خر پردیسی
حامد علی اختر
غریب داس پڑھے لکھے تو تھے مگر اردو سے نابلد تھے۔ مگر صحبت اردو والوں کی تھی جن میں سے کچھ لوگ شاعر بھی تھے۔ جگہ جگہ مشاعرے پڑھ کر آتے اور پھر ان پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ جہاں شاعروں کو لفافہ نہیں بھی ملتا تھا، وہاں بھی ان کا دعویٰ ایک اچھی خاصی رقم ملنے کا ہوتاتھا۔ عزت و احترام ، آؤ بھگت کے قصے اس طرح بیان کیے جاتے کہ معلوم ہوتا تھا جیسے کسی وزیر اعظم کا استقبال ہوا ہو،ا ور تمام لوگ بس شاعر صاحب ہی کے آگے پیچھے رہتے ہوں۔
یہی تمام عوامل تھے جنھوں نے غریب داس کو شاعر بننے پر مجبور کردیا اور غریب داس نے کسی کی غزل سنا کر شاعر ہونے کا دعویٰ ٹھونک دیا۔ احباب چونکہ اچھی طرح غریب داس سے واقف تھے اس لیے ان پر تو دھاک نہیں جم پائی مگر جو لوگ اس میدان کے نہیں تھے ان پر اثر ہونا فطری تھا۔ چنانچہ غریب داس شاعر ہوگئے اور احباب نے بھی واہ واہ شروع کردی۔ کچھ دنوں بعد اب غریب داس نے مشاعروں میں شرکت کے لیے احباب پر زور ڈالنا شروع کیا احباب چونکہ سب کچھ جانتے تھے اور روزانہ کی محفل میں غریب داس کی حاضری ضروری تھی، اس لیے سب لوگوں نے کہا کہ بھائی شاعروں کی تعداد بہت ہے۔ اس لیے آپ ایسا کریں کہ اپنے آپ کو برجستہ شاعر کے طور پر پیش کریں تو معاملہ آسان ہوجائے گا غریب داس نے معصومیت سے پوچھا کہ یہ برجستہ کیا ہوتا ہے۔ تو ان کے ایک دوست جو شاعر بھی تھے اور جانتے تھے کہ غریب داس ہندی میڈیم سے پڑھے ہوئے ہیں، انھوں نے فوراً جواب دیا کہ تتکال، پھر کیا تھا غریب داس تتکال شاعر بن گئے۔ لوگ جب چاہتے کوئی بھی لفظ یا قصہ سنا دیتے اور غریب داس اسے اپنی تک بندی میں پیش کرکے تتکال شاعر ہونے کا ثبوت فراہم کردیتے۔
احباب نے مشورہ دیا کہ نام تو آپ کا ماشاء اللہ بہت اچھا ہے مگر شاعری میں تخلص کی اپنی اہمیت ہے اور بے شمار شاعروں کو عوام ان کے تخلص سے ہی جانتی ہے۔ اصل نام تو عوام تک پہنچ ہی نہیں پاتا۔ غرض کہ کئی روز کی بحث کے بعد یہ طے ہوا کہ کل غریب داس کے دولت کدے پر تمام احباب جمع ہوں گے اور پھر تخلص طے کیا جائے گا۔ احباب میں جو سب سے بزرگ تھے انھوں نے مشورہ دیا کہ تخلص مختصر ہو،تا کہ عوام کو تخلص آسانی سے یاد ہوجائے۔ احباب نے کافی نام پیش کیے جو رد ہوتے چلے گئے آخری میں بزرگ نے خود ہی کہا کہ حمار پردیسی میں کیا قباحت ہے۔ سب نے ایک ساتھ مبارک ہو، مبارک ہو کا نعرہ بلند کیا۔ قبل اس کے حمار پردیسی پر مہر لگتی بزرگ خود ہی بولے ارے بھائی یہ حمار بھی کچھ بڑا معلوم ہوتا ہے اگر آپ لوگ مناسب سمجھیں تو حمار کی جگہ خر پردیسی کرلیں۔ احباب نے فوراً ہاں میں ہاں ملائی اور خر پردیسی پر فوراً اتفاق رائے سے مہر لگ گئی۔
غریب داس کو سب نے گلے مل کر مبارک باد دی اور سب نے غریب داس کی مشاعروں میں شرکت اور ترقی کی امید جتائی۔ غریب داس نے بزرگ سے خر کا مطلب جاننا چاہا تو انھوں نے کہا ارے بھائی تمہیں خر کا مطلب بھی نہیںآتا جبکہ خر عیسیٰؑ عرفِ عام میں مشہور ہے۔ غریب داس نے خفت سے بچنے کے لیے سوچا کہ جب ساتھ میںحضرتِ عیسیٰؑ کا نام جڑا ہے تو کچھ اچھا ہی ہوگا، فوراً باہر آکرخود ہی غریب داس نے اپنے ان احباب جو ان ہی کی طرح کے تھے اپنے تخلص کی اطلاع دی اور سب کو ’خر‘ کی اہمیت بتاتے ہوئے فرمایا کہ یہ لفظ قرآن میں بھی آیا ہے۔ جبکہ موصو ف کو یہ پتا ہی نہیں کہ خر (گدھا) فارسی کا لفظ ہے۔ اور قرآن میں نہیں ہوسکتا اس لیے اب برکات و انعامات کا نزول ان پر ہونے والا ہے۔
احباب دعوت کھا کر اور تخلص رکھ کر خوش تو بہت تھے مگرمشاعرے پڑھوانے کا مسئلہ بہت نازک تھا سب کا خیال تھا کہ اگر کہیں نام لکھوادیا تو بعد میں کنوینر غریب داس کو تو کچھ نہیں کہے گا مگر اس کو ضرور ڈھونڈے گا جو نام لکھوائے گا۔ بیچارے غریب داس سے جلدی پڑھوانے کا وعدہ کرلیا تھا۔ چنانچہ جان بچانے کے لیے طے ہوا کہ ایک شعری نشست اپنے ہی گھر رکھ لی جائے۔ مختصراً ایسا ہی ہوا اور غریب داس کو دعوت دے دی گئی، نشست میں اکثر حضرات کو تو غریب داس کا حال معلوم تھا مگر جو کچھ شعراء آس پاس سے مدعو کیے گئے تھے وہ واقف نہیں تھے، ان سے غریب داس کا غائبانہ تعارف کرایا گیا اور سب کو آگاہ کردیا کہ خر پردیسی کی تک بندی کو برداشت کرلیں مگر صدارت کررہے ایک پروفیسر جو تاخیر سے پہنچے ان تک یہ پیغام نہ پہنچ سکا۔ جب لمبے چوڑے القاب و آداب اور تمام تر صفات واوصاف بتاکر ناظم نے خر پردیسی کو بلایا تو تالیوں کے ساتھ خر پردیسی کا استقبال ہوا اور خر صاحب نے ترنم سے غزل پڑھنا شروع کی۔ ترنم بھی کیا؟ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کچھ مل کر کسی کو ماررہے ہوں۔ ابھی حضرت کا ایک شعر ہی مکمل ہوا تھا کہ گلی سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ صدر محفل نے ازراہِ مذاق کہا کہ اچھا ہوا باہر گدھے موجود نہیں ہیں۔ جیسے تیسے کرکے ہنسی مذاق میں خر صاحب کی غزل مکمل ہوئی۔ کچھ احباب نے ایک اور ایک اور کا شور بلند کیا۔ مگر بے چارے دوسری غزل کیا سناتے کیوں کہ ایک ہی غزل پر ابھی خر صاحب کا انحصار تھا۔ نشست کے بعد سب ہی لوگوں نے محترم خر صاحب کی تعریف کے پل باندھے۔ اور سب نے یہی تاثر دیا کہ کیا کلام تھا آج علامہ اقبالؔ اور میرؔ و غالبؔ کی روح بھی…
حضرت خر تعریفوں سے گدگد تھے اسی زعم میں صدرِ محترم کی برابر والی نشست پر جابیٹھے تاکہ ان کے منھ سے بھی تعریفیں سن سکیں۔ صدر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا: ارے خر صاحب معاف کیجیے گا۔ میں تو آپ کو تخلص کی وجہ سے مزاحیہ شاعر سمجھ رہا تھا۔ یہ بتائیے یہ آپ کا تخلص رکھا کس نے؟ خر صاحب نے بجائے سوال کا جواب دینے کے خود سوال داغ دیا کہ یہ مزاحیہ شاعر کیا ہوتا ہے؟ صدر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں ،جس نے بھی خر تخلص رکھا ہے، بالکل صحیح رکھا ہے۔