اختلاف رائے کو عناد و انتشار کا موجب نہ بنایا جائے
ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
اسلام امن و سلامتی ،اخوت و بھائی چارہ اور اتحاد و سالمیت کی تعلیم پر مبنی دین ہے ۔اسلام کا مادہ س ل م ہے جس میں امن و سلامتی مضمر ہے ۔قرآن میں اہل ایمان کو بھائی بھائی کہا گیا ہے جس سے مومنین کے مابین اخوت کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔اعتصام بحبل اللہ(اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو)کا درس اور ولا تفرقوا ( اور فرقہ فرقہ نہ ہوجائو)کی تنبیہ ہمیں اتحاد و سالمیت کی تعلیم دیتی ہے ۔مسلم معاشرے کی تشکیل ان تین نکات پر مشتمل ہے ۔ان میں سے ہر ایک کے لیے تفصیلی ہدایات قرآن و احادیث میں موجود ہیں ۔نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام کے مزاجوں کی تربیت انھیں بنیادوں پر فرمائی ہے ۔آپ ؐ نے جب یہ فرمایا کہ : ’’ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔(متفق علیہ)‘‘ تو صحابہ کرام ؓ نے اپنے ساتھیوں سے اختلاف رائے کے باوجود کوئی ایسا لفظ زبان سے نہیں نکالا جس سے ان کی دل آزاری ہوتی ہو۔جب آپ ؐ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخاۃ کا رشتہ قائم کیا تو تاریخ کی آنکھوں نے محیرالعقول مناظر دیکھے ۔جب آپ ؐ نے انھیں متحد ہونے کی دعوت دی تو وہ رنگ و نسل ،حسب و نسب،علاقہ و جغرافیہ کے تمام امتیازات بھول گئے اور باطل کے مقابلہ پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے ۔
آج ہم اسلام کی ان تعلیمات کو بھول گئے ہیں اور آپس میں ہی برسر پیکار ہیں ۔چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر ایک دوسرے پر گمراہی کا الزام لگارہے ہیں ۔تعلیمی اداروں میں اسلاف کے اختلاف رائے کو اس طرح پڑھایاجارہا ہے کہ اپنے مسلک کے علاوہ باقی مسالک ضال اور مضل نظر آتے ہیں ۔اس تعلیم کے نتیجہ میں مسلم معاشرہ بے شمار خانوں میں تقسیم ہوگیا ہے ۔جب کہ اختلاف رائے دوررسالت ،دور صحابہ اور دور تابعین میں بھی پایا جاتا تھا ۔ہمارے اسلاف دوسرے کی آراء کا اسی طرح احترام کرتے تھے جس طرح خود اپنی رائے کو عزت دیتے تھے ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ دور اول میں نہ کوئی دیوبندی تھا ،نہ بریلوی ،نہ حنفی تھا نہ شافعی ،وہ سب اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے تھے ۔ان کو جب اللہ کا حکم سنایا جاتا تو وہ کسی مفسر کی تفسیر کا حوالہ دے کر اس پر عمل سے گریز نہیں کرتے تھے ،ان کے سامنے جب صحیح حدیث پیش کردی جاتی تو ان کے سر خم ہوجاتے تھے ۔اگر دوسرا فریق بھی کوئی حدیث بطور ثبوت پیش کردیتا تو اپنی اپنی سمجھ کے مطابق حدیث کے منشاء کی تکمیل کی کوشش کرتے تھے ۔اس ضمن میں درجنوں واقعات پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ایک بار نبی اکرم ﷺ نے ایک لشکر کو روانہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ فلاں مقام پر جاکر نماز عصر ادا کرنا ۔لیکن نماز کا وقت منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی ہوگیا ۔اہل لشکر (جوالحمد للہ سب صحابی تھے )کے درمیان اختلاف ہوگیا ۔کچھ لوگوں نے کہا کہ حضور نے منزل پر پہنچ کر نماز ادا کرنے کو کہا ہے ،کچھ نے کہا ،نہیں حضور کا منشاء یہ تھا کہ ہم جلد وہاں پہنچ جائیں ،اب جب کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے تو ہمیں نماز پڑھ لینا چاہیے ۔چنانچہ کچھ لوگوں نے نماز ادا کی اور کچھ لوگوں نے سفر جاری رکھا ۔نہ بھوئیں تنیں ،نہ آستینیں چڑھیں ،نہ کسی نے کسی کو گمراہ کہا نہ فاسق ۔واپسی پر یہ واقعہ حضور اکرم ﷺ کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے دونوں کی تائید فرمائی ۔اس کا مطلب ہے کہ فہم قرآن و سنت میں اختلاف رائے کاپایاجانا اورہونا ایک فطری امر ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ہی شکل وصورت اور ایک ہی رنگ روپ پر پیدا نہیں کیا بلکہ تمام انسانوں کی شکل وصورت، رنگ وروپ اور جسمانی طاقت وقوت میں پیدائشی تفاوت پایا جاتا ہے۔ اسی طرح سے مختلف انسانوں کے درمیان عقل وشعور ،فکر وتفکر اور غوروخوض کی صلاحیتوں اور مدارج میں فرق پایا جانا بالکل فطری امر ہے۔ جس طرح سے ہماری زبان، ہمارے رنگ اور ہماری جسمانی ساخت کا مختلف ہونا خدا کے وجود کی علامت ہے۔ اسی طرح سے ہماری عقلی صلاحیتوں اور ذہنی ساختوں اور ان کے نتائج غوروفکر میں اختلاف پایا جانا خدا کے وجود کی عظیم تر نشانی ہے۔ کیونکہ انسان کی تخلیق اگر کسی خالق حکیم کے بغیر خود بخود وجود میں آجاتی تو تمام انسانوں کے رنگ اور شکل کی یکسانیت کے ساتھ ان کی ذہنی وفکری ساخت بھی یکساں ہوتی اور پھر انسانی زندگی ارتقاء کے بجائے جمود وتعطل کا شکار ہوکر رہ گئی ہوتی۔ اس لیے ذہن وعقل کے مدارج کا مختلف ہونا، ایک طرف خدا کی قدرتِ کاملہ کا ایک بیّن ثبوت ہے تو دوسری طرف یہ اختلاف کائنات کی ترقی، وجود انسانی کے ارتقاء اور زندگی کی بقاء وتعمیر کے لیے لازمی وضروری ہے۔یہ واضح ہوجانے کے بعد کہ اختلاف فکر ونظر ایک فطری امر ہے۔ ا س بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس فطری اختلاف کا دائرہ کار کیا ہے؟
اگر اختلافِ رائے ذاتی مفاد، شخصی اغراض ، مادی منفعت یا حظ نفس کے لیے ہو تو وہ ناجائز اور غیر محمود ہے۔ اس طرح کے اختلافات کو قرآن وحدیث کی زبان میں ’’ہوی‘‘ (خواہشات نفس)کہاگیا ہے ۔ اور’’ہویٰ‘‘ گمراہی وضلالت کا سرچشمہ اور فساد وکرپشن کا منبع ہے۔ تاریخِ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ جب کوئی قوم’ ’ہویٰ‘‘ کاشکار ہوجاتی ہے تو اس کو زوال وانحطاط سے نہیں بچایا جاسکتا۔ قوم یہود نے جب’’ہویٰ‘‘ کی اتباع وپیروی کی، خدا کے احکام میں ’’ہویٰ‘‘ کی بنیاد پر اختلاف کیا اور اس کے نتیجہ میں تحریف وتنسیخ کا ارتکاب کیا تو خدا کی جانب سے رہتی دنیا تک کے لیے ان پر ذلت ومنکبت مسلّط کردی گئی۔ چنانچہ قرآن پاک واضح الفاظ میں اس حقیقت پر اس طرح روشنی ڈالتا ہے۔
’’اور اگر حق ان کی خواہشات کی پیروی کرے تو زمین وآسمان اور ان میں رہنے والوں میں فساد برپا ہوجائے۔‘‘(المومنون:71)
جب اختلاف’’ہویٰ‘‘ کی بنیاد پر ہوتا ہے تو انسان کے اندر ضد، ہٹ دھرمی کے جذبات کارفرما ہوتے ہیں یا اپنی علمی قابلیت او ربلندیٔ فکر ودانش کار عب جمانا مقصود ہوتا ہے اور پھر انسان اپنی بات منوانے کے لیے تمام ذرائع بلکہ یوں کہئے کہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے اور اپنی رائے لوگوں پر مسلط کرنے کے لیے ملت کی شیر ازہ بندی کو بھی پارہ پارہ کردینے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھتا۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جس سے ملت اسلامیہ اس وقت پورے عالم انسانی میں دوچار ہے۔ ’’ہویٰ‘‘ کی بنیاد پر بعض اصحابِ علم نے نقطۂ نظر کے اختلاف کو مستقل ایک مکتب فکر(School of Thought)مذہب ،مسلک اور فرقہ کی حیثیت دے دی اور اس طرح ملت اسلامیہ لاتعداد مسلکوں اورفرقوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی اور لوگوں نے یہ سوچنا بھی چھو ڑدیا کہ ان اختلافات کے ڈانڈے دراصل ’’ہویٰ‘‘ سے جاکر مل رہے ہیں او ر پھر شیطان نے ان اختلافات کو خوب صورت وآراستہ اور دین کا ایک جز بناکر اس طرح پیش کیا کہ لوگوں کے عقیدے میں یہ بات داخل ہوگئی کہ انہوںنے اپنے فرقہ ، یا مسلک کے حصار سے اگر ذرا بھی قدم باہر نکالا یا اس کے مخصوص نقطۂ نظر سے آزاد ہوکر ذرا بھی سوچا تو ان کی نجات کے تمام دروازے بند ہوجائیں گے اور اس طرح ملت اسلامیہ ’’اختلافات‘‘ کی دلدل میں ایسی پھنسی کہ تمام ترکوششوں کے باوجود اس سے نکلنے کی امید نظر نہیں آرہی ہے۔
اگر اختلافِ رائے ’’ہویٰ‘‘ کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ تلاشِ حق، نتائج غوروفکر کے اظہار کے لیے ہو، اس میں ضد ، حظ ِنفس کا کوئی شائبہ نہ ہوتو اس طرح کا اختلافِ رائے نہ صرف یہ کہ جائز بلکہ ضروری اور قابلِ ستائش ہے۔ کیونکہ اختلاف رائے کا پایا جانا انسانی فطرت ہے۔ یہ اختلاف رائے جب بغیر ’’ہویٰ‘‘ کے پایا جائے تو اس سے انسان کو بہت سے فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ اس طرح کے مخلصانہ اختلافات کی شکل میں مختلف فیہ مسئلہ کے تمام پہلو سامنے آتے ہیں، بہت سے امکانات واحتمالات کے جائزہ کا موقع ملتا ہے۔ عقل وشعور کی تربیت اور آبیاری ہوتی ہے، فکر ونظر کے دروازے کھلتے ہیں،ارتقاء وتعمیر کے لیے نئے گوشے سامنے آتے اور اس طرح مسلم معاشرہ خلوص ومحبت کے ماحول میں اپنے مسائل کوبہتر طور پر حل کرکے ترقی کی راہ پرگامزن ہوتا ہے۔
یہی وہ طرز فکر ہے جو ہمیں مسلمانوں کے دور اول میں نظرآتا ہے او ر یہ اصول کہ اختلاف رائے کرنے والے کو اپنی رائے پر مصرنہ ہونا چاہیے، بلکہ اس کو یہ سوچنا چاہیے کہ جس طرح وہ اپنی رائے کو صحیح سمجھتا ہے اسی طرح سے دوسرے کی رائے بھی صحیح ہوسکتی ہے اور جس طرح وہ دوسرے کی رائے کو غلط سمجھتا ہے ٹھیک اسی طرح سے اس کی رائے بھی غلط ہوسکتی ہے۔ یہ اسلام کا زریں اصول ہے جس کو اپنا کر مسلمان قرن اول میں علم وتہذیب کی شمعیں روشن کرتے رہے،افکارونظریات کی دنیا میں انقلاب لاتے رہے، علوم وفنون کو ارتقاء سے ہمکنار کرتے رہے، ثقافت وتمدن کو بلندی وپاکیزگی عطا کرتے رہے او رعملاً ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کرتے رہے جہاں لڑائی جھگڑے ، مخالفت ومخاصمت، فرقہ بندی وگروہی عصبیت کا نام ونشان تک نہیں ملتا۔ جہاں معاشرہ کا ہر فرد دوسرے فرد کا ادب واحترام کرتا ہے ، اس کی عزت وآبرو کو اپنی عزت وآبرو سمجھتا ہے اوراختلافِ رائے رکھنے والے کا ادب واحترام بھی اسی طرح کرتا ہے جس طرح اپنی رائے سے متفق لوگوں کا ادب واحترام کرتا ہے چنانچہ اس طرح خوش گوار تعلقات کے اس ماحول میں قابل رشک انسانی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔
ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اختلافِ رائے کرتے وقت نہایت دیانت داری سے سخت احتساب کرے کہ اس کے اختلافِ رائے کے ڈانڈے کہیں ’’ہویٰ‘‘ (خواہش نفس) سے جاکر تو نہیں مل رہے ہیں؟ کہیں اس کی رائے اور مسلک کے ظاہری حسن کو شیطان نے تو آراستہ نہیں کیا ہے؟ وہ وقتی حالات کے دبائو سے متاثر ہوکر مستقل اصول ومبادی سے انحراف تو نہیں کررہا ہے؟ اس کے نقطۂ نظر کی تشکیل میں کسی جانب شعوری یا غیر شعوری جھکائو تو کار فرما نہیں ہے؟ اگر اس احتساب کے نتیجہ میں انسان کو خود اپنی رائے میں تذبذب نظر آئے یا وہ قلق اور بے چینی محسوس کرے تو اسے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی رائے سے دست کش ہوجانا چاہیے کہ خدا نے ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے پہلے اسے سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی اور اگر انسان کو احتساب کے بعد شرح صدر ہوجائے کہ اس کی رائے کا محرک خلوص ہے، اس نے قرآن وحدیث کے احکام کو پیش نظر رکھا ہے ، اس کی رائے عقل سلیم سے بھی متصادم نہیں ہے، اس کی رائے کوبنانے میں وقتی حالات یا دبائو کو بھی کوئی دخل نہیں ہے، تو اس کو اپنی رائے کا اظہار اس ارادہ سے کرنا چاہیے کہ اگر اس کے سامنے اس سے بہتر کوئی دوسری رائے آجائے گی تو وہ اس کو قبول کرنے اور اپنی رائے کو رد کردینے میں کوئی باک محسوس نہیں کرے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے درمیان جوفکری ،فروعی اور جزوی اختلافات ہیں انھیں بالائے طاق رکھ کراتحاد باہمی اور اخوت کا ثبوت دینا چاہئے اور جزوی و فروعی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں کفر و باطل کے مقابلہ میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہئے۔