میر صاحب
حامد علی اختر
میر صاحب کا اصل نام تو کچھ اور ہی تھا مگر گاؤں اور آس پاس کے علاقے میں میر صاحب کے نام سے ہی جانے جاتے تھے۔ حضرت کا اصل نام کیوں گمنام ہوگیا اس کی وجہ ان کا چالیس دن کی جماعت میں جانا بتایا جاتا ہے، وہ جب چالیس روزہ چلے سے واپس آئے تو لوگوں نے انھیں امیر صاحب کہنا شروع کردیا اور کچھ دنوں میں امیر صاحب سے میر صاحب ہوگئے اور اب یہی ان کا نام بھی ہے اور لقب بھی۔ میر صاحب بہت سیدھے سادھے اور ایمان دار نیک طبیعت انسان ہیں اور ہمیشہ اپنے کام سے کام، دنیاداری سے بالکل بے نیاز، ملنسار اور دوسروں کے دکھ درد میں کام آنے والے انسان۔ میرے بے تکلف دوست اور ہم راز۔
ایک روز راستہ میں اچانک مل گئے، بڑے غمگین و اداس، میں نے خیریت معلوم کرنا چاہی تو وہ خوش ہوکر بولے اچھا ہوا تم مل گئے! میں تمہارے ہی گھر جارہا تھا، خیریت؟ ہاں سب خیریت ہے۔ بیوی کو خط لکھوانا ہے، مجھے ضروری کام سے جانا تھا، مگر میر صاحب کا مزاج میں جانتا تھا، اسی لیے چپ چاپ گھر کی طرف چل دیا۔ گھر آکر میں نے کاغذ قلم سنبھالا اور میر صاحب نے لکھوانا شروع کیا۔
چھوٹے میر صاحب کی اماں!
ارے میر صاحب ابھی تو آپ کے صاحبزادے نے دودھ تک نہیں چھوڑا یہ جماعت میں کب چلے گئے؟ وہ جماعت میں تھوڑے ہی گیا وہ تو ہم جماعت میں گئے ہوئے تھے کہ یہ پیدا ہوگیا اور محلے والوں نے اسے چھوٹے میر صاحب، چھوٹے میر صاحب کہنا شروع کردیا۔ اچھا، اچھا مگر یہ تو بتائیے کہ اگر آپ کو پھر اللہ نے لڑکے ہی سے نوازا تو اس کا نام کیا ہوگا؟ میر صاحب نے برجستہ جواب دیا: حضرت جی سے پوچھ کے بتاؤں گا… اور مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی کیونکہ میرصاحب سے جب بھی کسی دینی مسئلہ پر بحث ہوتی اور وہ لاجواب ہوجاتے تو ہمیشہ یہی جواب دیتے کہ ’’حضرت جی سے پوچھ کر بتاؤں گا۔‘‘ مگر آج تک انھوں نے کوئی مسئلہ پوچھ کر بتایا نہیں۔
ہاں تو میر صاحب…
چھوٹے میر صاحب کی اماں !
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
جس دن سے تم گئی ہو ایک پل کے لیے بھی دل نہیں لگتا۔ گھر کا سارا سامان ادھر ادھر پھیلا پڑا ہے۔ سارے برتن گندے ہوگئے، کپڑے بھی گندے ہوگئے، کھانا، کھانے کے لیے ادھر ادھر بھٹکنا پڑرہا ہے، تمھیں کیا معلوم؟ تمہارے نہ ہونے سے مجھے کتنی مشکلیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ ہر ضرورت پر تم یاد آتی ہو۔ ’’رات کو تمہارے نہ ہونے کی وجہ سے کنگھے سے کام چلانا پڑرہا ہے۔‘‘ خط ملتے ہی فوراً چلی آؤ۔
والسلام
تمہارا میر صاحب
میر صاحب نے خط لیا اور چلتے بنے اور میں قلم ہاتھ میں لیے سوچتا ہی رہ گیا۔ یا اللہ میر صاحب رات کو کنگھے سے کیا شغل فرماتے ہیں۔ میں خود ایک شادی شدہ انسان ہوں۔ میاں بیوی کے تمام تعلقات آشکار ہوچکے ہیں۔ کالج اور ہوسٹل کی لائف گزار چکا ہوں۔ عشقیہ شاعری کے سمندر میں غوطہ زن ہوچکا ہوں۔ نہ جانے کتنے شوہروں سے تعلقات ہیں ان کے وصل و ہجر کے بے شمار واقعات سن چکا ہوں۔ مگر میر صاحب کا رات میں کنگھے سے کام چلانا، سمجھ سے باہر تھا۔ ابھی میں مزید غور وفکر کے موڈ میں تھا کہ بیگم کو جیسے ہی یہ احساس ہوا کہ میر صاحب چلے گئے ہیں، فوراً کمرے میں آ دھمکیں۔ کیوں جی جب میں نہیں ہوتی تو تم بھی رات کو کنگھے سے کام چلاتے ہو!مطلب… ! مطلب ہی تو میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔ میر صاحب کے خط کا مضمون میں نے بھی سن لیا ہے۔ آپ کو معلوم نہیں۔ دوسروں کی ذاتی زندگی میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ اجی میں کچھ نہیں جانتی، مجھے کنگھے والی بات بتاؤ۔ ارے میں خود سوچ رہا ہوں کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ بھلا ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ مردوں کی بات آپ کو پتا نہ ہو۔ بخدا مجھے خود سمجھ میں نہیں آرہا۔ اگر آپ کو معلوم نہیں تھا تو آپ میر صاحب سے معلوم نہ کرتے؟ بات تو محترمہ آپ کی کسی حد معقول ہے، مگر میں اس لیے خاموش رہا کہ یہ میر صاحب کی ذاتی زندگی سے متعلق ہے۔ اجی آپ مجھے بے وقوف بنا رہے ہیں آپ کو میری قسم اگر آپ نہ بتائیں۔ بیگم ناراض ہوکر چلی گئیں۔ مجھے بھی اس معمہ کو حل کرنے میں حد سے زیادہ دلچسپی محسوس ہونے لگی۔ میں نے طے کرلیا کہ صبح میر صاحب سے معلوم کرکے ہی دم لوں گا۔
صبح میر صاحب کے گھر جاکر معلوم ہوا موصوف جماعت میں کوچ فرماچکے ہیں اور چالیس دن بعد وارد ہوں گے۔ کمپیوٹر کے اس دور میں کسی مسئلے کے حل کے لیے چالیس دن کا انتظار؟ مگر انتظار کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا، چنانچہ گھر واپس آیا اور کنگھا اٹھا کر بغور مطالعہ شروع کیا۔ الٹ پلٹ کر دیکھا تمام چھوٹے بڑے دانتے بار بار گنے مگر کوئی حل نہ نکلا۔ بیوی کا اضطراب کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تھا اور وہ بذاتِ خود اس معمہ کو حل کرنے کے لیے کوشاں تھی، اس نے بڑی محنت سے قدیم و جدید کنگھے اکٹھے کرلیے تھے، مگر حل صفر ہی تھا۔ میں بڑی مشکل سے بیوی کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوا کہ آپ کی طرح میں بھی اس حقیقت سے نا آشنا ہوں۔
باہمی مشورے سے طے پایا کہ میر صاحب تو کسی قیمت پر بھی چالیس دن سے پہلے ملنے والے نہیں ہیں، اس لیے میر صاحب کے ہم سایہ ملا جی سے اس بارے میں گفتگو کی جائے، کیونکہ وہ میر صاحب کے لنگوٹیا دوست ہیں اور ہم راز بھی ہیں۔ وہ کنگھے کے راز سے بھی ضرور واقف ہوں گے۔ شام کو ملا جی سے ملنے گیا۔ ملا جی بڑے تپاک سے ملے۔ کافی دیرتک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ ہمت کرکے اصل موضوع پر آیا۔ ملاجی کنگھے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ بھئی کنگھے کا مسئلہ تو اختلافی نہیں ہے، تمام ائمہ کے نزدیک کنکھا کرنا سنت ہے اور میں نے بڑی سعادت مندی سے ہاں میں ہاں ملائی۔ مگر… ملا جی دراصل میرا مطلب … کنگھے… کے۔ ارے بھئی آپ معلوم کیا کرنا چاہتے ہیں ؟اور میں ایسا ہڑبڑایا کہ اصل بات نہ کہہ سکا اور بے ساختہ زبان سے نکلا میرا مطلب کن حالات میں فرض ہوجاتا ہے؟ کنگھا فرض ہوجاتا ہے؟ بھئی یہ تو کسی مفتی سے معلوم کرنا پڑے گا۔ ملا جی مفتی صاحب کوکیوں زحمت دیتے ہیں؟ میں تو صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کنگھا کب کب اور کن حالات میں کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟ یا کبھی میر صاحب نے کوئی خاص استعمال بتایا ہو؟
ارے بھئی! میر صاحب نے تو کبھی کچھ نہیں بتایا۔ ہاں یہ معلوم ہے کہ جب بال الجھے ہوئے ہوں تو موٹی طرف سے اور پھر باریک طرف سے وقتاً فوقتاً داڑھی وغیرہ … میں سمجھ گیا کہ حضرت بھی کورے ہی ہیں۔ چند دوستوں سے تبادلہ خیال ہوا مگر کوئی ایسی بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جس سے اندازہ ہو کہ یہی صحیح حل ہوگا۔ الٹے احباب میں یہ مشہور ہوگیا کہ میں کنگھوں کی فیکٹری لگانے والا ہوں، کئی نے تو پیشگی مبارکباد بھی دے دی۔ اسی درمیان معلوم ہوا کہ میر صاحب کی بیگم تشریف لاچکی ہیں اور ہماری اہلیہ شرفِ ملاقات بھی حاصل کرچکی ہیں مگر وہ بھی کنگھے کے اس استعمال سے ناواقف ہیں بلکہ ان کا تو ذہن مزید ادھر ادھر بھٹک رہا ہے کہ کہیں ان کی غیر موجودگی میں ان کی جگہ تو کسی اور نے نہیں لے لی، وہ اس خیال سے ہی فوراً بھاگی چلی آئیں، مگر حالات بدستور پاکر مطمئن تو ہیں مگر بڑی شدت سے میر صاحب کا انتظار کررہی ہیں تاکہ انھیں بھی کنگھے کی کرامت معلوم ہوجائے اور ضرورت پڑنے پر وہ بھی استعمال کرسکیں۔
بیگم کی گفتگو سن کر مجھے نئی ٹینشن شروع ہوگئی کہ اگر کہیں کنگھے کا استعمال کچھ ایسا ویسا ہوا تو یہ بھی تجربہ شروع نہ کردیں۔ چنانچہ ہم نے عزمِ مصمم کیا کہ قبل اس کے کہ یہ راز میر صاحب اپنی اہلیہ کو بتائیں ہمیں معلوم ہونا چاہیے، تاکہ ضرورت پڑنے پر ہم اپنی بیگم کو مس گائیڈ کرسکیں۔ چنانچہ ہم نے میر صاحب کی واپسی کا صحیح وقت اورتاریخ معلوم کی اور یہ جان کر خوشی ہوئی کہ گاؤں میں آنے سے قبل قصبہ کے مرکز میں ایک رات قیام رہے گا۔ ہم نے بڑی محنت سے یہ معلومات حاصل کی تھیں۔ چنانچہ ہم وقت مقررہ پر مرکز پہنچے اور میر صاحب سے ملاقات کی اور جب اس راز سے پردہ اٹھا تو بہت دیر تک ہم ہنستے ہی رہے، کیونکہ ان دنوں میر صاحب کی پیٹھ پر اکثر رات کو کھجلی ہوتی تھی اور ہاتھ جاتا نہیں تھا، اس لیے بے چارے بیگم کے ہاتھ نہ ہونے کی وجہ سے کنگھے کا سہارا لیتے تھے۔