اللسان نظر آئیں ۔پھر آخر کیا کریں مسلمان؟یہ سوال آج ہر کسی کی زبان پر ہے ۔
مسلمانوں کے رہنما کہہ رہے ہیں کہ حکومت نفرت بھڑکا رہی ہے ۔وہ ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچارہی ہے ۔اس کے وزراء آتش بیانی کررہے ہیں ۔عدالتیں قانون و آئین کا مذاق بنا رہی ہیں۔یہ ساری باتیں درست ہیں ۔انھیں یہی کرنا ہے اور کرنا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ ابلیس کا یہی رول متعین کیا ہے ۔اسے شرانگیزی کرنے کی ذمہ داری عرش الٰہی سے عطا ہوئی ہے ۔آپ شیطان سے یہ امید کیوں لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنی شیطنیت سے باز آجائے ۔خیر و شر کیامعرکہ ازل سے گرم ہے اور ابد تک رہے گا ۔یہاں ہر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کررہا ہے ۔حکومت کے ذمہ داران اور سنگھ سے وابستہ تنظیموں کے فائربرانڈ نیتا تو آر پار کی بات کرہی رہے تھے کہ ایک مذہبی رہنما جو آج کل ’پدیاترا‘پر نکلے ہوئے ہیں ،وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ’’ غزوائے ہند یا بھگوائے ہند میں سے جو ہونا ہے جلد ہوجائے ‘‘۔اس کا مطلب ہے کہ صرف سیاستدانوں کی طرف سے ہی نفرت انگیزی نہیں ہے خود مذہبی خیمے کی جانب سے بھی اس بات کی خواہش ہے کہ ملک میں خون ریزی ہو ،خانہ جنگی ہو ،ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار اٹھائے جائیں اور وطن عزیز کو آگ کے حوالہ کردیا جائے ۔ایسا کہتے ہوئے ان کی زبانیں نہیں لڑکھڑاتیں ،ان کے دل نہیں کانپتے ۔اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی تعداد زیادہ ہے ،وہ منظم اور تیار ہیں ،حکومت ان کی پشت پناہ ہے ،فوج اور انتظامیہ ان کے ہم رکاب ہے ،عدالتیں ان کی ہم خیال ہیں ۔کثرت تعداد کا غرور اور اقتدار کے نشے میں وہ انسانیت کو بھول بیٹھے ہیں ۔وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ کائنات کا ایک خدابھی ہے ۔وہ بھول گئے کہ کثرت تعداد سے کوئی جنگ نہیں جیتی جاتی ،جب آسمان سے فیصلہ ہوجاتا ہے تو ہزاروں سالہ اقتدارچھوٹی سی ایسٹ انڈیاکمپنی کی آندھی میں اڑجاتا ہے اور جب خدائی فیصلہ آتا ہے تو برٹش سامراج کا سور ج برطانیہ میں ہی غروب ہوجاتا ہے ۔جب اس آسمانی بادشاہت کا فرمان جاری ہوجاتا ہے تو سپرپاورز بھی نہتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔ہمارے جذباتی، مذہبی اور سیاسی لیڈران کو یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ان کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے ۔اگر وہ خود صاحب عیال نہیں ہیں تو کیا ہوا یہاں ہمارے ہم وطن بھائی تو آل و اولاد والے ہیں ۔ان کی یہ جذباتیت ملک کو جلا کر خاک کردے گی ۔
خیراصل سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کریں ؟میری رائے میںمسلمانوں کو کچھ نہیں کرنا ہے،قانونی کارہ جوئی کے ساتھ ساتھ بس اپنا جائزہ لینا ہے کہ وہ مسلمان ہیں بھی یا نہیں ؟یا صرف ان کے نام ہی مسلمانوں جیسے ہیں ۔یہ جائزہ ہم میں سے ہر کسی کو لینا ہے ۔خواہ وہ عام مسلمان ہو یا خاص مسلمان۔یعنی وہ امیر ہو یا مامور ،امام ہو یا مقتدی ،مال دار ہو یا غریب ۔اسے ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہئے کہ وہ کس طرح کا اور کتنے فیصد مسلمان ہے ؟مسلمان کے نزدیک اس کا عقیدہ سب اہم ہے ۔اس کے ایمان اور اسلام کی بنیاد چند عقائد پر ہے ۔اب ذرا توحید کا حال ملاحظہ کرلیجیے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک خدا نام کی کوئی شئی یا تو ہے نہیں یا اگر ہے تو کسی گوشہ میں آرام کررہی ہے ۔جمعہ میں مساجد کا بھرجانااور باقی پانچ نمازوں میں خالی رہ جانا کیا خدا کے وجود کا انکار نہیں ہے ؟مزارات پر سجدہ ریزیاں ،تعویذ کی ڈوریاں ،غیر اللہ کے نام پر نذر اور نیازیںشرک کی علامات نہیں ہیں تو اور کیا ہیں؟معلامات میں بے ایمانی و دھوکا دہی کیا اس امر کا اظہار نہیں ہے کہ کہ نہ خدا ہے نہ آخرت،یہ گروہ بندیاں ،مسلکی تنازعات ،ان کے نام پر بننے والے فرقے ،مناظرہ بازیاںخدا کی کس تعلیم کا نتیجہ ہیں؟ہمارے اخلاق،ہمارے رسوم و رواج کیا پیغمبر آخرالزماں کی ہدایات و احکامات سے میل کھاتے ہیں ؟ہماری اکثریت کو نماز تک یاد نہیں ،قرآن کو سمجھ کر پڑھنے پر ہم نے پابندی لگارکھی ہے بلکہ اس کو سمجھنا گمراہی قرار دے دیا گیا ،اس کی جگہ قصہ کہانیوں نے لے لی ہے ۔آخر ہمارایہ رویہ کس دین کا غماز ہے ؟ہمارے ائمہ و رہنمایاں دین و مذہب کے رویے ،ان کی عوامی اور نجی زندگی میں صحابہ کرام ؓ کی کوئی ادنیٰ سی بھی جھلک موجود ہے ؟کار خیر کرنے سے پہلے نمودو نام کی خواہش ،کیا آخرت کا انکار نہیں ہے ؟کیا ہم وہی مسلمان اور اہل ایمان ہیں جن کے لیے ’’ اتم الاعلون ‘‘ کا وعدہ ہے ؟کیا ہم کسی پہلو سے ’’ خیر امت ‘‘ کی میزان پر پورے اتر رہے ہیں ؟کیا ہم جیسے منافقوں کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ فرشتوں کی فوج بھیجے گا ؟اگر ہم بغور جائزہ لیں تو ہماری اکثریت کے اندر ایمان اور اسلام کا دس فیصد حصہ بھی نہیں ہے ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری قیادت فرنٹ لائن پر لڑنے کی ہمت تو کیا کرتی وہ بھیڑکا حصہ بھی نہیں ہوتی ۔آپ جائزہ لیںکہ این آرسی یا دیگر مسائل پر کتنے احتجاجات ہوئے اور اس میں کتنے رہنما شریک ہوئے ؟سنبھل مسجد تنازع میں عام مسلمانوں کی بھیڑ پر پولس نے گولیاں چلائیں ،پانچ قیمتی جانیں چلی گئیں کیا ان شہداء میں کسی رہنما کی جان بھی تھی ؟اس سے پہلے بھی ہزاروں بار اس طرح کے حادثات ہوئے ہیں ۔آزادی کے بعد کس جماعت کا امیر یا صدر مسلمانوں کے ایشوز پرپولس کی گولی کا نشانہ بنا ۔لاکھوں کا اجتماع کرکے جان دینے کی بات کرنے والے علماء کے پائوں میں آزادی کے بعد کانٹا بھی نہیں لگا ہے ،ان کے نازک جسموں پر خراش تک نہیں آئی ہے ۔بے چارے غریب مسلمان ہی لقمہ اجل بنتے رہے ہیں ۔اس بات کو عام مسلمانوں کو سمجھنا چاہئے ۔ہماری قیادت اے سی دفاتر اور آراستہ حجروں میں بیٹھ کر بیان بازی کرتی ہے ۔مرغ و ماہی اڑا کر قراردادیں پاس کرتی ہے اور قوم سے حاصل چندہ پر داد عیش دیتی ہے ۔اب ایک حضرت نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسی چندے کی رقم میں سے سنبھل کے شہیدوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے کی امداد دیں گے ۔کیاکوئی امدادنوجوانوں کی قیمتی جانوں کا بدل ہوسکتی ہے ؟
میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں یہ حالات ہندوستانی مسلمانوں پر اللہ کی طرف سے عذاب ہیں ۔مسلمان اللہ کی رحمت کے مستحق نہیں ہیں ۔وہ جب تک خود کو اللہ کے فضل و کرم کا مستحق نہیں بنائیں گے لاکھ کوششیں کرلیں یہ حالات ساز گار ہونے کے بجائے ناساز گار ہوتے رہیں گے ۔ استاذ اپنے نافرمان شاگرد کو انعام نہیں دیتا ،والدین اپنی بے عزتی کرنے والی اولاد کو عاق کردیتے ہیں ،حکومت اپنے باغیوں کو سولی چڑھا دیتی ہے تو ہم اللہ کے باغی اور نافرمان بندے کس منہ سے اللہ سے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں ؟اگر ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا میں بالعموم اور اپنے وطن میں بالخصوص قعر مذلت سے نکلیں تو خدا کی رحمت کے مستحق بنیں ۔اس کے علاوہ کوئی راستا نہیں ہے ۔آپ لاکھ احتجاج کرلیں ،ہزاروں بارعظیم الشان اجتماعات کرکے سیکڑوں قراردادیں پاس کریں ،لاکھ عدالتوں کے چکر کاٹیں ،بورڈ اور کمیٹیاں بنائیں صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی ۔ہاں اگر آپ خود کو مسلمان بنالیں ،ملائوں کا اسلام چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کا اسلام اپنالیں ۔قصے کہانیاں چھوڑ کر قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے لگیں،ہم مانگنے کے بجائے دینے والے بنیں ، ایک طرف خیر امت ہونے کا ثبوت دیں اور دوسری طرف دعوتی مشن کو اپنائیں تو مجھے یقین ہے کہ اللہ کی رحمت ہماری جانب متوجہ ہوگی اور ہمارے مسائل حل ہونے لگیں ۔ہوسکتا ہے اللہ اپنا راستا اختیار کرنے والوں کو کسی آزمائش میں مبتلا کرے ،لیکن وہ آزمائش ہوگی عذاب نہیں ۔عذاب مجرموں کو دیا جاتا ہے اور آزمائش اپنے دوستوں کی لی جاتی ہے ۔