پاگل
(واقعہ سچا ہے جگہ اور کرداروں کے نام فرضی ہیں اس کے باوجود بھی اگر مماثلت ہوجاتی ہے تو اسے اتفاق ہی سمجھا جائے۔)
حامد علی اختر
ساجد مرکزی یونیورسٹی سے MBA کررہے تھے کہ فرسٹ ایئر میں فیل ہونے کی اطلاع آئی۔ والدین نے اتفاق مان کر دوبارہ پڑھنے کے لیے بھیج دیا ، مگر مسلسل تین سال تک فیل ہونے کی وجہ سے والد نے ڈاکٹروں کی طرف رجوع کیا ، معلوم ہوا کہ دماغ میں کچھ خلل واقع ہوچکا ہے اور علاج سے ٹھیک ہوجانے کا امکان ہے۔ ساجدکا پڑھائی کے ساتھ ساتھ دماغ کا علاج چلتا رہا مگر علاج سے ساجد پوری طرح ٹھیک تو نہیں ہوسکا مگر جیسے تیسے کرکے تین سال کا کورس سات سال میں مکمل کرلیا۔ کسی مرکزی یونیورسٹی سے MBA کرلینا بہت بڑی بات تھی، مگر ساجد کے دماغ کی حالت کب خراب ہوجائے یہ خود ساجد کو بھی پتا نہیں تھا۔ ساجد کے علاج اور پڑھائی کے سبب ہی شاید گھر والے چھوٹے بیٹے شاہد کو صحیح سے نہیں پڑھا پائے، وہ ابتدائی تعلیم حاصل کرکے اپنے کاروبار میں مصروف ہوگیا اور دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائی ساجد کے علاج کے لیے ادھر ادھر کوششیں کرتا رہا۔ ساجد کے واقعات یوں تو اتنے ہیں کہ اگر سب کو ترتیب دیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہوجائے مگر یہاں صرف ایک واقعہ پر اکتفا کیا جارہا ہے ۔ ہوایوں کہ ساجد کی دماغی حالت زیادہ خراب ہوگئی اور محلے والوں کی شکایات کی فہرست طویل ہوتی گئی، چنانچہ گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ ساجد کو پاگل خانے میں بھرتی کرایا جائے۔ طے ہونے میں تو کوئی بڑی بات نہ تھی مگر یہ بات جیسے ہی ساجد کو پتہ چلے گی وہ اور زیادہ ہنگامہ شروع کردے گا ، کیوں کہ اس سے قبل بھی اس طرح کی بات اگر ساجد کے سامنے آتی تھی ، وہ گھر میں سب کا جینا حرام کردیتا تھا چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ساجد کو یہی بتایا جائے کہ دونوں بھائی آگرہ گھومنے جارہے ہیں۔
ساجد کو جیسے ہی آگرہ گھومنے کی اطلاع ملی وہ خوش ہوگیا۔اور اگلے روزشاہد سے پہلے نہا دھوکر تیار ہوگیا۔ سوٹ بوٹ اور ٹائی لگا کر کچھ اس طرح تیار ہوگیا کہ گھر والے بھی حیرت زدہ تھے، وہ کہیں سے لگ نہیں رہا تھا کہ وہ دماغی مریض ہے۔ ماں نے ہزاروں دعائیں دے کر کچھ پڑھ کر دم کیا کہ کہیں نظر نہ لگ جائے اور شاہدکو اشاروں اشاروں میں کچھ سمجھا کر دونوں بھائیوں کو رخصت کیا۔
اگلے روز تمام گھر والے بڑے بے صبری سے شاہد کے آنے کا انتظار کررہے تھے، ہزاروں خیالات و سوالات ان کے ذہن میں گردش کررہے تھے کہ معلوم نہیں کتنے دن ساجد کو پاگل خانے میں رہنا پڑے گا ، وہ کیسے رہے گا۔ کب تک ٹھیک ہوگا۔ پاگل خانے میں بھرتی ہوتے وقت پتہ نہیں کتنا ہنگامہ کیا ہوگا۔ ڈاکٹروں کے قابو میں کیسے آیا ہوگا اور نہ جانے کیا کیا خیالات ذہنوں میں آتے اور جاتے رہے ۔ ابھی سب گھر والوں اپنے اپنے حساب سے قیاس آرائیاں ہی کررہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اورشاہد کی آمد کا احساس ہوا ۔ گھر کے تقریباً سبھی افراد دروازے کی طرف دوڑے ، مگر یہ کیا دروازے پر تو ساجد صاحب موجود ہیں سب نے یک لخت کہا:شاہد کہاں ہے۔ ساجد نے بڑے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ پاگل خانے میں بھرتی کر آیا ہوں۔ اتنا سننا تھا کہ گھر میں کہرام مچ گیا۔ والد صاحب اپنی ضعیف حالت کی وجہ سے زیادہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں تھے،مگر انھوں نے اپنے آپ کو سنبھال کر بڑی مشکل سے پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اتفاق سے جاوید صاحب گھر پر موجود تھے۔ جاوید صاحب ابھی واقعہ سن ہی رہے تھے کہ محلے کے اور لوگ جمع ہونا شرو ع ہوگئے اور سب لوگوں نے طے کیا کہ فوراً آگرہ چلا جائے اور ساجد کو پاگل خانے والوں کے حوالے کرکے شاہدکو لایا جائے۔ جاوید صاحب نے جلدی سے اپنی کار نکالی اور دو تین افراد کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے تیا رکیا مگر ساجد صاحب تو فرار ہوچکے تھے۔ اب کیا کیا جائے، فوراً طے کیا کہ ساجد کو بعد میں دیکھیں گے پہلے شاہد کو کسی طرح بچایا جائے ، ورنہ ممکن ہے کہ پاگل خانے والے شاہد کو سچ مچ پاگل نہ کردیں۔ چنانچہ تیز رفتاری کے ساتھ آگرہ پاگل خانے پہنچا گیا اور جاکر ڈاکٹروں کو اصل مسئلہ سے آگاہ کیا۔ جس ڈاکٹر نے بھرتی کیا تھا وہ کسی صورت سے یہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ ساجد پاگل ہے۔ اس نے کہا صاحب یہ دونوں بھائی آئے اور شاہد نے بتایا کہ میرا بھائی پاگل ہے۔ اسے بھرتی کرنے آیا ہوں، اس کے بعد ساجد شروع ہوگیا اور جب تک رہا مجھ سے انگلش میں ہی گفتگو کرتا رہا اور اس نے ہی مجھے بتایا کہ چوں کہ شاہد خود پاگل ہے، اس لیے وہ مجھے کیا سب کو ہی پاگل سمجھتا ہے۔ اس نے خود فارم بھرا اور جب ہم لوگ شاہد کو پکڑ کے اندر لے جانے لگے تو اس نے خود دوسروں پاگلوں کی طرح چلانا شروع کردیا کہ میں پاگل نہیں ہوں، یہ پاگل ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
بڑی مشکل سے محلے والوں نے ڈاکٹروں کو یقین دلایا کہ شاہد پاگل نہیں ہے، ہاں بھائی کے مقابلے بہت کم پڑھا لکھا ہے۔ وہ انگلش میں آپ لوگوں کی گفتگو کا مطلب نہیں سمجھ پایا اور چوں کہ ساجد انگلش میڈیم سے ہی پڑھا ہے اور باقاعدہ وہ MBA کیا ہوا ہے۔ خدا کا شکر رہا کہ ڈاکٹر وں نے اپنی لیٹ لطیفی کی وجہ سے شاہد سے دوری بنائے رکھی ، ورنہ ممکن تھا کہ شاہد بھی پاگل ہوجاتا۔
ll