ایمان دار کون؟
حامد علی اختر
نتھو کو دیکھتے ہی سیٹھ گردھاری لال، لال پیلے ہوگئے اورزور زور سے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے، نتھو ہم تجھے کتنا ایمان دار سمجھتے تھے مگر آج تو نے ہمارے وشواس کو توڑ دیا ہے۔ نتھو بے چارہ سیدھا سادہ کسان تھا،وہ عیاری مکاری سے عاری تھا، اسے معلوم ہی نہیں کہ سیٹھ جی آج کیوں برس رہے ہیں۔ اس کا کام تو بس دن بھر دودھ اکٹھا کرنا اور رات کو اس کا ماوا (کھویا) نکالنا اور صبح سیٹھ گردھاری لال کی دوکان پر پہنچا دینا۔اس کے علاوہ دنیا میں کیا ہورہا ہے، کیوں ہورہا ہے اسے کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ اس نے ہمت کرکے سیٹھ جی سے ناراض ہونے کی وجہ پوچھی، سیٹھ ابھی تک نتھو کی سات پشتوں کو موٹی موٹی گالیوں سے نواز رہا تھا۔ سیٹھ نے بجائے نتھو کی بات کا جواب دینے کے ایک ماوے کا پیڑہ ترازو میں رکھا اور نتھو سے کہا دیکھو۔ نتھو نے پیڑے کا وزن دیکھا تو وہ بھی سکتے میں آگیا۔ 1000 گرام (۱؍کلو) کی جگہ 850 گرام کا پیڑہ۔ نتھو نے ہمت کرکے کہا، سیٹھ جی دوسرا تولنا۔ غرض کے سب پیڑے وزن میں برابر نکلے اور ہر ایک میں 150 گرام کم ۔ نتھو کے پاس اپنی صفائی میں کچھ کہنے کے لیے الفاظ ہی نہیں تھے۔ اس کا سر چکرانے لگا ، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے پر کھے جو ایمانداری وراثت میں دے گئے تھے آج وہ ایمان داری 150 گرام کے چکر میں تار تار ہوگئی تھی۔ سیٹھ جی کی تیز آواز سن کر اچھا خاصہ مجمع لگ چکا تھا، کوئی کہہ رہا تھا ارے شکل سے دیکھنے میں تو نتھو ایمان دار معلوم ہوتا ہے اور کوئی کہہ رہاتھا کہ شکل پر مت جاؤ، اب گاؤں والے بھی بہت چالاک ہوگئے ہیں۔ غرض کہ جتنے منھ اتنی باتیں۔ مگر نتھو سر پکڑے اس خیال میں گم تھا کہ ایسا ہوا کیسے بہت سوچنے کے بعد اسے خیال آیا کہ رات تو پیڑے بیوی نے تولے تھے ، مگر وہ اپنی بیوی کو اچھی طرح جانتا تھا ۔چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہوجائے وہ ایک گرام کا دھوکہ نہیں کرسکتی۔ مگر سچائی سامنے تھی اور اسے جھوٹا ثابت کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایک یا دو پیڑے میں کسی وجہ سے کمی ہوسکتی تھی مگر سب کے سب پیڑے ایک وزن کے تھے یہ تو جان بوجھ کر کم تولنے والی بات تھی۔
سیٹھ گردھاری لال کی مٹھائی کی دوکان پورے شہر میں جانی پہچانی جاتی تھی اور مٹھائی کے کاروبار میں سیٹھ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں بھیڑ بڑھ گئی اور تقریروں کا دور شروع ہوگیا۔ ہر کوئی سیٹھ جی کی ایمان داری کے قصیدے پڑھ رہا تھا اور نتھو کوایک ایسے ویلن کی حیثیت سے پیش کررہا تھا جیسے ملک میں اس سے بڑا کوئی دھوکے باز ہی نہ ہو۔
قسمت کا کھیل دیکھیے کہ نتھو کی بیوی اپنی بیٹی کی سسرال جانے کے لیے شہر آگئی، کیوں کہ اسے معلوم تھا کہا نتھو سیٹھ جی کی دوکان پر ہے، وہیں سے وہ اس سے مزید پیسے لے کر کچھ اور سامان خرید لے گی اور بیٹی کی سسرال چلی جائے گی۔ سیٹھ کی دوکان پر مجمع لگا دیکھ کر وہ گھبرا گئی ، بھیڑ کو کسی طرح چیرتے ہوئے جب وہ نتھو کے پاس پہنچی تو اسے علم ہوا کہ سارا مجمع اس کے پتی پر کیوں لعن طعن کررہا ہے۔ حقیقت کا علم ہوتے ہی ۔اس نے مجمع کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا اور سیٹھ جی سے کہا کہ سیٹھ جی یہ مٹھائی کا ڈبہ آپ ہی کا ہے، مٹھائی کا ڈپہ چوں کہ ابھی تک پیک ہی تھا اور سیٹھ جی کی دوکان کا پورا نام اور ایڈریس اس پر موجود تھا۔ اس لیے سیٹھ جی نے کہا کہ ہاں یہ ہماری ہی دوکان کا ہے۔ نتھو کی پتنی نے کہا در اصل کل میری بیٹی اور داماد آئے ہوئے تھے، میں نے ہی ان سے کہا تھا کہ سیٹھ جی کے یہاں سے ایک کلو مٹھائی لیتے آنا۔ یہ جب شہر سے گاؤں پہنچے تو میری بیٹی اور داما د جاچکے تھے۔ رات اتفاق سے میری پڑوسن ہمارا ایک کلو کا باٹ مانگ کر لے گئی۔ میںنے آپ ہی کے ڈبے سے ایک ایک کلو کے ماوے کے بیڑے تول دیے۔ یہ کہہ کر اس نے مٹھائی کا ڈبہ ترازو پر رکھا اور سب کے سب یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے کہ سیٹھ جی کے ایک کلو میٹھائی کا ڈبہ 850 گرام کا ہے۔ سب لوگوں کی سمجھ میں آگیا کہ ایمان دار کون ہے؟ حقیقت سامنے آنے کے بعد سب کی زبانوں پر تالے لگ گئے اور اب دوکان پر سیٹھ، نتھو اور نتھو کی بیوی کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔