اپنی رائے کی طرح دوسرے کی رائے کا بھی احترام کیا جانا چاہئے

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
یہ حقیقت ہے کہ اختلاف رائے ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ ہمیں دور نبوت میں بھی اس کا سراغ ملتا ہے۔ دور نبوت میں بعض صحابہؓکے درمیان اگر کسی اجتہادی مسئلہ میں اختلاف ہوجاتا تو وہ نبی کریم ؐ کی طرف رجوع فرماتے ۔ آپؐ ان کے سامنے مسئلہ کی صحیح نوعیت کو واضح فرمادیتے اور ان کا اختلاف رفع ہوجاتا۔ کیونکہ تمام صحابہؓ کے نزدیک نبی کریمؐ کی ذاتِ گرامی ہر معاملے میں مرجع اور آپؐ کی ہربات ان کے لیے قولِ فیصل ہوتی تھی۔
البتہ جو لوگ مدینہ سے دور رہتے اور ان میں کسی معاملے میں اختلاف ہوجاتا تو وہ اختلاف اس وقت تک باقی رہتا جب تک ان کی آنحضورؐ سے ملاقات نہ ہوجاتی۔ جب ان کی آنحضورؐ سے ملاقات ہوتی تو وہ اپنی اجتہادی رائے آنحضورؐ کی خدمت میں پیش کرتے۔ آپؐ یا تو اس کی تصویب فرمادیتے یا ان کی غلطی کو واضح کرکے درست پہلو کی ضاحت فرمادیتے۔ اس طرح صحابہؓ کا باہمی اختلاف رائے دور ہوجاتا اور وہ سب آنحضورؐ کے فیصلہ سے مطمئن ہوجاتے۔
بخاری کی روایت ہے کہ غزوۂ احزاب کے موقعہ پر ایک روز نبی کریمؐ نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’آج ہر شخص عصر کی نماز بنی قریظہ ہی میں ادا کرے چنانچہ کچھ لوگوں کو راستہ میں نماز کا وقت ہوگیا ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم تو بنی قریظہ پہنچ کر ہی نماز عصر ادا کریں گے، بعض نے کہا ہم یہیں نماز ادا کیے لیتے ہیں کیونکہ آنحضورؐ کی مراد یہ نہیں ہے۔ (جو تم لے رہے ہو) یہ بات نبی کریمؐ سے بیان کی گئی تو آپؐ نے ان میں سے کسی کو ملامت نہیں کی۔‘‘(صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ)
ا س روایت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس روز نماز عصر کی ادائیگی کے سلسلہ میں صحابہ کرامؓ کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ بعض حدیث کے ظاہری مفہوم کے پیش نظریہ کہہ رہے تھے کہ آنحضورؐ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ نماز عصر نبی قریظہ ہی میں پہنچ کر ادا کی جائے۔ دوسرے صحابہؓ نے ظاہری مفہوم کے بجائے اس میں اجتہاد کیا اور وہ مفہوم اخذ کیا، جس کی ظاہری الفاظ میں گنجائش تھی۔ یعنی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا اصل مقصد عصر کے وقت تک نبی قریظہ میں پہنچنے کا تھا۔ اس لیے اگر راستہ میں نماز کی ادائیگی سے بنی قریظہ میں پہنچنے میں تاخیر نہیں ہوتی ہے تو اول وقت ہی راستہ میں نماز پڑھ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
چنانچہ نبی کریم ؐ سے جب اس واقعہ کا تذکرہ کیا گیا تو آپؐ نے دونوں نقطہ ہائے نظر کو درست قرار دیا۔
اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نص کے ظاہری مفہوم پر بھی عمل کرنا جائز ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ’’نص‘‘ سے ایسے مفہوم ومعانی مستنبط کیے جائیں جن کی ’’نص‘‘ کے الفاظ میں گنجائش ہو۔ آنحضورؐ نے دونوں نقطہ ہائے نظر کی تصویب فرمائی ہے۔ اس لیے علماء اور عوام دونوں کی ذمہ داری قرار پاتی ہے کہ وہ نہ اس شخص اور مکتبہ فکر کو مطعون کریں جو ’’نص‘‘ کے ظاہر ی مفہوم کو اختیار کرتا ہے اور نہ ہی اس کو قابل ملامت گردانیں جو ’’نص‘‘ میں اجتہاد کرکے اس کے اندر پوشیدہ مفہوم کو اخذ کرتا ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کس وناکس شخص اجتہاد وتاویل کرنے لگے اورظاہری مفہوم کے بجائے اپنی عقل نارسا کی بنیاد پر اس کے پوشیدہ معانی ومفاہیم کی توضیح وتشریح کرنے لگے۔ خود دور نبوت میں وہی صحابہؓ اجتہاد کرسکتے تھے جو اجتہاد کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔ اگر ان کے علاوہ کوئی اجتہاد کرتا تو آنحضورؐ اس پر نکیر فرماتے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں:
’’ایک مرتبہ ہم سفر پر نکلے ہمارے ایک رفیق کے سر میں پتھر سے چوٹ آگئی۔ پھر اسے احتلام ہوگیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا ’’ کیا میرے لیے تیمم کی اجازت ہے۔‘‘ انہوںنے جواب دیا ’’چوں کہ آپ پانی کے استعمال پر قادر ہیں اس لیے رخصت کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔‘‘ چنانچہ اس نے غسل کیا اور تھوڑی دیر میں وہ مرگیا۔ واپسی پر جب ہم خدمت رسالت مآب میں حاضر ہوئے اور آپؐ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو آپؐ نے فرمایا:’’جن لوگوں نے اسے مارڈالا اللہ ان سے نمٹے جب انہیں مسئلہ معلوم نہیں تھا تو انہوں نے معلوم کیوں نہیں کرلیا۔ اس کے لیے تیمم کرلینا کافی تھا۔‘‘
اس واقعہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کافی علم نہ ہونے کی موجودگی میں نہ اجتہاد کرنا جائز ہے اور نہ فتویٰ دینا بلکہ ایسی صورت حال میں اہل علم کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے۔
فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لاتعلمون’’اگر تمہیں معلوم نہیں تو اہل علم سے معلوم کرلیا کرو۔‘‘(النحل:43)
احادیث میں اس طرح کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ جب کبھی صحابہ کرامؓ میں اختلاف رائے ہوا تو انہوںنے نبی کریمؐ کی طرف مراجعت کرکے اپنے اختلاف کو ختم کردیا انہوں نے کبھی اس کی نوبت نہ آنے دی کہ اختلاف رائے طول پکڑے اور وہ مخالفت ونزاع کا سبب بن جائے۔ خودرسول اکرمؐ صحابہ ؓ کو اختلاف سے احتراز کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔ کیونکہ آپؐ جانتے تھے کہ ملت کی بقاء کے لیے ضروری ہے کہ اختلاف سرنہ اٹھانے پائے اور وہ کسی بھی شکل میں مخالفت تک نہ پہنچنے پائے۔ چنانچہ آپ ؐنے واضح الفاظ میں ہدایت فرمائی:
لَاتَخْتَلِفُوْا فَتَخْتَلِفَ قُلُوْبُکُمْ۔(بخاری)’’تم آپس میں اختلاف پیدا نہ کرو، ورنہ تمہارے دلوں میں فرق پڑجائے گا۔‘‘
قرآن پاک بھی صحابۂ کرامؓ کی تربیت اسی انداز پر کررہا تھا ۔ جب کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی اختلاف نموپانے لگتا تو قرآن ان کو متنبہ کرتا۔ اور اختلاف کو ابھرنے سے پہلے دبادیا جاتا۔
خود صحابۂ کرامؓ بھی ’’اختلاف‘‘ کو موجب خیر نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے تھے: الخلاف شر’’اختلاف سر تاسرشر کا سبب ہے‘‘ چنانچہ صحابۂ کرامؓ کی کوشش ہوتی کہ کسی طرح آپس میں اختلاف پیدا نہ ہوسکے اسی وجہ سے وہ بہت زیادہ سوال کرنے اور موشگافیاں کرنے سے پرہیز کرتے۔ گفتگو کے وقت احتیاط برتتے۔ مافی الضمیر کی ادائیگی کے لیے بہترین الفاظ کا انتخاب کرتے۔ جارحانہ کلمات سے حتی الامکان پرہیز کرتے۔ دوسرے کی بات کو غور سے سنتے، اس کی بات کو وزن دیتے، اور اس کی رائے کا ادب واحترام ملحوظ رکھتے اور اگر کبھی ان تمام تر احتیاطوں اور کوشش کے باوجود اختلاف ہوجاتا تو جدال ومناظرہ کی نوبت نہ آنے دیتے اور رسول اللہؐ کی طرف مراجعت کرکے اپنے اختلاف کو رفع کرلیتے۔
اختلاف رائے ایک فطری امر ہے اور ا س سے کوئی بھی انسانی معاشرہ بچ نہیں سکتا۔ صحابۂ کرام ؓ وہ عظیم ہستیاں ہیں ، جن کی تربیت قرآن وحدیث کے سایہ میں ہوئی ور صحابۂ کرامؓ کا گروہ وہ مقدس گروہ ہے جس سے زیادہ پاک باز اور پرہیز گار کوئی دوسرا گروہ اس زمین پر آج تک نہ وجود میں آیا اور نہ وجود میں آسکے گا۔ مگر اختلاف رائے ان کے دور میں بھی ہوا مگر اس سے ان کی عظمتِ شان پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ ان کی قدر ومنزلت اور بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ ایک فطری امر(اختلاف رائے) کو وہ اس کے فطری حدود سے آگے نہیں بڑھنے دیتے اور اختلاف رائے کے سلسلہ میں ایسے طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ پوری انسانیت دم بخود رہ جاتی ہے۔
حضورؐ اکرم کی وفات کے بعد صحابۂ کرام کے درمیان بہت سے اختلافات کا سراغ ملتا ہے۔ لیکن صحابہ کرامؓ نے ان اختلافات کو کس خوبی کے ساتھ رفع کیا یا اگر وہ باقی بھی رہے تو انہوںنے فریق ثانی کی رائے کا کس طرح ادب واحترام کیا اور انہوںنے اختلاف رائے کو کبھی بھی اپنی غرض یا مفادکے لیے نہ استعمال کیا اور نہ اسے جائز حدود سے آگے بڑھنے دیا۔ صحابہ کرامؓ میں اگر کبھی اختلاف رونما ہوتا تو وہ قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرتے اور جب قرآن وحدیث کا فیصلہ سامنے آجاتا تو اس کو بلاچوں وچرا تسلیم کرلیتے۔ وہ قرآن وحدیث کے مفہوم کو کھینچ تان کر اپنی رائے کے مطابق بنانے کی ذرا بھی کوشش نہ کرتے بلکہ اپنی رائے کو قرآن وحدیث کے مطابق بدل لیتے اور اگر قرآن وحدیث سے کوئی فیصلہ نہ ہوپاتا تب بھی اپنی رائے پر اصرار نہ کرتے بلکہ دوسرے کی رائے کو بھی وزن دیتے اور نہایت دیانت داری سے دونوں رایوں کا موازنہ کرتے۔ اگر دوسرے کی رائے درست معلوم ہوتی تو اپنی رائے کو ترک کردیتے اور دوسرے کی رائے کو اختیار کرنے میں کسر شان محسوس نہ کرتے۔