حامد علی اختر
حضرت کا نام تو طمطراق الغمناک تھا، مگر عرف عام میں حضرت بڑے شاہ کے نام سے مشہور تھے۔ حضرت کے کشف و کرامات کے قصے دور دور تک مشہور تھے اور جنات پر آپ کی حکومت کا چرچا عام تھا۔ نام میں نے بھی حضرت کا کئی بار سنا تھا مگر دیدار سے محروم تھا اور سچ کہوں تو ملنے سے ڈرتا بھی تھا کہ جو جنات کو غلام بناکر رکھتا ہو تو وہ مجھ جیسے ناتواں آدمی کا معلوم نہیں کیا حشر کرے، مگر کہتے ہیں قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے۔ بڑے شاہ سے ملاقات ہونا قسمت میں لکھا تھا تو ہونی ضرور تھی۔ ہوا یوں کہ ایک ہوٹل میں بیٹھے ہوئے ہم چند دوستوں کے ساتھ حالاتِ حاضرہ پر دست و گریباں تھے کہ ایک دوست نے گھڑی دیکھی اور کہنے لگا کہ چلتا ہوں، عراق کے حالات دیکھ کر آؤں۔ پہلی دفعہ میں تو میں نے سمجھا کہ شاید ٹی وی پر پروگرام آرہا ہوگا۔ یہ اسی کے دیکھنے کی بات کررہا ہے۔ جب میں نے کہا کہ ارے لائٹ تو غائب ہے، تم دیکھو گے کیسے۔ کہنے لگا: ٹی وی پر نہیں، بڑے شاہ ایک بچہ پر جن کو حاضر کردیتے ہیں اور وہ عراق کے حال بتاتا ہے اور امریکہ کا کیا نقصان ہوا وہ بھی اور صدام حسین کہاں ہیں؟ وہ امریکہ کو کیسے شکست دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ سن کر تعجب ہوا میں نے پوچھا کہ کیا میں بھی تمہارے ساتھ چل سکتا ہوں تو اس نے کہا کیوں نہیں؟ میں نے حضرت بڑے شاہ کے بارے میں اپنے ڈرنے کی وجوہات کا ذکر کیا تو وہ ہنسنے لگا اور بولا : ارے میرے بہت اچھے تعلقات ہیں اور تم بے فکر رہو وہ ویسے بھی بہت اچھے آدمی ہیں۔
بہرکیف ہم تھوڑی دیر بعد حضرت بڑے شاہ کے دربار میں تھے۔ ایک بچہ کرتا پائجامہ پہنے ہوئے، ٹوپی اوڑھے ہوئے بیٹھا تھا اور حضرت جب سوال کرتے فوراً جواب دیتا۔ بتا آج امریکہ نے کتنے بم گرائے ہیں؟ بچہ: دس۔ کتنے عراقی شہید ہوئے؟ دس۔ امریکہ کے کتنے فوجی مرے؟ پچاس۔ اور سب لوگ تالی بجاکر خوشی منانے لگتے۔ کچھ دیر میں حالات کا معائنہ کرتا رہا اور جلد ہی سمجھ میں آگیا کہ حضرت بھی کم پڑھے لکھے ہیں اور یہ عوام جو ہے یہ بھی حضرت کی طرح ہی ہے۔ کوئی کہیں مزدوری کرتا ہے تو کوئی رکشہ چلاتا ہے۔ چند روز کا آنا جانا تھا کہ حضرت کھل کر سامنے آگئے۔ ہم جو بچے کو یاد کرادیتے تھے، وہ بچہ شام کو عوام کے سامنے بول دیتا ہے، ہم چونکہ تازہ خبریں ہی اس بچے کو بتاتے تھے، اسی لیے لوگ جاکر جب دوسروں کو بتاتے تو جو کچھ ہورہا ہے، وہ ہی یہ لوگ بتاتے تو لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی اور ایک روز ایک نیوز چینل والے لائیو پروگرام دکھانے کے لیے آگئے۔ حضرت بڑے شاہ تو بہت خوش تھے مگر جب ہم نے اصل حالات سے آگاہ کیا تو حضرت بچے کو لے کر کہیں چلے گئے اور یہ سلسلہ بند ہوگیا۔
چند روز تک بڑے شاہ غائب رہے پھر معلوم ہوا کہ نیا ٹھکانا فلاں جگہ ہے۔ چنانچہ ہم خدمت میں حاضر ہوئے، نہ ملنے کا شکوہ کیا۔ کہنے لگے ارے تم ٹھیک کہتے تھے۔ ہمارے ساتھ کئی لوگوں کو ان نیوز چینل والوں نے جیل بھجوادیا۔ اس ڈر سے ہم چھپ گئے تھے۔ اب کچھ سکون ملا ہے، تو تمھیں یہاں بلوایا ہے۔ اسی بیچ پنجرے میں بند الو، کوے اور گدھ پر میری نظر پڑی تو میں نے ماجرا پوچھا۔ بولے : آج ہی دو ہزار روپیے کے منگوائے ہیں۔ کیوں؟ ارے ان کی آنکھیں نکال کر ایک خاص قسم کا ورد پڑھ کر ان سے سرمہ خزینہ بناؤں گا۔ سرمہ خزینہ کا مطلب؟ ارے یہ ایسا سرمہ ہے کہ آنکھ میں لگاتے ہی زمین میں چھپا ہوا سونا چاندی سب نظر آنے لگتا ہے۔ میں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے۔ کہنے لگے ممکن ہے۔ میں نے پوچھا کتنے دن لگیں گے۔ بولے: بس اگلے ہفتے تیار ہوجائے گا۔ میں اور تم دو تین لوگ اور ہیں ، جو میرے خاص ہیں، سب کے سب پرانے قلعے چلیں گے، اور وہاں دفن خزانہ دیکھ کر موقع ملتے ہی نکال لیں گے۔ ایک ہفتہ بعد بلاوا آگیا کہ پرانے قلعے چلنا ہے۔ سرمہ تیار ہے۔ حضرت بڑے شاہ کے ہمراہ ہم پانچ لوگ پرانے قلعے پہنچ گئے۔ حضرت نے جیب سے سرمہ خزینہ نکالا۔ ہر کوئی چاہتا تھا کہ سرمہ وہ لگائے۔ مگر حضرت بڑے شاہ پانچوں پر اپنا اعتبار ہونے کا دعویٰ بھی کررہے تھے مگر سرمہ خود ہی لگانے کے طرح طرح کے بہانے بنا رہے تھے۔ کبھی کہتے چونکہ خزانے پر جنات کا پہرہ ہوتا ہے، تم لوگ دیکھو گے تو بے ہوش ہوجاؤ گے۔ نہ جانے کتنے بہانے اور کتنے قصے۔ مجبوراً مجھے سب کو سمجھانا پڑا۔ سب لوگ اس بات پر راضی ہوگئے کہ حضرت ہی سرمہ لگا لیں ، مگر جن صاحب نے سرمہ بنانے میں پیسے خرچ کیے تھے، وہ میرے کان میں کہنے لگے ارے مجھے تو حضرت پر بالکل یقین نہیں ہے۔ پہلے سرمہ بنانے کا خرچ انھوںنے کل دو ہزار بتایا تھا اور اب تک تقریباً بیس ہزار روپیہ خرچ ہوگئے ہیں۔ اس لیے مال میں آدھا حصہ میرا بنتا ہے۔ میں نے کہا وہ تو بعدمیں ہوجائے گا فی الحال یہ تو پتہ چلے کہ مال کہاں، کہاں دفن ہے۔ حضرت نے کچھ پڑھنا شروع کیا اور پھر سرمہ لگالیا۔ سرمہ لگاتے ہی حضرت بڑی تیز رفتار سے ایک سمت بھاگے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر نہ جانے کیا پڑھ رہے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا، ہم ایک پیڑ کے سائے میں کھڑے تھے۔ حضرت کو ادھر اُدھر بھاگتا دیکھ کر ہم لوگوں کو ایسالگا جیسے کہ سارا خزانہ انھیں دکھائی دے رہا ہو اور حضرت حزانہ دیکھ کر خوشی کے مارے ادھر ادھر دوڑ رہے ہوں۔ وہ صاحب جنھوں نے پیسہ خرچ کیا تھا، بولے: دیکھو میں پہلے ہی کہہ رہا تھا اب حضرت پاس آنے کو تیار نہیں ہیں۔ سارا مال خود ہڑپ کرنے کے فراق میں ہیں۔ خیر چند منٹ بعد آواز دیتے ہوئے ہم لوگ ہی حضرت کے پا س پہنچے تو معلوم ہوا حضرت خزانے کے چکر میں نہیں، بلکہ آنکھوں کے چکر میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ اور پانی تلاش کررہے ہیں۔ بڑی مشکل سے پانی ملا مگر بے سود، بے فائدہ۔ واپس آکر نہ جانے کتنے ڈاکٹروں کو دکھایا مگر حضرت کی آنکھیں شہید ہوچکی تھیں، اور علاج معالجہ سب بے سود تھا۔ مریدوں نے یہ خبر عام کردی کہ جنات سے لڑے وقت حضرت کی آنکھیں شہید ہوگئیں۔