*جمعیت علمائے ہند :ماضی اطمینان بخش، مستقبل روشن*

قاری رحمت اللہ نعمانی مہتمم جامعہ حفصہ للبنات اشوک وہارلونی غازی آباد
اس تنظیم کا جنگ آزادی سے لے کر ملک کے مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے مسائل کے حل میں ناقابل فراموش کردار رہا ہے- یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو بلا کسی جھجک اور پس و پیش کے فیصلہ کن اقدام کرتی ہے- اس تنظیم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی بڑی سے لے کر ذیلی اکائیاں پورے سال سرگرم اور فعال رہتی ہیں اور ہر سطح پر ملی، دینی اورفلاحی سرگرمیوں خاص طور سے اصلاح معاشرہ اور تعلیمی بیداری میں منہمک رہتی ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا ہدف اور عزائم غیر معمولی ہیں- کئ اعتبار سے جمیعت علمائے ہند کی ایک روشن تاریخ ہے جن کا اس تحریر مکمل تذکرہ کرنا ممکن نہیں ہے –
جمعیت علمائے ہند کی  دینی، علمی سماجی، ملی اور سیاسی و انسانی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے – کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مذہبی تنظیم ہے لیکن اب اس کا دائرہ کار بہت ہی وسیع  ہو چکا ہے- مسلمانوں کا کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کو دور کرنے کے لیے اس تنظیم نے پہل نہ کی ہو- اس وقت عالمی سطح پر دہشت گردی پوری دنیا کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور دہشت گردی کے نام پر مذہب اسلام اور اس کے ماننے والوں کو اس قدرمتہم اور بدنام کیا گیا کہ مسلمان دفاعی پوزیشن میں آگئے تھے لیکن جمعیت علمائے ہند نے مسلمانوں خاص طور سے مایوس مسلم نوجوانوں کو حوصلہ اور ہمت دینے کے لیے فیصلہ کن اقدام کیے اور ملک کے کسی بھی حصے میں جہاں سے بھی دہشت گردی کے الزام میں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تو جمیعت علماء ہند نے بلا پس و پیش مسلم نوجوانوں کو باعزت بری کرانے میں اہم رول ادا کیا اور ان کے خاندان کے شانہ بشانہ کھڑی رہی تاکہ پورے خاندان کی ہمت برقرار رہے- دہشت گردی کے معاملے میں جس پیمانے پر مسلم نوجوان گرفتار ہوئے اور جن مسائل سے دوچار ہوئے ان مسائل کو دور کرنے کے لیے جمیعت علماء ہند نے جو رول ادا کیا ہے اور جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہی-  مسلم نوجوان انہی کارناموں کی وجہ سے آج بھی جمعیت علمائے ہند کی طرف امید بھری نظروں سے اور بڑی توقعات کے ساتھ  اسی تنظیم ہی کی طرف دیکھ رہے ہیں جب کہ کہنے کے لیے دیگر مسلم تنظیمیں بھی ہیں لیکن ان کا دائرہ کار بہت محدود ہے لیکن آزادی کے بعد ہی سے جمعیت علمائے ہند کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیا – اسی طرح سے جب ملک کے کسی حصے میں سیلاب آتا ہے کوئی زلزلہ آتا ہے یا کسی بھی طرح کی آفات سماوی وارضی آتی ہے تو جمیعت علمائے ہند ایسے موقع پر اپنی ذیلی اکائیوں کے کارکنان کے تعاون سےمتاثرین کی بھرپور مدد کرتی ہے ان متاثرہ مقامات پر بلا تاخیر جمیعت علمائے ہند کے کارکنان پہنچ کر راحت رسانی کا کام کرتی ہے جو یقینا ایک ناقابل فراموش کارنامہ ہے اور ملک کے مختلف علاقوں اور صوبوں میں جمیعت نے سیلاب زدگان اور بے گھر لوگو کو مدد پہنچانے میں انتہائی انسانیت اور دردمندی کا ثبوت دیا ہے اس طرح اگر کہا جائے تو جمیعت علمائے ہند مسلمانان ہند کے لیے ایک تنظیم ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی نعمت اور سرپرست بھی ہے- ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جمہوری ملک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں ہر شہری کو جو حقوق دیے گئے ہیں حکومت ان حقوق کا تحفظ کرے گی اور ہر شہری اس ملک میں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی زندگی گزارے گا لیکن اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو  ہمارے جمہوری حق سلب کرنا چاہتے ہیں اور مختلف طریقے سے، بیان کے ذریعے اور عملی اقدام کے ذریعے اس جمہوری روایت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ایسے موقع پر بھی جمیعت علمائے ہند نے ملک کی جمہوری قدروں کو بچانے کے لیے برادران وطن کے شانہ بشانہ ملک کے مختلف مقامات اور صوبوں میں جمہوریت کے تحفظ کے لیے پروگرام بھی منعقد کرتی رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمان تو مسلمان برادران وطن بھی جمہوریت کے تحفظ میں جمیعت علمائے ہند  کی خدمات اور کارناموں کی ستائش کر رہے ہیں اور جمیعت علمائے ہند کا اس بابت اقدام کی ہر طرف ستائش بھی ہو رہی ہے – اسی طرح سے جب اوقاف کے سلسلے میں نیا قانون لا کر اوقاف کے سلسلے میں نئے اندیشے پیدا کیے گئے اس نئے قانون میں کچھ ایسی دفعات شامل کی گئیں جس سے یہ احساس ہونے لگا کہ ہمارے بزرگوں کی وقف کی گئی ہوئی زمین خرد برد کا شکار ہو جائے گی تو جمیعت علماء ہند نے اس سلسلے میں بھی مسلمانوں کے اندر بہت بڑے پیمانے پر بیداری پیدا کی اور لوگوں کو اوقاف کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اوقاف مسلمانوں کے لیے کتنے مفید ہیں، اوقاف ہماری موجودہ نسل کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں اور مستقبل میں اوقاف سے قوم و ملت کا بچوں کی تعلیم و ترقی میں کیا رول ہوگا- بہرحال جمیعت علمائے ہند کا ماضی انتہائی تابناک رہا ہے حال بھی تابناک ہے اور ان شاء اللہ مستقبل بھی تابناک رہے گا نئی نسل جمعیت علمائے ہند سے کافی توقع رکھتی ہے کیونکہ وطن عزیز میں یہی ایک ایسی تنظیم ہے جو مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے ہر طرح کے مسائل کو  دور کر سکتی ہے چاہے وہ تعلیمی مسائل ہو چاہے وہ سماجی مسائل ہوں چاہے وہ سیاسی مسائل ہوں ہر مسئلے میں جمیعت علمائے ہند اہم رول ادا کرتی رہی ہے اور اس کے اقدامات ہمیشہ نتیجہ خیز اور ثمر آور ہوتے ہیں- جمعیت علمائے ہند کی موجودہ  بے باک قیادت اور اس کی بصیرت افروز حکمت کے سبب سبھی مسلمانوں کی مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانان ہند کی رہنمائی کر رہی ہے ان کے عزائم کو مضبوط کر رہی ہے ان کو حوصلے دے رہی ہے اور ان کو ہر اعتبار سے مضبوط و مستحکم بنانے میں اہم رول ادا کر رہی ہے- آئیے ہم لوگ بھی عہد کرتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی مسلم تنظیم کو مضبوط بنانے کے لیے اپنے اپ کو وقف کریں گے تن من دھن سے  سے اس کا تعاون کریں گے تاکہ اس تنظیم کا مستقبل مزید روشن ہو اور نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ برادران وطن کے لیے بھی یہ تنظیم پہلے کے بالمقابل مزید مفید اور سود مند ثابت ہو-
اس وقت پاسبان ملت جمعیت علماء ہند ملک کی فلاح و بہبود،دہشتگردی کےخاتمے، ملک کے شہریوں کی شہریت کے تحفظ، فروغ تعلیم اور دیگر انسانی مسائل کو حل کرنے میں منہمک ہے -ایسی تنظیم کے لیے تہ دل سے  دعا نکلتی ہے-اللہ تعالیٰ اس تنظیم کی موجودہ قیادت کو مزید ہمت و حوصلہ عطا فرمائے –